ان کا نام ،،ہند،، اور کنیت ،،ام سلمہ،، ہے لیکن یہ اپنی کنیت ہی کے ساتھ زیادہ مشہور ہیں ان کے والد کا نام ،،حذیفہ،، یا ،،سہیل،، اوران کی والدہ ،،عاتکہ بنت عامر،، ہیں یہ پہلے ابو سلمہ عبداﷲبن اسد سے بیاہی گئی تھیں اور یہ دونوں میاں بیوی مسلمان ہو کر پہلے ،،حبشہ،، ہجرت کر گئے پھر حبشہ سے مکہ مکرمہ چلے آئے اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اونٹ پر کجاوہ باندھا اور بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اونٹ پر سوار کرایا اور وہ اپنے دودھ پیتے بچے کو گود میں لے کر اونٹ پر بٹھا دی گئیں تو ایک دم حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے میکا والے بنو مغیرہ دوڑ پڑے اور ان لوگوں نے یہ کہہ کر کہ ہمارے خاندان کی لڑکی مدینہ نہیں جاسکتی حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اونٹ سے اتار ڈالا یہ دیکھ کر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خاندان والوں کو طیش آگیا اور ان لوگوں نے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی گود سے بچے کو چھین لیا اور یہ کہا کہ یہ بچہ ہمارے خاندان کا ہے اس لئے ہم اس بچہ کو ہرگز ہرگز تمہارے پاس نہیں رہنے دیں گے اس طرح بیوی اور بچہ دونوں حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جدا ہو گئے مگر حضرت ابو سلمہ نے ہجرت کا ارادہ نہیں چھوڑا بلکہ بیوی اور بچہ دونوں کو خدا کے سپرد کر کے تنہا مدینہ منورہ چلے گئے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا شوہر اور بچے کی جدائی پر دن رات رویا کرتی تھیں ان کا یہ حال دیکھ کر ان کے ایک چچا زاد بھائی کو رحم آگیا اور اس نے بنو مغیرہ کو سمجھایا کہ آخر اس غریب عورت کو تم لوگوں نے اس کے شوہر اور بچے سے کیوں جدا کر رکھا ہے؟ کیا تم لوگ یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ ایک پتھر کی چٹان پر ایک ہفتہ سے اکیلی بیٹھی ہوئی بچے اور شوہر کی جدائی میں رویا کرتی ہے آخر بنو مغیرہ کے لوگ اس پر رضا مند ہوگئے کہ ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے بچے کو لے کر اپنے شوہر کے پاس مدینہ چلی جائے پھر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خاندان والوں نے بھی بچہ کو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے سپرد کر دیا اور حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بچے کو گود میں لے کر ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پرسوار ہوگئیں مگر جب مقام ،،تنعیم،، میں پہنچیں تو عثمان بن طلحہ راستہ میں ملا جو مکہ کا مانا ہوا ایک نہایت ہی شریف انسان تھا اس نے پوچھا کہ ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں اپنے شوہر کے پاس مدینہ جارہی ہوں اس نے کہا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی دوسرا نہیں ہے ؟ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے درد بھری آواز میں جواب دیا میرے ساتھ میرے اﷲعزوجل اور میرے اس بچہ کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہے یہ سن کر عثمان بن طلحہ کو شریفانہ جذبہ آگیا اور اس نے کہا کہ خدا کی قسم میرے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ تمہارے جیسی ایک شریف زادی اور ایک شریف انسان کی بیوی کو تنہا چھوڑدوں یہ کہہ کر اس نے اونٹ کی مہار اپنے ہاتھ میں لی اور پیدل چلنے لگا ۔
حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ شریف کسی عرب کو نہیں پایا جب ہم کسی منزل پر اترتے تو وہ الگ دور جاکر کسی درخت کے نیچے سو رہتا اور میں اپنے اونٹ پر سو رہتی پھر چلنے کے وقت وہ اونٹ کی مہار ہاتھ میں لے کر پیدل چلنے لگتااسی طرح اس نے مجھے ،،قبا،، تک پہنچا دیا اور یہ کہہ کر واپس مکہ چلا گیا کہ اب تم چلی جاؤ تمہارا شوہر اسی گاؤں میں ہے چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بخیریت مدینہ پہنچ گئیں ۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت ام سلمۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۹۶۔۳۹۸)
پھر دونوں میاں بیوی مدینہ میں رہنے لگے چند بچے بھی ہوگئے شوہر کا انتقال ہو گیا تو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بڑی بے کسی میں پڑ گئیں چند چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوگی میں زندگی بسر کرنا دشوار ہوگیا ان کا یہ حال زار دیکھ کر رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان سے نکاح فرمالیا اور بچوں کو اپنی پرورش میں لے لیا اس طرح یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر آگئیں اور تمام امت کی ماں بن گئیں حضرت بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا عقل و فہم، علم و عمل، دیانت و شجاعت کے کمال کا ایک بے مثال نمونہ تھیں اور فقہ و حدیث کی معلومات کا یہ عالم تھا کہ تین سو اَٹھہترحدیثیں انہیں زبانی یاد تھیں مدینہ منورہ میں چوراسی برس کی عمر پاکر وفات پائی ان کے وصال کے سال میں بڑا اختلاف ہے بعض مورخین نے ۵۳ھ بعض نے ۵۹ھ بعض نے ۶۲ھ لکھا ہے اور بعض کا قول ہے کہ ان کا انتقال ۶۳ھ کے بعد ہوا ہے ان کی قبر مبار ک جنت البقیع میں ہے۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت ام سلمۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۹۹۔۴۰۳)
تبصرہ:۔
اﷲاکبر! حضرت بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زندگی صبر و استقامت، جذبہ ایمانی، جوش اسلامی، زاہدانہ زندگی، علم و عمل، محنت و جفاکشی، عقل و فہم کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کی مثال مشکل ہی سے مل سکے گی ان کے کارناموں اور بہادری کی داستانوں کو تاریخ اسلام کے اوراق میں پڑھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اے آسمان بول! اے زمین بتا! کیا تم نے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جیسی شیر دل اور پیکر ایمان عورت کو ان سے پہلے کبھی دیکھا تھا۔
ماں بہنو! تم پیارے نبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی پیاری بیبیوں کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور خدا کے لئے سوچو کہ وہ کیا تھیں؟ اور تم کیاہو؟ تم بھی مسلمان عورت ہو خدا کے لئے کچھ تو ان کی زندگی کی جھلک دکھاؤ۔