کفار سے قطع تعلق کا حکم

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ اِلَّا عَنۡ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗۤ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ؕ اِنَّ اِبْرٰہِیۡمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۱۴﴾
ترجمہ کنزالایمان:     اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھامگر ایک وعدے کے سبب (۱) جو اس سے کرچکا تھا (۲)پھرجب ابراہيم کو کھل گيا  کہ وہ اللہ کا دشمن ہے(۳) اس سے تنکا توڑ دیا(لا تعلق ہو گيا )(۴) بیشک ابراہيم بہت آہيں کرنے والا متحمل ہے(۵)۔(پ۱۱، التوبۃ:۱۱۴)
تفسير:
    (۱) شان نزول حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے مشرک ماں باپ کے لئے دعائے مغفرت کر رہا ہے ، آپ نے اسے منع فرمایا ۔ اس نے عرض کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے مشرک چچا کے لئے بخشش کی دعا کی تھی سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ واقعہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ۔اس پر یہ آیت کریمہ اتری ۔ 
    (۲) یعنی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والدسے دعا ئے مغفرت کا وعدہ فرمایا تھا اور یہ وعدہ اس کی ممانعت سے پہلے ہوچکا تھا ۔ بعد میں مشرکین کے لئے دعا مغفرت سے منع فرمایا گیا ۔یا ان کے چچا نے ایمان کا وعدہ کیا تو آپ نے دعا کا وعدہ  کیا ۔اس نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا ۔ آپ نے پورا فرمایا ۔
    (۳) يا  اس طرح کہ آپ پر وحی آگئی کہ آزر کا خاتمہ کفر پر ہوگا يا  اس طرح کہ وہ کفر پر فوت ہوگیا۔تو آپ نے اس کے لئے دعائے مغفرت فرمانی بند کردی۔ 
    (۴) اس طرح کہ دعائے مغفرت ترک فرما دی اور دل سے متنفر ہو گئے معلوم ہوا کہ کافر سے نفرت چاہے اگرچہ وہ اپنا قريبی رشتہ دار ہو۔
    (۵) معلوم ہوا کہ ابراہيم عليہ السلام مظہرِ جمال ہيں کہ دشمن پر بھی سختی نہيں فرماتے۔حضرت نوح عليہ السلام اور موسیٰ عليہ السلام مظہرِ جلال ہيں۔
(تفسير نورالعرفان)
Exit mobile version