شورِ مہِ نو سن کر تجھ تک میں دَواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا
اس گل کے سوا ہر پھول باگوش گراں آیا
دیکھے ہی گی اے بلبل جب وقتِ فغاں آیا
جب بامِ تجَلّی پر وہ نیّرِ جاں آیا
سر تھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا
جنّت کو حَرم سمجھا آتے تو یہاں آیا
اب تک کے ہر اک کا منھ کہتا ہوں کہاں آیا
طیبہ کے سوا سب باغ پامالِ فنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو! جب عَہْدِ خزاں آیا
سر اور وہ سنگِ در آنکھ اور وہ بزمِ نور
ظالم کو وطن کا دھیان آیا تو کہاں آیا
کچھ نعت کے طبقے کا عَالم ہی نرالا ہے
سکتہ میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا
جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوپ کڑی کیسی
لو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا
طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والو
کیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا
لے طوقِ اَلم سے اَب آزاد ہو اے قُمری
چٹھی لیے بخشِش کی وہ سَروِ رواں آیا
نامہ سے رضاؔ کے اَب مٹ جاؤ بُرے کامو
دیکھو مِرے پلّہ پَر وہ اَچھے میاں آیا
بدکار رضاؔ خوش ہو بدکام بھلے ہوں گے
وہ اَچھے میاں پیارا اَچھوں کا میاں آیا
٭…٭…٭…٭…٭…٭