مدینہ منورہ اور اس کے اطراف کے یہودی قبائل بہت ہی مالدار، انتہائی جنگجو اور بہت بڑے جنگ باز تھے اور ان کو اپنی لشکری طاقت پر بڑا گھمنڈ اور ناز تھا۔ جنگ ِبدر میں مسلمانوں کی فتح مبین کا حال سن کر ان یہودیوں نے مسلمانوں کو یہ طعنہ دیا کہ قبائل قریش فنون جنگ سے ناواقف اوربے ڈھنگے تھے اس لیے وہ جنگ ہار گئے اگر مسلمانوں کو ہم جنگ بازوں اور بہادروں سے پالا پڑا تو مسلمانوں کو ان کی چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اور واقعی صورتحال ایسی ہی تھی کہ سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا کہ مٹھی بھر کمزوراوربے سروسامان مسلمانوں سے قبائل یہودکایہ مسلح ومنظم لشکرکبھی شکست کھا جائے گا۔ مگر اس حال و ماحول میں غیب داں رسول نے قرآن کی زبان سے اس غیب کی خبر کا اعلان فرمایا کہ
وَلَوْ اٰمَنَ اَہۡلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوۡنَ ﴿۱۱۰﴾لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمْ اِلَّاۤ اَذًی ؕ وَ اِنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمْ یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾(1)
اگر اہل کتاب ایمان لے آتے توان کے لیے یہ بہترہوتاان میں کچھ ایماندار اوراکثرفاسق ہیں اوروہ تم (مسلمانوں) کو بجز تھوڑی تکلیف دینے کے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر وہ تم سے لڑیں گے تویقینا پشت پھیر دیں گے پھر ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔(آل عمران)
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہود کے قبائل میں سے بنوقریظہ قتل کر دئیے گئے اور بنو نضیر جلا وطن کر دئیے گئے اور خیبر کو مسلمانوں نے فتح کر لیا اور باقی یہود ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کرنے پر مجبور ہوگئے۔