شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
عرفان وعزیمت کانیرتاباں
از: مولوی حافظ محمد آصف عرفان قادری،
منتظم مدرسہ باب العلم انوارمحمدی ملحقہ جامعہ نظامیہ
قدرت کا یہ اٹل قانون ہے کہ جب عالم کی فضائے بسیط پر تاریکی چھاجاتی ہے نور سے پردہ ظلمت چاک ہونے لگتا ہے جب رات کی تاریکی پھیل جاتی ہے اور ستارے جھلملانے لگتے ہیں تو وہ وقت آتا ہے جب آثار سحر نظر آنے لگتے ہیں بقول علامہ اقبال ؒ
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
ہوا نورِ سحر پیدا گیا دورِگراں خوابی
صاحب علم عمل ، صوفی باصفا، تقویٰ وطہارت اور عمدہ خصائل وشمائل میں اسلاف کی یاد گار، اکابرین کی پاکیزہ روایات کے محافظ، آسمان علم کے نیّرتاباں، جامع المعقول والمنقول، حامی سنت گونا گوں اوصاف کے حامل، عارف باللہ شیخ الاسلام امام اہلسنت حضرت حافظ محمد انوار اللہ فاروقی نور اللہ مرقدہ(المخاطب بہ فضیلت جنگ )کی ولادت باسعادت ۴؍ربیع الثانی ۱۲۶۴ھ ضلع نانڈ یڑمیں ہوئی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم والدماجد سے ہوئی سات سال کی عمر میں تکمیل حفظ قرآن کریم کی سعادت پائی فارسی اور عربی کی تعلیم کے لئے وقت کے اکابراساتذہ سے اکتساب کیا۔ آپ کا نسب والد ماجد کی طرف سے امیرالمومنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے او روالدہ محترمہ کی طرف سے سید احمد کبیر رفاعیؒ سے جاملتا ہے آپ کے والدماجد حضرت ابو محمد شجاع الدین بڑے متقی پرہیزگار متبحر عالم دین او رباکمال بزرگ تھے شیخ الاسلامؒ کی تفسیر حدیث ،
فقہ ، ادب او رمعقولات کی تکمیل فرنگی محل لکھنؤ کے جلیل القدر علماء علامہ عبدالحلیمؒ، علامہ عبدالحئیؒ سے ہوئی ۱۲۸۴ھ میں اپنے وقت کے جید عالم دین حضرت مولانا حاجی محمدامیرالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی کے ساتھ آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۱۲۸۵ھ میں محکمہ مالکذار ی میں خلاصہ نویسی کی حیثیت سے مقرر ہوئے ایک مرتبہ سودی کاروبار کی مثل خلاصہ لکھنے کے لئے آپ کے پاس آئی جس کی وجہ سے اسی دن آپ نے اس ملازمت سے سبکدوشی حاصل کرلی ترک ملازمت کے بعد درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہوا علمی تبحر کے نکتہ رسی کے فیضان نے دور دور تک شہرت کردی چنانچہ دوردراز مقامات سے جوق درجوق تشنگان، علم و عرفان کے اس چشمۂ فیض کے کنارے جمع ہونے لگے تقریباً ہر فن کی کتابیں زیر درس رہیں خصوصاً دن میں درس حدیث ، حجتہ اللہ البالغہ ، علم فقہ اور شب کو فتوحات مکیہ کا درس دیا کرتے ، خیرالعلوم علم الفقہ ، خالق کونین کا ارشادہے ، ومن یوتی الحکمۃ فقدأ وتی خیرا کثیرا۔ مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے الحکمۃ ، کی تفسیر علوم فروع یعنی ’علم فقہ‘ تصوف سے فرمائی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیرکثیر فرمایا معلوم ہو اکہ تمام علوم میں جو اہمیت فقہ کو حاصل ہے کسی اور کو نہیں چنانچہ فقہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ، خلاصہ کلام الٰہی اور آقائے دوجہاں ﷺ کی سنت کی روح ہے شریعت کے عمومی مزاج کا ترجمان اور اسلامی زندگی کیلئے خضرطریق ہے اس لئے حضرت شیخ الاسلام ؒ نے پوری توجہ وانہماک اور فقہ کی نکتہ رسی کیساتھ اپنے تلامذہ کو فیضاب فرمایا او راسی نظریہ پر آپ ؒ کے قائم کردہ جامعہ نظامیہ کے شیوخ واساتذہ بھی علم فقہ پر اپنی منفرد خدمات میں مصروف ہیں۔
آج سے تقریباً دیڑھ صدی پہلے کسی کے وہم و خیال میں بھی یہ بات نہ گذری ہوگی کہ برصغیرمیں اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں دینی مدارس کا عظیم کردار ہوگا اور ان مدارس دینیہ کے تربیت یافتہ راہ حق کے مسافرصرف ہندوستان یا برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلام کا پرچم بلندکریں گے اسی فکر او رعزم کیساتھ حضور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے اور توکل کی اساس پر حضرت شیخ الاسلام ؒ نے جامعہ نظامیہ کی بنیاد رکھی اسے چمنستان فاروقی بھی کہا جاسکتا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام نے اپنے علمی ذوق، تفکرو تدبر، عزم وحوصلہ ،صبروتحمل، جرأت وجسارت،ہمت و استقامت، دینی بصیرت کے ساتھ حکم حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسموم ہواؤں اور مختلف فتنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اس سرزمین کی سیرابی کی، اسے خوب سنوارا اور نکھارا جامعہ نظامیہ نے ایک صدی کے عرصے میں جوکارہائے نمایاں ہمیں دکھلائے ہیں ان پر اس ادارے یا اس کی نہج پر چلنے والے اور اس سے روشنی پانے والے کسی بھی ادارے کے منتسبین جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ جامعہ نظامیہ کا سن تاسیس ۱۲۹۲ھ در اصل عقلیت پسندی کا دور تھا اسلام کے دفاع کے لئے نقل کے ساتھ استمداد ضروری تھا تو آج بھی عقلیت کے بغیر اسلام کا دفاع ممکن نہیں۔ حضرت شیخ الاسلام کے جامعہ نظامیہ کے قیام کے مقاصد میں یہ بھی ہے کہ اسلام کی تبلیغ واشاعت ، دین کا تحفظ ودفاع او رمسلمانوںمیں تعلیم وتربیت کے ذریعے سے خیر القرون اور سلف صالحین جیسے اخلاق واعمال اور جذبات پیدا کرنا او ریہ حقیقت ہے کہ فرزندان مدارس اس مقصد کے پہلے عنصراسلام کی ترویج و اشاعت ، میں اپنے تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں ملک کے گوشے گوشے میں قائم مدارس اسلام کے مضبوط ترین قلعے بن چکے ہیں یقینا یہ فیضان فاروقی ؒ ہے۔ دکن کو اس بات پر فخرکرنے کا حق حاصل ہے کہ جس طرح قرون اولیٰ اور قرون وسطی میں عراق اور ماوراء النہر کے علاقے کو اشاعت اسلام کا موقع ملا آج وہ خدمت اس خطے سے انجام دیجارہی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کیلئے سیرو فی الارض کے تحت علمی دینی اسفار کے لئے بھی خالق کونین نے آپ کو سفر کے اسباب بھی پیدا کردئیے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ؒ کے والد ماجد کو حضرت شاہ رفیع الدین قندھاری ؒ سے خلافت تھی انہوں نے سلوک کی تعلیم تو اپنے والدہی سے حاصل کی او رذکروشغل میں مصروف رہے بعد فراغ تعلیم انہوں نے چار مرتبہ بلاد اسلامیہ کا سفر کیا پہلی مرتبہ ۱۲۹۴ھ میں حج کے ارادے سے مکہ مکرمہ پہنچے اس وقت شیخ المشائخ حضرت شاہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے ان سے حضرت شیخ الاسلام نے تمام سلسلوں میں تجدید بیعت کی اس موقع پر آپ کی علمی ، عملی او رروحانی کیفیات کو دیکھ کر حضرت شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ نے حضرت شیخ الاسلام کو خلافت سے سرفراز کیا او ر۱۳۰۱ھ میں حجاز مقدس کا دوسرا سفراور ۱۳۰۵ھ میں تیسرا سفر کیا اور تین سال تک آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیں سکون قلب ونظر حاصل کرنے کے لئے ہر وقت ، ہر لحظہ ، ہر لمحہ او رہر آن مدینہ کی گلیوں کی سیر ، گنبد خضرا کا نظارہ، روضہ اطہر کو چومنے کی خواہش سرورکونین کے روبر و گلہائے عقیدت پیش کرنے سعادت پائی اور ’ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن ‘ ہر تفکر وتدبر اور ایمان کے استحکام کے جذبے نے آپ کا وقت حرم محترم کے اہم کتب خانے میں گذاراچنانچہ آپ کی مایہ ناز تصانیف میں ’’انوار احمدی ‘ بھی یہیں لکھی گئی اسی دوران حضرت شیخ الاسلام نے یہاں کے قدیم کتب خانوں سے تفسیر ، حدیث فقہ کی نادر الوجود کتابوں کی نقول حاصل کیں جن میں علی متقی کی کنزالعمال ‘ جامع مسانید امام اعظم ، جواہر النقی علی سننن بیہقی اور احادیث قدسیہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
مقاصد الاسلام (۱۱جلدیں)، حقیقۃ الفقہ ، افادۃ الافہام ، کتاب العقل ، الکلام المرفوع ، انوار اللہ الودودفی مسئلۃ وحدۃ الوجود، علم ادب فقہ وتصوف کے عظیم شاہکار ہیں اور اپنے موضوع پر امت کیلئے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان میں بہت سی کتابوں کا ترجمہ او رکئی مرتبہ طباعت عمل آئی اور آپ کے منتخبہ مضامین کے خاص مواقع پر کروڑوں کی تعداد میں پمفلٹ کی صورت میں اشاعت عمل میں آئی۔
آپ کو فن شاعری میں بھی خاصہ ملکہ حاصل تھا آپ کا فارسی، عربی اور اردو کلام پھولوں کی دل آویزنکہتوں کی طرح فرزندان توحید و غلامان رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشام دل وجان اور ایمان کو معطر کرتا ہے۔ سادہ مزاج، نرم خو، خوش خلقی اور خوش گفتاری وسلیقہ مندی آپ کا وصف خاصہ تھا۔ تواضع وانکساری قدرت نے خاص طور پر آپ کو ودیعت کیا تھا۔ حلم وبردباری آپ کی طبیعت ثانیہ، آپ کی زندگی صدق وصفا سے پُر اور سچائی وفاشعاری کانمونہ رہی۔ آپ کے عظیم کارناموں میں جامعہ نظامیہ کا قیام ہے جہاں سینکڑوں تشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھا کر ساری دنیا میں قال اللہ قال الرسول کی صدائیں بلند کئے ہوئے دنیا میں حق کے علمبردار ہیں ترسٹھ سال کی عمر میں اسلام کی ایمان افروزروایات کا امین، محافظ، داعی اورحق آفتاب شریعت وطریقت ، زہد وتقوی، ایثار و اخلاص، ذہانت و بصیرت ،عزیمت جرأت واستقامت ، حق گوئی وحق رسی جیسے اوصاف عالیہ سے منور علمی ، عملی اور روحانی زندگی کی روشن راہیں صدیوں تک آنے والی نسلوں کی رہنمائی کیلئے چھوڑ کر خالق ارض وسماء سے جاملا اناللہ وانا الیہ راجعون جامعہ نظامیہ کے احاطہ میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا گنبد پر انوار آج تک زیارت گاہ عوام وخواص ہے ۔٭٭٭