س جنگ میں مال غنیمت کے لالچ میں بہت سے منافقین بھی شریک ہوگئے تھے ایک دن پانی لینے پر ایک مہاجر اور ایک انصاری میں کچھ تکرار ہو گئی مہاجر نے بلند آواز سے یاللمھاجرین(اے مہاجرو!فریادہے) اورانصاری نے یاللا نصار (اے انصاریو! فریادہے) کا نعرہ مارا،یہ نعرہ سنتے ہی انصار و مہاجرین دوڑ پڑے اور اسقدر بات بڑھ گئی کہ آپس میں جنگ کی نوبت آ گئی رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبی کو شرارت کا ایک موقعہ مل گیااس نے اشتعال دلانے کے لئے انصاریوں سے کہا کہ ”لو! یہ تو وہی مثل ہوئی کہ سَمِّنْ کَلْبَکَ لِیَأْکُلَکَ (تم اپنے کتے کو فربہ کروتا کہ وہ تمہیں کو کھا ڈالے) تم انصاریوں ہی نے ان مہاجرین کا حوصلہ بڑھا دیا ہے لہٰذا اب ان مہاجرین کی مالی امداد و مدد بالکل بند کر دو یہ لوگ ذلیل و خوار
ہیں اور ہم انصار عزت دار ہیں اگر ہم مدینہ پہنچے تو یقینا ہم ان ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال باہر کر دیں گے۔(1) (قرآن سورۂ منافقون)
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اس ہنگامہ کا شورو غوغا سنا تو انصار و مہاجرین سے فرمایا کہ کیا تم لوگ زمانہ جاہلیت کی نعرہ بازی کر رہے ہو؟ جمالِ نبوت دیکھتے ہی انصار و مہاجرین برف کی طرح ٹھنڈے پڑ گئے اور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند فقروں نے محبت کا ایسا دریا بہا دیا کہ پھر انصار و مہاجرین شیروشکر کی طرح گھل مل گئے۔
جب عبداﷲ بن اُبی کی بیہودہ بات حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے کان میں پڑی تو وہ اس قدر طیش میں آ گئے کہ ننگی تلوار لے کر آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہایت نرمی کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ خبردار ایسا نہ کرو، ورنہ کفار میں یہ خبر پھیل جائے گی کہ محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بالکل ہی خاموش ہو گئے مگر اس خبر کا پورے لشکر میں چرچا ہو گیا،یہ عجیب بات ہے کہ عبداﷲ ابن اُبی جتنا بڑا اسلام اور بانی اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دشمن تھا اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر اس کے بیٹے اسلام کے سچے شیدائی اورحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جان نثار صحابی تھے ان کا نام بھی عبداﷲ تھا جب اپنے باپ کی بکواس کا پتا چلا تو وہ غیظ و غضب میں بھرے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ میرے باپ کے قتل کو پسند فرماتے ہوں تو میری تمنا ہے کہ کسی دوسرے کے بجائے میں خود اپنی تلوار سے اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں ہر گز نہیں میں تمہارے باپ کے ساتھ کبھی بھی کوئی برا سلوک نہیں کروں گا۔(1)
(ابن سعد و طبری وغیرہ)
اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ مدینہ کے قریب وادی عقیق میں وہ اپنے باپ عبداﷲ بن ابی کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ تم نے مہاجرین اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ذلیل کہا ہے خداکی قسم!میں اس وقت تک تم کو مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گاجب تک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اجازت عطا نہ فرمائیں اور جب تک تم اپنی زبان سے یہ نہ کہو کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام اولاد آدم میں سب سے زیادہ عزت والے ہیں اور تم سارے جہان والوں میں سب سے زیادہ ذلیل ہو، تمام لوگ انتہائی حیرت اور تعجب کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے تھے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم وہاں پہنچے اور یہ دیکھا کہ بیٹا باپ کا راستہ روکے ہوئے کھڑا ہے ا ور عبداﷲ بن ابی زور زور سے کہہ رہا ہے کہ ”میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزت دارہیں۔” آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دیکھتے ہی حکم دیا کہ اس کاراستہ چھوڑدوتاکہ یہ مدینہ میں داخل ہوجائے۔(2)(مدارج النبوۃج۲ ص۱۵۷)
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۶ملخصاً
1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲، ص۱۵۶ملخصاً والسیرۃ النبویۃ لابن
ھشام،طلب ابن عبداللہ بن ابی…الخ،ص۴۲۰
2۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۷