حمداورمناجات کےتناظر میں
قرآن کا اسلوب بیان
جب کوئی لفظ اصطلاحی معنوں میں استعمال ہونے لگتا ہے تو اس کے لغوی معنی کی اہمیت نہ صرف ختم ہو جاتی ہے بلکہ اس کا اس معنی میں استعمال بھی متروک ہو جاتا ہے۔ اردو زبان میں دو الفاظ ’’مدح ‘‘ اور ’’منت سماجت‘‘ مستعمل ہیں۔ مدح کے لغوی معنی تعریف، توصیف، ستائش اور منت سماجت بمعنی عرض معروض، خوشامد اور درخواست وغیرہ۔ اول الذکر سے ’’حمد‘‘ اور ثانی الذکر سے ’’مناجات‘‘ کی اصطلاحیں مشتق اور مستعمل ہیں۔ یہ اصطلاحیں ذات باری تعالیٰ کے لئے مخصوص قرار دی جا چکی ہیں۔ لہٰذا حمد اور مناجات کا اطلاق خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی اور کے لئ درست نہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد الحمد کی تشریح میں حمد کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’عربی میں حمد کے معنی ثنائے جمیل کے ہیں یعنی اچھی صفتیں بیان کرنا۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو وہ حمد نہ ہو گی۔ ‘‘ (ترجمان القرآن، جلد اول،ص:۳۱)
قرآن ایک ایسا مخزن علم ہے جس سے ہر مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا بحر بیکراں ہے جس میں سے ہر قسم کے موتی کھنگالے جا سکتے ہیں سوال غوطہ لگانے کا ہے۔ جویندہ پائندہ۔ جو تلاشتا ہے وہ پاتا ہے۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے بندوں کو طریقہ زندگی سکھانے کے لئے زندگی کے ہر پہلو پر اجمالی روشنی ڈالی ہے جس کی جیتی جاگتی تصویر حضور سرور کائنات ﷺ کی تیئس سالہ عملی زندگی ہے۔ آپ کی زبان ترجمان سے قرآن تلاوت فرما کر زندگی کے ہر پہلو کو روشن کر دیا تا کہ کوئی گوشہ تشنہ نہ رہے۔
قرآن پاک کی کئی سورتیں اسی مفہو م سے شروع ہوتی ہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ یہ ترغیب ہے بنی نوع انسان کے لئےکہ وہ بھی اللہ کی پاکی بیان کرے۔ اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ خدائے لم یزل کی پاکی بیان کرنا، اس کی ذات و صفات کی تعریف کرنا حمد کے زمرہ میں آتا ہے۔ یہ قرآن کا اپنا ایک منفرد اسلوب بیان ہے۔
’’سورۃ الحشر‘‘ اور ’’ الصف ‘‘ اس آیت سے شروع ہوتی ہیں۔ ’’ سبح للہ مافی السمٰوٰت ومافی الارض‘‘ پاکی بیان کرتے ہیں اللہ کی جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اسی طرح ’’سورۃ الجمعہ‘‘ اور ’’ التغابن‘‘ کی ابتدا بھی اس آیت کریمہ سے ہوتی ہے۔ ’’یسبح للہ مافی السمٰوٰت وما فی الارض‘‘ اللہ کی بیان کرتے ہیں جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ قرآن پاک میں ایسی بھی آیتیں ہیں جن میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے۔ چہ جائے کہ یہ حکم لزومی نہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہے۔
’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ (سورۂ الاعلیٰ، آیت نمبر ۱)پاکی بیان کرو اپنے رب کی جو سب سے بلند ہے۔ ’’وللہ الاسماء الحسنیٰ فادعوبھا‘‘ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر ۱۸۰) اور اللہ کے لئے حسن و خوبی کے نام ہیں(یعنی صفتیں ہیں)پس چاہئے کہ انہیں ان صفتوں سے پکارو۔ اسی طرح قرآن پاک میں للہ ملک السمٰوٰت والارض ومافیھن کہہ کر فیصلہ کر دیا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب پر اللہ ہی کی حکمرانی ہے۔ اسی مفو م کو علامہ اقبال نے یوں ادا کیا ہے :
درس او، اللہ بس،- باقی ہوس
تا نہ فتد مرد حق در بند کس
حکمرانی اور فرمانروائی صرف خدا کے لئے ہے۔ اس کے سوا کسی کو حق حاصل نہیں۔
خدائے پاک اپنی ذات و صفات میں لامحدود ہے۔ اس کی ذات و صفات کا احاطہ نہیںکیا جا سکتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف میں ہر مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ جہاں تک ذات کا سوال ہے تو وہ نورالسمٰوٰات و الارض ہے۔
حمد مدح رب العالمین ہے تو مناجات اس سے مانگنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔ یہ وہ طریقہ دعا ہے جس میں بندہ اپنے رب کے حضور اپنے آپ کو کمتر، حقیر اور گناہ گار ہو کر پیش کرتے ہوئے التجا کرتا ہے۔ اس لئے ہر مناجات دعا ہو سکتی ہے لیکن ہر دعا مناجات کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی۔ دعا تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن مناجات کا تعلق ایمان سے ہے۔ ایک صاحب ایمان کوہی یہ کیفیت حاصل ہو سکتی ہے۔
میری دانست میں دیباچۂ سورۂ فاتحہ جہاں بے شمار فضائل کی حامل ہے وہیں حمد و مناجات کی بہترین مثال ہے نیز اس سورۂ مبارکہ کے کل بیس اسما ہیں جن میں ’’سورۃ الحمد‘‘ اور ’’سورۃ المناجاۃ‘‘ بھی ہیں۔ سورۂ فاتحہ سے حمد و مناجات کا انداز بھی ملتا ہے۔ انسان اس کی بلندی کو تو نہیں چھو سکتا لیکن نقل تو کر سکتا ہے۔ یہ نقل بھی عند اللہ ماجور ہے۔ سورۂ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جس کی پہلی تین آیتیں :
الحمد للہ رب العالمین/تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔
الرحمن الرحیم/وہ مہربان اور رحم والا ہے۔
مالک یوم الدین/یوم جزا کا مالک ہے
حمد کی ہیں جن میں خدائے تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ سورہ بھی ’’حمد‘‘ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ال کا اضافہ فرما کر اسے مختص بالذات کر دیا۔ چوتھی آیت ’’ایاک نعبدوایاک نستعین‘‘ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں)میں اظہار عبودیت اور استعانت ہے اور یہ کیفیت مناجات کے لئے ضروری ہے۔ آخری تین آیتیں مناجات کی بترجین مثالیں ہیں :
اھدنا الصراط المستقیم/چلا ہمیں سیدھے راستے پر
صراط الذین انعمت علیھم/ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ہے۔
غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین/نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہو ا اور نہ ہی گمراہوں کا۔
علامہ اقبال نے اسی کو ترانۂ وحدت کے نام سے قلم بند کیا ہے۔ علامہ اقبال نے بعینہٖ ترجمہ کا حق تو ادا نہیںکیا۔ یہ ان کی شاعرانہ مجبوری تھی لیکن اس کے مفہوم کو پوری طرح سمونے کی کوشش کی ہے۔
سب حمد تجھے ہی زیبا ہے تو رب ہے سارے جا نوں کا
سب سورج چاند ستاروں کا سب جانوں کا بے جانوں کا
یہ سبع من المثانی ہر نماز کا جزو لاینفک ہے۔ کاش کہ نمازی سورۂ فاتحہ کا مفہوم ہی سمجھ لیتا تو اس کی نماز کی کیفیت ہی بدل جاتی۔ قرآن پاک میں حمد کےمفہوم کی بے شمار آیتیں موجود ہیں جن میں سے چند نمونہ از خروارے پیش کی جاتی ہے۔ خدائے پاک کی اس سے بہترین حمد کیا ہو سکتی ہے کہ وہ خود فرمائے کہ اس کی حمد اس طرح بیان کی جائے۔
سورۃ الانعام کی ابتدا اس آیت کریمہ سے ہوتی ہے۔ الحمد اللہ الذی خلق السمٰوٰت والارض تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔ سورۃ الحشر کی آخری آیتیں جن میں اللہ تعالیٰ کے صفات بیان کی گئی ہیں۔
٭ ھواللہ الذی لا الہٰ الاھو، عالم الغیب والشھادہ ھوالرحمن الرحیم۔
وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر نہاں اور عیاں کا جاننے والا۔ وہی ہے بڑا مہربان اور رحمت والا
ھواللہ الذی لا الہٰ الاھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحٰن اللہ عما یشر کون۔
وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بادشاہ، پاک، سلامتی دینے والا، امن بخشنے والا، حفاظت فرمانے والا، عزت والا، عظمت والا، تکبر والا۔ اللہ کو پاکی ہے ان کے شرک سے۔
٭ ھواللہ الخالق الباریٔ المصورلہ الاسماء الحسنیٰ یسبح لہ مافی السمٰوٰت والارض وھوالعزیز الحکیم۔
وہی ہے اللہ بنانے والا، پیدا کرنے والا، ہر ایک کو صورت دینے والا اسی کے ہیں سب اچھے نام، اس کی پاکی بیان کرتے ہیں جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ ہی عزت والا حکمت والا ہے۔
اسی طرح آیت الکرسی حمد کی بہترین مثال ہے۔ یہ آیت اکثر لوگوں کو یاد ہوتی ہے اس لئے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
ایسی تمام دعائیں جس میں بندہ اپنے رب کے حضور اپنے گنا ہوں کا اعتراف کرتے ہوئے دعا مانگتا ہے یا جس کے پڑھنے سے خودبخود رقت کی کیفیت طاری ہو جائے اور اسے اپنے گناہ یاد آنے لگیں مناجات کے زمرہ میں آتی ہیں۔ قرآن میں اس مفہوم کے لئے ایک بہت ہی جامع لفظ ’’ظلم‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ ہر وہ عمل بدنی ہو یا روحانی جو انسان کے لئے ممنوع یا مضر ہے کیا جانا اپنے اوپر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ ذیل میں اس مفہوم کی چند دعائیں تحریر کی جا رہی ہیں :
٭ ’’ربناظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین‘‘ ۔ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر۲۳)
اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
٭ ’’ربنالاتواخذنا ان نسینا اواخطأناربنا ولاتحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنامالا طاقتلنا بہ وعف عنا وغفرلنا والرحمنا انت مولانافانصرناعلی القوم الکافرین‘‘ ۔ (سورۂ البقرہ، آیت نمبر۲۶۸)
اے ہمارے رب نہ پکڑ کر ہماری اگر ہم بھولیں یا کوئی غلطی کریں۔ اے ہمارے رب ہم پر بھاری بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا۔ اے ہمارے رب اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہمیں معاف فرما دے اور بخش دے ہمیں اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں پر ہماری مدد فرما۔ ***