آخِر وہ کون سا جذبہ تھا جس کے تحت حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عمّارہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا پروانوں کی طرح شَمْعِ رِسَالَت پر اپنی جان نِثار کرنے کے لیے تیّار ہو گئیں۔ یہ کوئی حیرانی اور اچنبھے کی بات نہیں، کیونکہ یہی وہ جذبہ تھا جس نے حضرت سَیِّدُنا بلال حبشی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو صحرا کی تپتی ریت پر سینے پر پڑی بھاری چٹان تلے دبے ہوئے بھی الاحد الاحد کی صَدائے دِل نواز بُلَند کرنے کا حَوصِلہ دیا اور یہی وہ جذبہ تھا جسے حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عمّار بن یاسِر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر پروان چڑھایا ۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!اس جذبے کو ہم مَحبَّت کہتے ہیں۔ مَحبَّت آخِر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے مَحْبُوب پر سب کچھ وَار دینے کے لیے تیّار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ جاننا بَہُت ضَروری ہے کہ مَحبَّت کسے کہتے ہیں؟ چنانچہ اِمام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِالوَالِی اس کے مُتَعَلِّق مُکَاشَفَۃُ الْقُلُوب میں فرماتے ہیں کہ مَحبَّت اس کَیْفِیَّت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے مَیلان کو ظاہِر کرتا ہے، اگر یہ مَیلان شِدّت اِخْتِیار کر جائے تو اسے عِشْق کہتے ہیں۔ اس میں زِیادَتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشِق مَحْبُوب کا بندۂ بے دَام بن جاتا ہےاور مال ودولت (یہاں تک کہ جان تک)اس پر قربان کر دیتا ہے۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
………شاہنامہ اسلام مکمل، حصہ سوم، ص۴۹۶