دُرُودِ پاک کی رَسائی
امامُ الانصاروَالمُہاجِرین ، مُحِبُّ الفُقَرائِ وَالْمَساکِین،جنابِ رحمۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا فرمانِ دِلنشین ہے:’’دُرُود پڑھنے والے کے دُرُود کی اِنتہا عَرش سے نیچے نہیں ہوتی اورجب وہ دُرُود میرے پاس سے گُزرتا ہے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے۔ اے فِرِشتو! اس دُرُود بھیجنے والے پر اسی طرح دُرُود بھیجو جیسے اس نے میرے نبی محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود بھیجا۔‘‘ (کنز العمال،کتاب الاذکار،الباب السادس فی الصلاۃ علیہ وعلی آلہ،۱۲۵۴حدیث ۲۲۲۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دُرُودِ پاک کی بَرَکتوں کے بھی کیاکہنے! عَلاَّمہ اُقْلِیْشِی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الغَنِیفرماتے ہیں : ’’کون سا عمل اَرفَع ہے اور کون سا وَسیلہ ایسا ہے جس کی شَفاعت زِیادہ قبول ہوتی ہے اور کون سا عَمل زِیادہ نَفْع بَخش ہے اس ذاتِ اَقدس پر دُرُود پڑھنے سے جس پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاور اس کے تمام فِرِشتے دُرُود بھیجتے ہیں جس کو دُنیا و آخرت میں عَظِیْم قُرب کے لیے مَخصُوص کیا گیا ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرُود بھیجنا سب سے عَظِیْم نُور
ہے، یہ ایسی تجارت ہے جسے کبھی خَسارہ نہیں ، یہ صُبح و شام اَولیاء کرام کا وَظیفہ ہے۔ اے مخاطب ! تواپنے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر ہمیشہ دُرُود پڑھتا رہ، یہ تیری گُمراہی کو پاک کردے گا، تیرا عمل اس کی وَجہ سے سُتھرا ہوجائے گا، اُمید کی شاخ بار آور ہوگی، تیرے دل کا نورجَگمگانے لگے گا، تو اپنے رَبّعَزَّوَجَلَّ کی رضا حاصل کرے گا اورقِیامت کی ہولناکیوں سے مَحفوظ ہوجائے گا۔‘‘(القول البدیع،سبعۃ فصول خاتمۃ باب الثانی، الفصل الاول ، ص ۲۸۳)
سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! علَّامہ اُقْلِیْشِیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الغَنِی کے کلام سے پتا چلا کہ سرکار عَلَیْہِ السّلام کی ذاتِ بابَرَکات پر دُرُودِ پاک پڑھنا نہ صرف نَفْع بخش تجارت ہے بلکہ عَقائد و اَعمال کی پاکیزگی کا سبب بھی ہے نیز یہ اَولیاء کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامکاوَظیفہ بھی ہے ۔ توکس قَدر خُوش نصیب ہیں وہ اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں ج نہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی توفیق و کرم سے اس اعلیٰ و اَرفَع عمل کی سَعادت حاصل ہوتی ہے ۔
خوبصورت آنکھوں والی حوریں
حضرتِ سَیِّدُناعُقْبہ بن عامِر رَضِی اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ مَدینے کے سلطان،رَحمتِ عالمیان، سرورِذیشان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے: ’’مَساجِد میں اَوْتاد (اولیاء) ہوتے ہیں جن کے ہم مَجلِس مَلائکہ ہوتے ہیں ۔ اگر وہ غائب ہوتے ہیں تو فِرِشتے ا نہیں تلاش کرتے ہیں ، اگر وہ
مَریض ہوتے ہیں تو اِن کی عیادت کرتے ہیں اور اگر ا نہیں دیکھتے ہیں توخُوش آمدید کہتے ہیں ، اگر وہ کوئی حاجت طلب کرتے ہیں تو فِرِشتے انکی مَدد کرتے ہیں ، جب وہ بیٹھتے ہیں تو فِرِشتے ان کے قَدموں سے لے کر آسمان تک کی جگہ کو گھیر لیتے ہیں ، ان کے ہاتھوں میں چاند ی کے وَرَق اور سونے کی قلمیں ہوتی ہیں ، وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پڑھے جانے والے دُرُود کو لکھتے ہیں اور یہ آواز دیتے ہیں کہ زِیادہ ذِکر کرو، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّتم پر رَحم فرمائے اور تمہارے اَجر میں اِضافہ فرمائے۔ جب وہ ذِکر شُروع کرتے ہیں تو ان کے لیے آسمان کے دَروازے کُھل جاتے ہیں ، ان کی دُعا قَبول کی جاتی ہے ، خُوبصُورت آنکھوں والی حُوریں ان کی طرف جھانکتی ہیں اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان پر خُصُوصی رَحمت کی توَجُّہ فرماتا رہتا ہے، جب تک کہ وہ کسی اور کام میں مَشغُول نہیں ہوجاتے۔‘‘(مسند احمد،مسندابی ہریرۃ، ۳ ۳۹۹ حدیث:۹۴۲۴،بستان الواعظین”۲۵۹القول البدیع۲۵۹ الثانی فی ثواب الصلاۃ …الخ، ص۲۵۲)
ایک اور روایت میں ہے: ’’جب تک کہ وہ اَہلِ ذِکر حضرات جُدا نہیں ہوجاتے اور جب وہ بکھر جاتے ہیں تو زائرین فِرِشتے ذِکر کی مَحفلوں کی تلاش شُروع کردیتے ہیں ۔‘‘(القول البدیع، یضاًص۲۵۲ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذاتِ اَقدس پر دُرُودِ پاک پڑھنا بھی ذِکرِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہی ہے جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہ رَضِی اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :’’ اَلصَّلاۃُ علَی النَّبِیّ صلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم عِبَادَۃٌ:’’نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود پڑھنا عِبادت ہے۔‘‘(القول البدیع الباب ‚الثانی فی ثواب الصلاۃ …الخ، ص۲۷۲)
اور تفسیرِ کبیر میں حضرتِ سَیِّدُنا امام فخر الدِّین رازی عَلیْہ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْھَادِی آیت کریمہ ’’ فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ،(ترجمۂکنزالایمان:تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا۔) (پ۲،البقرۃ :۱۵۲) کے تَحت اِرشاد فرماتے ہیں :’’ کہ تمام عِبادات ذِکر کے تَحت داخل ہیں ۔ ‘‘ (تفسیر کبیر،پ۲،البقرۃ،تحت الایۃ: ۱۵۲،۲/۱۲۴)
لہٰذا نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود پڑھنا عِبادت ہے اور تمام عِبادات ذِکر کے تحت داخل ہیں تو حاصل کلام یہ ہواکہ دُرُود پڑھنا ذِکر کے تَحت داخل ہے۔ بلکہ بعض بُزُرگانِ دین کے نزدیک تودُرُودِ پاک ذکرِ الٰہی کی اَعلیٰ ترین قسم ہے جیساکہ
علامہ نَبْہانی قُدِّ سَ سرُّہُ النُّورانی فرماتے ہیں :’’دُرُود شریف سے ذِکر کی تَجدید ہوتی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر
دُرُود شریف پڑھنا ذِکرِخُداوَنْدیعَزَّوَجَلَّ کی اَفْضل ترین قسموں میں سے ہے۔(اتحاالسادۃ’دۃ المتقین،۵/۲۷۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رَحمت کے قُربان جائیے کہ اس نے اپنے بعض مَعْصُوم فِرِشتوں کو مَحض یہ ذِمَّہ داری سونپ رکھی ہے کہ ذِکر و دُرُود کی مَحفلوں کو تلاش کریں اور ان پر رَحمت کی بَرکھا برسائیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جب کبھی کسی مَحفِل میں بیٹھنے کا اِتِّفاق ہو خَواہ وہ مَحفِل دِینی ہو یا دُنْیوِی اس میں کچھ نہ کچھ ذِکر و دُرُود کی عادت بنائیں تاکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مَعْصُوم فِرِشتے اس پر ہمارے گواہ ہو جائیں اور ہم پر رَحمتِ خُداوَندی کی بارش برسائیں اس ضِمن میں ایک روایت سنئے اور خوشی سے جھوم اُٹھئے ۔ چُنانچہ
رَحمتِ خُداوَنْدی کا جوش
صاحبِ دُرِّ مَنْثورزیرِ آیت’’ فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ‘‘(پ۲، البقرۃ:۱۵۲) ایک حدیث پاک نقل کرتے ہیں ، سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالِک و مختار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ لِلّٰہِ سَیَّارَۃً مِّنَ الْمَلائِکَۃِ یَطْلُبُوْنَ حَلَقَ الذِّکْرِ‘‘ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے کچھ فِرِشتے رُوئے زَمین کی سیر کرتے ہیں اور وہ ذِکر کے حلقوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ۔‘‘فَاِذَا اَتَوْا عَلَیْہَا حَفُّوْا بِہِمْ،جب کبھی کسی حَلقۂ ذِکر پر آتے ہیں تو ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں ۔‘‘پھر اپنے میں سے ایک گُروہ کو قاصِد
بناکر آسمان کی طرف اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے دَربار عالی میں بھیجتے ہیں ،وہ فِرِشتے جاکر عرض کرتے ہیں : ’’رَبَّنَا اَتَیْنَا عَلٰی عِبَادٍ مِّنْ عِبَادِکَ یُعَظِّمُوْنَ اٰلَائِکَ وَیَتْلُوْنَ کِتَابَکَ وَ یُصَلُّوْنَ عَلٰی نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ، یعنی یا الٰہ العالمین! ہم تیرے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچے جو تیرے اِنعامات کی تَعْظِیم کرتے ہیں ،تیری کتاب پڑھتے ہیں اور تیرے نبیِّ کریم حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودِ پاک بھیجتے ہیں ۔‘‘ ’’وَیَسْءَلُوْنَکَ لِاٰخِرَتِہِمْ وَ دُنْیَاہُمْ،اور تجھ سے اپنی آخرت اور دُنیا کے لئے دُعاکرتے ہیں ۔‘‘اس پر اللّٰہ تبارَک وتَعالٰیفرماتا ہے ان کو میری رَحمت سے ڈھانپ دو، (ایک روایت میں ہے کہ اس پر ان میں سے ایک فِرِشتہ عرض کرتا ہے 🙂 ’’فُلاَنٌ لَیْسَ مِنْہُمْ اِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَۃٍ،اے ہمارے ربِّ کریم !اِن میں فُلاں فُلاں شخص شرکائے مَحفِل میں سے نہیں تھا وہ تومَحض کسی کام کی غرض سے آیا ہوا تھا (اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟) اللّٰہتعالیٰ کا دَریائے رَحمت مزید جوش میں آتا ہے ،فرماتا ہے:’’ غَشُّوْہُمْ رَحْمَتِیْ فَہُمُ الْجُلَسَاءُلَایَشْقٰی بِہِمْ جَلِیْسُہُمْ،یعنی ان کو میری رَحمت سے ڈھانپ دو کہ یہ آپس میں مل بیٹھنے والے ایسے لوگ ہیں کہ ان کی صُحبت کی بَرَکت سے ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والا بھی بَد نصیب ومَحروم نہیں رہتا۔‘‘ (درمنثور،پ۲،البقرۃ ،تحت الآیۃ۱۵۲،۱/۳۶۷)
سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ تُو نے جب سے سنا دیا یارَبّ!
آسرا ہم گُناہ گاروں کا اور مَضْبُوط ہو گیا یارَبّ! (ذوقِ نعت،ص۶۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں سلطانِ انبیائے کرام، شاہِ خیرُالْاَنامصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عِشْق ومَحَبَّت کے جام توپلائے ہی جاتے ہیں ساتھ ہی ساتھ سنَّتوں بھرے اِجتماعات میں کثرت سے ذِکر اللّٰہ کرنے ، سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سُنَّتیں سیکھنے سکھانے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ بابَرَکات پر دُرُودِ پاک پڑھنے پڑھانے کی عَملی طور پر ترغیب دِلانے کا اِلْتِزَامبھی کیا جاتا ہے بلکہ آغازِ بیان میں ہی تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نَبُوَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذاتِ بابَرَکت پر دُرُودِ پاک کے چار صیغے اِن اَلفاظ کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں ۔
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحَابِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ
دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ عاشِقانِ رسول کی صُحبت کی بَدولت اگرہم دُرُودِ پاک کی کثرت کے عادی بن گئے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی بَرَکت سے ہمارے تو وارے ہی نیارے ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس ضِمن میں ایک ایمان اَفروز حکایت سنئے اورجُھوم جایئے ۔ چنانچہ
حضرت سَیِّدُناشیخ احمد بن ثابت مَغربی عَلیْہ رحْمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’ایک رات خَواب میں میں نے کسی مُنادِی کی نِداسُنی کہ’’جو شخص رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زِیارت کرنا چاہتا ہے وہ ہمارے ساتھ آجائے ‘‘ اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ دوڑے آرہے ہیں لہٰذا میں بھی ان کے ساتھ ہولیا۔کچھ دیر چلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ سرورِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک بالا خانہ میں جَلوہ اَفروز ہیں میں بائیں طرف کو بڑھاتاکہ دروازہ مل جائے تو لوگوں نے بُلَنْد آواز سے کہا دَروازہ دائیں جانب ہے لہٰذا میں دائیں مُڑا تو دَروازہ مل گیا اور میں داخل ہو گیا ، جب میں قریب ہوا تو میرے اور حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دَرمیان ایک بادل حائل ہوگیا جس کی وَجہ سے میں کسی کا چہرہ نہ دیکھ سکا ۔ میں نے بے ساختہ یہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ ’’اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘اور عرض گزار ہوا:’’ یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا یہی میری عادت نہیں ہے ؟‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :’’میرے اور تیرے دَرمیان دُنیا کے حجاب (پردے) حائل ہوگئے ہیں ۔‘‘ مجھے سرکار زَجْر (یعنی ڈانٹ ڈپٹ) فرماتے رہے کہ’’ ہم تجھے مَنْع کرتے ہیں کہ دُنیا اور دُنیا کے اِہْتِمام سے باز آجا اور تو باز نہیں آتا۔‘‘ میں نے دل میں سوچا کہ یہ میری شامتِ اَعمال ہی کا نتیجہ ہے ، ساتھ ہی ساتھ میری آنکھیں
اَشکبار ہوگئیں میں نے عرض کی: ’’یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا آپ میرے ضامن نہیں ہیں ؟‘‘ فرمایا : ’’ہاں تو جنتی ہے۔ ‘‘ پھرحُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دُعافرمائی تو وہ بادل آہستہ آہستہ اُٹھنا شُروع ہواحتّٰی کہ میں نے سَیّدِ دو جہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور صحابۂ کرام عَلَیْھِم الرِّضْوان کی زِیارت سے اپنی آنکھوں کی پیاس بُجھائی ۔ (سعادۃ الدارین،الباب الرابع فیماورد من لطائف المرائی والحکایات…الخ، ص۲۸ ۱)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ !ہمیں اپنے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی غُلامی تادمِ زِندَگانی اور دعوتِ اسلامی سے وابستہ عاشِقانِ رسول کی صُحبتِ جاوِدانی کے ساتھ ساتھ کثرتِ دُرُود خوانی کی توفیق مرحمت فرما ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
لباس پہنے کی دُعا
جو شخص کپڑا پہنے اور یہ پڑھے : اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ھٰذَا وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِحَوْلٍ مِّنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍٍٍٍٍ تواس کے اگلے پچھلے گناہ مُعاف ہوجائیں گے۔ (شعب الایمان ،۵ /۱۸۱، حدیث:۶۲۸۵)