مسجد نبوی میں پہلے منبر نہیں تھا، کھجور کے تنا کا ایک ستون تھا اسی سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ پڑھا کرتے تھے ۔ جب ایک انصاری عورت نے ایک منبر بنوا کر مسجد نبوی میں رکھا تو آپ نے اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کر دیا ناگہاں اس ستون سے بچوں کی طرح رونے کی آواز آنے لگی اور بعض روایات میں آیا ہے کہ اونٹنیوں کی طرح بلبلانے کی آواز آئی ۔یہ راویانِ حدیث کے مختلف ذوق کی بنا پر رونے کی مختلف تشبیہیں ہیں راویوں کا مقصود یہ ہے کہ درد فراق سے بلبلا کر اور بے قرار ہو کر ستون زار زار رونے لگااور بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ ستون اس قدر زور زور سے رونے لگا کہ قریب تھا کہ جوش گریہ سے پھٹ جائے اور اس رونے کی آواز کو مسجد نبوی کے تمام مصلیوں نے اپنے کانوں سے سنا۔ ستون کی گریہ و زاری کو سن کر حضور رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منبر سے اتر کر آئے اور ستون پر تسکین دینے کے لئے اپنا مقدس ہاتھ رکھ دیا اور اس کو اپنے سینہ سے لگا لیا تو وہ ستون اس طرح ہچکیاں لے لے کے رونے لگا جس طرح رونے والے بچے کو جب چپ کرایا جاتا ہے تو وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگتا ہے۔ بالآخر جب آپ نے ستون کو اپنے سینہ سے چمٹا لیا تو وہ سکون پا کر خاموش ہو گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ ستون کا یہ رونا اس بنا پر تھا کہ یہ پہلے خدا کا ذکر سنتا تھا اب جو نہ سنا تو رونے لگا۔(1) (بخاری جلد۱ ص۲۸۱ باب النجار و ص۵۰۶ باب علامات النبوۃ)
اور حضرت بریدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس ستون کو اپنے سینہ سے لگا کر یہ فرمایا کہ اے ستون! اگر تو چاہے تو میں تجھ کو پھر اسی باغ میں تیری پہلی جگہ پر پہنچا دوں تا کہ تو پہلے کی طرح ہرا بھرا درخت ہو جائے اور ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے اور اگر تیری خواہش ہو تو میں تجھ کو باغ بہشت کا ایک درخت بنا دینے کے لئے خدا سے دعا کر دوں تا کہ جنت میں خدا کے اولیاء تیرا پھل کھاتے رہیں۔ یہ سن کر ستون نے اتنی بلند آواز سے جواب دیا کہ آس پاس کے لوگوں نے بھی سن لیا، ستون کا جواب یہ تھا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میری یہی تمنا ہے کہ میں جنت کا ایک درخت بنا دیا جاؤں تا کہ خدا کے اولیاء میرا پھل کھاتے رہیں اور مجھے حیات جاودانی مل جائے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ستون! میں نے تیری اس آرزو کو منظور کر لیا۔ پھر آپ نے سامعین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگو! دیکھو اس ستون نے دارالفناء کی زندگی کو ٹھکرا کر دارالبقاء کی حیات کو اختیار کر لیا۔(1) (شفاء شریف جلد۱ص ۲۰۰)
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ستون کو اپنے سینہ سے لگا کر ارشاد فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میں اس ستون کو اپنے سینہ سے نہ چمٹاتا تو یہ قیامت تک روتا ہی رہتا۔
واضح رہے کہ گریۂ ستون کا یہ معجزہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں گیارہ صحابیوں سے منقول ہے جن کے نام یہ ہیں:(۱)جابر بن عبد اﷲ(۲)اُبی بن کعب(۳)انس بن مالک(۴)عبد اﷲ بن عمر(۵) عبد اﷲ بن عباس(۶) سہل بن سعد(۷) ابو سعید خدری(۸) بریدہ (۹) ام سلمہ (۱۰) مطلب بن ابی وداعہ (۱۱) عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم، پھر دور صحابہ کے بعد بھی ہر زمانے میں راویوں کی ایک جماعت کثیرہ اس حدیث کو روایت کرتی رہی یہاں تک کہ علامہ قاضی عیاض اور علامہ تاج الدین سبکی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہمانے فرمایاکہ گریۂ ستون کی حدیث”خبرمتواتر”ہے۔(2)
(شفاء شریف جلد۱ ص۱۹۹ و الکلام المبین ص۱۱۶)
اس ستون کے بارے میں ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اپنے منبر کے نیچے دفن فرما دیا اور ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے اس کو مسجد نبوی کی چھت میں لگا دیا ۔ان دونوں روایتوں میں شارحین حدیث نے اس طرح
تطبیق دی ہے کہ پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو دفن فرما دیا پھر اس خیال سے کہ یہ لوگوں کے قدموں سے پامال ہو گا اس کو زمین سے نکال کر چھت میں لگا دیا اس طرح زمین میں دفن کرنے اور چھت میں لگانے کی دونوں روایتیں دو وقتوں میں ہونے کے لحاظ سے درست ہیں۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔
پھر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد جب تعمیر جدید کے لئے مسجد نبوی منہدم کی گئی اور یہ ستون چھت سے نکالا گیا تو اس کو مشہور صحابی حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک مقدس تبرک سمجھ کر اٹھا لیا اور اس کو اپنے پاس رکھ لیا یہاں تک کہ یہ بالکل ہی کہنہ اور پرانا ہو کر چور چور ہو گیا۔
اس ستون کو دفن کرنے کے بارے میں علامہ زرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ نکتہ تحریر فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ خشک لکڑی کا ایک ستون تھا مگر یہ درجات و مراتب میں ایک مردمومن کے مثل قرار دیا گیا کیونکہ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشق و محبت میں رویا تھا اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت کا برتاؤ یہ ایمان والوں ہی کا خاصہ ہے۔(1) (واﷲ تعالیٰ اعلم) (شفاء شریف جلد۱ ص۲۰۰ وزرقانی جلد۵ ص۱۳۸)