دیدارِ سرکار کا بَہُت زیادہ شوق ہو، کیونکہ ہر مُحِب اپنے مَحْبُوب سے مُلاقات کا شوق رکھتا ہے اور بعض مشائخ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مَحبَّت مَحْبُوب کے شوق کا ہی دوسرا نام ہے۔2چنانچہ،
فراقِ نبی میں تڑپنے والی صحابیہ
جب اللہعَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس جَہانِ فانی سے پردہ فرمایا تو قبیلہ ہاشِم کی ایک عورت نے اُمُّ الْمُومنین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی خِدْمَت میں حاضِر ہو کر عَرْض کی : مجھے ایک بار میرے آقا کی قَبْرِ اَنْوَر کا دِیدار کرا دیجئے۔کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عَظَمَتِ شان کے باعِث آپ کی قَبْرِ اَنْوَر پر پردے لٹکا دئیے گئے تھے اور اگر کوئی زِیارَتِ قَبْرِ اَنْوَر سے مُشَرَّف ہونا چاہتا تو اسے سَیِّدہ عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی اِجازَت لینا پڑتی کیونکہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کے ہی کاشانۂ اَقْدَس میں مَحْوِ آرام تھے۔ چنانچہ اُمُّ الْمُومنین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیْقَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس کی حَالَتِ زَار پر کَرَم فرماتے ہوئے جونہی قَبْرِ اَنْوَر کے درمیان حائل پردہ ہٹایا اور عِشْقِ نبی سے مَعْمُور اس عورت کی نِگاہ اپنے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قَبْرِ اَنْوَر پر پڑی تو وہ اپنی بے پناہ مَحبَّت اور والہانہ عِشْق کے باعِث خود پر قابو نہ رکھ پائی اور جان سے بھی عزیز تر اپنے مَحْبُوب آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جُدائی پر اس کی آنکھوں سے اَشکوں کا سیلاب جارِی ہو گیا اور پھر دَرِ رَسول پر یوں ہی روتے روتے اس کی بے قَرار رُوْح کو قَفَسِ عُنْصُرِی سے پرواز کرنے کے باعِث قَرار مل گیا۔1
آپ کے عِشْق میں اے کاش! کہ روتے روتے
یہ نِکَل جائے میری جان مدینے والے2
تیرے قدموں پر سَر ہو اور تارِ زِنْدَگی ٹوٹے
یہی اَنْجَامِ اُلْفَت ہے یہی مرنے کا حاصِل ہے3
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد