ن کا اصلی نام زینب تھا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام ”صفیہ” رکھ دیا۔ یہ یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار اعظم حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں اور ان کی ماں کا نام ضرہ بنت سموئل ہے۔ یہ خاندان بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ان کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق بھی بنو نضیر کا رئیس اعظم تھا جو جنگ خیبر میں قتل ہو گیا۔
محرم ۷ھ میں جب خیبرکومسلمانوں نے فتح کر لیااورتمام اسیران جنگ گرفتار کرکے اکٹھا جمع کئے گئے تو اس وقت حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ایک لونڈی طلب کی، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی پسند سے ان قیدیوں میں سے کوئی لونڈی لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو لے لیامگر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) حضرت صفیہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شاہ زادی ہیں۔ ان کے خاندانی اعزاز کا تقاضا ہے کہ آپ ان کو اپنی ازواجِ مطہرات میں شامل فرما لیں۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو حضرت دحیہ کلبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لے لیا اور ان کے بدلے میں انہیں ایک دوسری لونڈی عطا فرما دی پھر حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو آزاد فرما کر ان سے نکاح فرما لیا اور جنگ خیبر سے واپسی میں تین دنوں تک منزل صہبا میں ان کو اپنے خیمہ کے اندر اپنی قربت سے سرفراز فرمایا اور دعوت ولیمہ میں کھجور، گھی، پنیر کا مالیدہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کھلایا جس کا مفصل تذکرہ جنگ خیبر میں گزر چکا۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت بی بی صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر بہت ہی خصوصی توجہ اور انتہائی کریمانہ عنایت فرماتے تھے اور اس قدر ان کا خیال رکھتے تھے کہ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر غیرت سوار ہو جایا کرتی تھی۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بارے میں یہ کہہ دیا کہ ”وہ تو پستہ قد ہے” تو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! تو نے ایسی بات کہہ دی کہ اگر تیرے اس کلام کو دریا میں ڈال دیا جائے تو دریا متغیر ہو جائے گا۔(یعنی یہ غیبت ہے جو بہت ہی گندی بات ہے)
اسی طرح ایک مرتبہ ایک سفر میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اونٹ زخمی ہوگیا اور حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک فاضل اونٹ تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے زینب! تم اپنا اونٹ صفیہ کو دے دو۔ حضرت زینب نے طیش میں آکر کہہ دیا کہ میں اس یہودیہ کو اپنی کوئی چیز نہیں دوں گی۔ یہ سن کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاپر اس قدر خفا ہو گئے کہ دو تین ماہ تک ان کے بستر پر آپ نے قدم نہیں رکھا۔ (1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۸۳)
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رو رہی ہیں آپ نے رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا : یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے یہ کہا ہے کہ ہم دونوں دربار رسالت میں تم سے بہت زیادہ عزت دار ہیں کیونکہ ہمارا خاندان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے صفیہ!تم نے ان دونوں سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہو سکتی ہو۔ حضرت ہارون علیہ السلام میرے باپ ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے چچا ہیں اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میرے شوہر ہیں۔(2)(زرقانی جلد۳ ص۲۵۹)
انہوں نے دس حدیثیں بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں جن میں سے ایک حدیث بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں ہے اور باقی نو حدیثیں دوسری کتابوں میں درج ہیں۔
ان کی وفات کے سال میں اختلاف ہے و اقدی کا قول ہے کہ ۵۰ ھ میں ان کی وفات ہوئی ۔اور ابن سعد نے لکھا ہے کہ ۵۲ ھ میں ان کا انتقال ہوا ۔ بوقت رحلت ان کی عمر ساٹھ برس کی تھی یہ بھی مدینہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔ (1)(زرقانی جلد۳ ص۲۵۹ و مدارج جلد۲ ص۴۸۳)
یہ شہنشاہ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وہ گیارہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں جن پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے۔ ان میں سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا تو ہجرت سے پہلے ہی انتقال ہوچکا تھااورحضرت زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جن کا لقب ”ام المساکین ” ہے۔ ہم پہلے بھی تحریر کر چکے ہیں کہ نکاح کے دو تین ماہ بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے ہی یہ وفات پا گئی تھیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت کے وقت آپ کی نو بیویاں موجود تھیں جن میں سے آٹھ کی آپ باریاں مقرر فرماتے رہے کیونکہ حضرت سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو ہبہ کردیا تھا۔ ان نو مقدس ازواج میں سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی اور سب کے بعد آخر میں ۶۲ھ یا ۶۳ھ میں حضرت بی بی ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رحلت فرمائی ان کی وفات کے بعد دنیا امہات المؤمنین سے خالی ہو گئی۔