رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے کہ چھینک اﷲ تعالیٰ کو پسند ہے اور جمائی ناپسند ہے جب کوئی چھینکے اور الحمدﷲ کہے تو جو مسلمان اس کو سنے اس پر حق ہے کہ یرحمک اﷲ کہے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہے جب کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اس کو دفع کرے کیونکہ جب کوئی آدمی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے یعنی خوش ہوتا ہے کیونکہ جمائی کسل اور غفلت کی دلیل ہے ایسی چیز کو شیطان پسند کرتا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الأدب،باب اذا تثاوب فلیضع۔۔۔الخ،رقم۶۲۲۶،ج۴،ص۱۶۳)
مسئلہ:۔جب چھینکنے والا الحمدﷲ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دینا واجب ہے اور جس طرح سلام کا جواب فوراً ہی دینا اور اس طرح جواب دینا کہ وہ سن لے واجب ہے بالکل اسی طرح چھینک کا جواب بھی فوراً ہی اور بلند آواز سے دینا واجب ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۳۔۶۸۴)
مسئلہ:۔جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اس کو روکے کیونکہ بخاری ومسلم کی حدیثوں میں ہے کہ جب کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔ (صحیح البخاری،کتاب الأدب،باب اذا تثاوب فلیضع۔۔۔الخ،رقم۶۲۲۶،ج۴،ص۱۶۳)
جمائی روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہونٹ کو دانتوں سے دبالے اور جمائی روکنے کا ایک مجرب عمل یہ ہے کہ جب جمائی آنے لگے تو دل میں یہ خیال کرے کہ حضرات انبیاء علیہم
السلام کو جمائی نہیں آتی تھی یہ خیال دل میں لاتے ہی ہر گز جمائی نہیں آئے گی ۔ (بہارشریعت،ج۳،ص۱۶۷)
مسئلہ:۔جس کو چھینک آئے وہ بلند آواز سے الحمدﷲ کہے اور بہتر یہ ہے کہ الحمد ﷲ رب العلمین کہے اس کے جواب میں دوسرا شخص یوں کہے یَرْحَمُکَ اﷲ پھر چھینکنے والا یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ کہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام وتشمیت العاطس،ج۵،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔اگر ایک مجلس میں کسی کو کئی مرتبہ چھینک آئی تو صرف تین بار تک جواب دینا ہے اس کے بعد اسے اختیار ہے کہ جواب دے یا نہ دے ۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام وتشمیت العاطس،ج۵،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔دیوار کے پیچھے کسی کو چھینک آئی اور اس نے الحمد ﷲ کہا تو سننے والے پراس کو جواب دینا واجب ہے ۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۴)
مسئلہ:۔چھینکنے والے کو چاہے کہ سر جھکا کر پست آواز سے منہ کو چھپا کر چھینکے بہت ہی بلند آواز سے چھینکنا حماقت ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۴)
مسئلہ:۔بعض جاہل لوگ چھینک کو بدشگونی سمجھتے ہیں اگر کسی کام کے لئے جاتے وقت خود کسی کو یا کسی دوسرے کو چھینک آگئی تو لوگ یہ بدفالی لیتے ہیں کہ یہ کام نہیں ہوگا یہ بہت بڑی جہالت ہے اور بے عقلی کی دلیل ہے۔ (بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۰۳)
حدیث میں آیا ہے کہ چھینک اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اوریہ بھی ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بات کرتے ہوئے چھینک آجائے تو یہ چھینک اس بات پر شاہد عدل ہے
اب غور کرو کہ جب چھینک کو سول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے شاہد عدل کا لقب دیا تو پھر بھلا چھینک منحوس اور بدشگونی کا سامان کیسے بن سکتی ہے؟ اس لئے لوگوں کو اس عقیدہ سے توبہ کرنی چاہے کہ چھینک منحوس اور بدفالی کی چیز ہے خداوند کریم مسلمانوں کو اتباع سنت اور پابندی شریعت کی توفیق بخشے آمین۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۰۳)
مسئلہ:۔کافر کو چھینک آئی اور اس نے الحمدﷲ کہا تو جواب میں یَھْدِیْکَ اﷲ کہنا چاہے۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۴)
مسئلہ:۔چھینک کا جواب ایک مرتبہ واجب ہے دوبارہ چھینک آئی اور اس نے الحمدﷲ کہا تو دوبارہ جواب دینا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۴)