شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
جامعہ نظامیہ شاہی فرامین کی روشنی میں
از: ڈاکٹر سید داود اشرف(ڈائرکٹرمعاون)
جامعہ نظامیہ کے بانی فضیلت جنگ بہادرؒ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں‘ وہ نہ صرف یہ کہ بانی جامعہ نظامیہ تھے۔ بلکہ انھیں سابق ریاست حیدرآباد کے آخری دو حکمرانوں نواب میر محبوب علی خاں آصف سادس اور نواب میر عثمان علی خاص آصف سابع کے استاد رہنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ بقول تمکین کا ظمی ’’بہ لحاظ فضیلت و علمیت حیدرآباد میں کوئی عالم آپ کے پایہ کا نہ تھا‘ مگر آپ کو نہ تو اپنی علمیت و فضیلت کے اظہار کا شوق تھا‘ نہ ہی آپ کا انکسار اور عجز اس کی اجازت دیتا تھا۔ آپ صدر الصدور اور صدر المہام امور مذہبی بھی ہوگئے تھے‘ مگر عہدہ دارانہ شان اور امارت آپ میں پیدا ہی نہ ہوئی‘ وہی عالمانہ وقار‘ بلکہ طالب علمانہ انکسار آپ میں تھا اور جو آخرتک رہا‘‘۔
اس مضمون میں اس ذی احترام علمی ومذہبی شخصیت کی حیات اور کارناموں اور مدرسہ نظامیہ کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے‘ یہ چند گوشے صرف سات سال کی اس مدت کا احاطہ کرتے ہیں‘ جس کا آغاز نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع کی تخت نشینی سے اور اختتام فضیلت جنگ بہادر کے وصال پر ہوتا ہے۔ یہ مضمون آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ دستاویزات و کاغذات کی چھان بین اور تحقیق کا نتیجہ ہے‘ مقصد یہ ہے کہ مدرسہ نظامیہ اور اس کے بانی کے بارے میں مستندمواد اہل علم کے لئے پیش کیاجائے۔ اس مضمون سے اس حقیقت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ سرپرستی‘ امداد اور فیاضی کے سلسلہ میں سابق ریاست حیدرآباد میں اس کے حکام باقاعدگی اور واجبیت کا ہر سطح پر کتنا خیال رکھتے تھے۔ آرکئیوز سے دستیاب ہونے والے مواد اور فرامین کو ذیل میں ترتیب کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے‘ جن کے غائر مطالعہ سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع نے فضیلت جنگ بہادر کی کس طرح قدر دانی کی تھی اور مدرسہ نظامیہ کی ترقی میں کس درجہ دلچسپی کا اظہار کیاتھا۔
آصف سابع (دور حکمرانی ۱۹۱۱ ء تا ۱۹۴۸ء ) نے اپنے ابتدائی عہد حکومت میں مولوی انوار اللہ خاں بہادر کو محکمہ امور مذہبی میں کلیدی اور اعلی ترین عہدوں پر مامور کیا تھا‘ جن پر کار گزار رہتے ہوئے مولوی صاحب نے اہم اور نہایت مفید خدمات انجام دیں۔ مولوی صاحب ۱۲؍مئی ۱۹۱۲ ء کو صدر الصدور اور نظامت امور مذہبی کے عہدوں کے لئے معین المہام (وزیر) کا ایک جدید عہدہ ۱۹۱۳ء میں قائم کیا گیا تھا۔ جس پر نواب مظفر جنگ بہادر کا عارضی طور پر تقرر عمل میں آیاتھا‘ وہ اس عہدہ پر صرف سات ماہ کارگزار رہنے کے بعد ۱۲؍ اپریل ۱۹۱۴ء کو انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کے بعد مولوی انوار اللہ خاں بہادر کو بذریعہ جریدہ غیر معمولی مؤرخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۱۴ء بیافت دو ہزار روپے ماہوار معین المہام امور مذہبی مقرر کیا گیا‘ وہ وفات پانے تک یعنی تقریبا چار سال تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ آصف سابع نے اپنی سالگرہ کے موقع پر بذریعہ فرمان مؤرخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۱۷ء مولوی صاحب کو ’’فضیلت جنگ بہادر‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ قبل ازیں نواب میر محبوب علی خاں آصف سادس نے ۱۸۸۴ ء میں جشن تخت نشینی کے موقع پر مولوی صاحب کو ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب عطاء کیاتھا۔
علم دوستی اور تعلیمی اداروں کی سرپرستی کے لئے آصف سابع بڑی شہرت رکھتے تھے‘ یہ بات ممکن نہ تھی کہ ریاست کی مشہور دینی درسگاہ مدرسہ نظامیہ کی مالی امداد اور اس کی بہتر نگرانی آصف سابع کی خصوصی دلچسپی سے محروم رہتی‘ چنانچہ انہوں نے تخت نشینی کے اندرون ایک سال فرمان مؤرخہ ۲۴؍مئی ۱۹۱۲ ء کے ذریعہ مدرسہ نظامیہ کے لئے دو ہزار روپے ماہانہ کی امداد منظور کی‘ اس فرمان میں انہوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ مدرسہ نظامیہ کا انتظام مولوی انواراللہ خاں بہادر کی زندگی تک انہیں کے سپرد رہے۔ آصف سابع نے مولوی صاحب کی تصانیف کی اشاعت کے لئے پانچ سو روپے ماہوار منظور کئے تھے‘ اس سلسلے میں سرکاری سطح پر جو کاروائی ہوئی تھی‘ اس کی مختصر روئیداد یہ ہے۔
مولوی انوار اللہ خاں بہادر نے آصف سابع کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی تھی‘ جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ مولوی حسن الزماں کو بیس پچیس سال سے تصنیفات چھپوانے کے لئے حکومت سے پانچ سو روپے ماہانہ ملتے تھے‘ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ مولوی صاحب نے اپنی درخواست میں یہ لکھا کہ وہ بھی ایک مدت سے اپنی حیثیت کے مطابق دینی مسائل پر کتابیں لکھ رہے ہیں‘ لہذا اگر وہ ماہوار ان کی تصانیف کی اشاعت کے لئے مقرر کی جائے تو اجر عظیم ہوگا۔ اس درخواست پر معین المہام فینانس نے لکھاکہ مولوی حسن الزماں کی ماہوار کی مسدودی سے متعلق مولوی انوار اللہ خاں بہادر سے رائے لینے کے بعد مسدودی کی تحریک کی گئی تھی اور پھر ماہوار کی مسدودی کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ اگر یہی ماہوار اب مولوی انوار اللہ خاں بہادر کے نام جاری ہوتو مناسب ہوگا۔ آصف سابع مناسب سمجھیں تو کوئی جدید ماہوار مقرر فرمائیں۔ آصف سابع نے اس تجویز پر فرمان مؤرخہ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۱۲ ء کے ذریعہ حکم دیا کہ اگر وہ ماہوار جو مسدود ہوگئی ہے‘ قابل اجراء نہیں ہے تو علحدہ از سر نو پانچ سو روپے ماہوار اس دینی کام کے لئے خاص طور پر مولوی صاحب کو دیئے جائیں‘ تاکہ انکے ذریعہ یہ کام جاری رہے۔
آصف سابع نے مولوی انواراللہ خاں بہادر کے لئے احکام صادر کئے تھے کہ وہ صدر الصدوری کے کاغذات معتمد متعلقہ کی بجائے براہ راست مدار المہام (صدر اعظم) یا آصف سابع کی خدمت میں پیش کر کے ہدایات حاصل کریں۔ اس سلسلے میں ایک طویل عرضداشت میں صدر الصدور اور نظامت امور مذہبی کے کام کی صراحت کرتے ہوئے آصف سابع سے اس بارے میں احکام صادر کرنے کی گزارش کی گئی تھی کہ مدار المہام یا آصف سابع کے احکام کے لئے صدر الصدور کے دفتر کے کاغذات التز اماً معتمد امور مذہبی کے توسط سے پیش ہونے چاہئے یا معین المہام امور مذہبی وہ کاغذات بالراست پیش کر سکتے ہیں۔ اس عرضداشت پر آصف سابع نے بذریعہ فرمان مؤرخہ ۵؍اپریل ۱۹۱۵ ء یہ ہدایات جاری کیں
’’فی الوقت معین المہام امور مذہبی خود صدر الصدور بھی ہیں‘ تو اس صورت میں سوال مذکور کے قطعی تصفیہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آئندہ اگر کبھی معین المہام امور مذہبی کے علاوہ ایک جدا گانہ عہدہ دار صدر الصدور مقرر ہوگا‘ تو اس وقت تصفیہ کیا جاسکے گا کہ صدر الصدوری کے کاغذات بذریعہ معتمد علاقہ پیش ہونا چاہئے یا ۔کیا؟ اب جب کہ صدر الصدور خود معین المہام امور مذہبی ہیں‘ تو وہ اپنی ذمہ داری سے صدر الصدور کے کاغذات بطور خود براہ راست مدار المہام یا سرکار میں پیش کر کے ہدایات یا احکام مناسب حاصل کرتے رہے‘‘۔
مولوی انوار اللہ خاں بہادر نے محکمہ امور مذہبی کے ناظم اور معین المہام مقرر ہونے پر اس محکمہ میں کئی اصلاحات نافذ کیں‘ ریاست کے مسلمانوں اور خاص کر دیہات کے مسلمانوں کی مذہبی اصلاح اور سدھار کا کام ان کی خاص توجہ کا مرکز رہا۔ ریاست کے دیہاتوں کی مسلمان رعایا کی دینی اور مذہبی اصلاح کے لئے واعظین کے سلسلے میں آصف سابع نے فرمان مؤرخہ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۱۶ء کے ذریعہ ہدایات جاری کیں
’’اس بارے میں معین المہام امور مذہبی کی رائے منظور کی جاتی ہے‘ حسبہ ہر ضلع کے لئے سردست ایک واعظ کا تقرر کیا جائے‘ ان کو پچاس روپے ماہوار اور بھتہ بیس روپے ماہانہ دیا جائے۔ ہر واعظ کے پاس ایک ایک چپراسی آٹھ روپے ماہوار متعین کیاجائے‘ لیکن واعظین کو اچھے طور سے ہدایت دی جائے کہ وہ اپنا وعظ اور دینیات کی تعلیم کو دورہ کرکے صرف مسلمانوں کی جماعت تک محدود رکھیں اور دوسرے مذہب والوں کی ہدایات یا مناظرہ سے کچھ تعلق و سروکار نہ رکھیں‘‘۔
مولوی انواراللہ خاں بہادر چاہتے تھے کہ مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو دارالعلوم کے طلبہ کی طرح سرکاری ملازمتوں کا استحقاق دیا جائے۔مولوی صاحب کی تحریک پر اس بارے میں سرکاری سطح پر جو کارروائی ہوئی تھی‘ اس کے خلاصے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کو اس مسئلہ سے کتنی دلچسپی تھی۔ اس کارروائی کے تکمیل پانے اور اس سلسلے میں آصف سابع کافرمان صادر ہونے سے چند ماہ قبل مولوی صاحب وفات پاچکے تھے‘ لیکن جو فرمان جاری ہواتھا‘ وہ بڑی حد تک ان کی خواہش اور منشاء کے مطابق تھا۔ اس کارروائی کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے۔
’’مولوی صاحب نے آصف سابع کے نام ایک معروضے میں لکھا تھا کہ آصف سابع فیاضی سے مدرسہ نظامیہ کے طلبہ پر لاکھوں روپے صرف ہورہے ہیں‘ جس کی وجہ سے ہندوستان کے علاوہ باہر کے طلبہ بھی فارغ التحصیل ہورہے ہیں‘ مگر اس مدرسہ کے سند یافتہ ملکی طلبہ تیرہ سال تک تحصیل معقول ومنقول میں جاں فشانی کرنے کے باوجود سرکاری ملازمت کے لئے مستحق نہیں سمجھے جاتے‘ حالانکہ لیاقت میں یہاں کے طلبہ دارالعلوم کے طلبہ سے کم نہیں ہیں۔ اگر آصف سابع یہ حکم صادر فرمائیں کہ جس قدر دارالعلوم کے سند یافتہ طلبہ کو ملازمت کا استحقاق دیا گیاہے‘ اس قدر استحقاق مدرسہ نظامیہ کے سند یافتہ طلبہ کو بھی دیا جائے تو بہت سے ملکی طلبہ بھی ملازمت کی توقع میں مدرسہ نظامیہ سے فائدہ اٹھاکر آصف سابع کے حق میں دعاء گو رہیں گے‘‘۔
جب ایک سال سے زیادہ مدت گزر گئی اور اس بارے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیںہوئی‘ تو مولوی صاحب نے آصف سابع کے نام ایک اور درخواست کے ذریعہ اپنے سابق معروضے کی پذیرائی کے لئے یاد دہانی کی۔ آصف سابع نے فرمان مؤرخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۱۸ ء کے ذریعہ مولوی صاحب کی درخواستوں پر کیفیت اور رائے پیش کرنے کی ہدایت دی۔
ناظم تعلیمات (سرراس مسعود)‘ معتمد تعلیمات (سراکبر حیدری) اور معین المہام تعلیمات(فخر الملک) نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ مدرسہ نظامیہ کے نصاب تعلیم میں دنیاوی اور سرکاری ملازمتوں کی ضرورتوں کا کم لحاظ رکھا گیاہے‘ چنانچہ جغرافیہ ‘ تاریخ‘ حساب اور سائنس کے مضامین داخل نصاب نہیں ہیں ‘ اس لئے سب سے پہلے نصاب کی اصلاح ضروری ہے‘ اس کے علاوہ جامعہ نظامیہ کے طلبہ بھی دارالعلوم کے طلبہ کی طرح سرکاری امتحانات میںشریک ہوکر کامیابی حاصل کریں‘ تب انہیں بھی دارالعلوم کے طلبہ کی طرح عام سرکاری ملازمت کے لئے حقوق عطاء کئے جاسکتے ہیں۔
معین الملک سیاسیات فریدوں الملک نے لکھا کہ مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو حسب لیاقت سرکاری دفاترمیں ملازمت ملنی چاہئے‘ کیونکہ جس قسم کی تعلیم یہ طلبہ پاتے ہیں‘ اس سے ان کو عام لیاقت اس قدر حاصل ہوجاتی ہے کہ وہ دفتری خدمات کے لئے کافی سمجھی جائے‘ البتہ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ مدرسہ نظامیہ کے طلبہ کے لئے بھی بغرض حصول ملازمت وہی حقوق مقرر کئے جائیں‘ جو طلبہ دارالعلوم کو دیئے گئے ہیں۔ اس بارے میں عرضداشت پیش ہونے پر آصف سابع نے فرمان مؤرخہ ۱۰؍ا گسٹ ۱۹۱۸ ء کے ذریعہ حکم دیا کہ
’’مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو اپنی اپنی ذاتی لیاقت کی مناسبت سے سرکاری خدمات پانے کاحق حاصل رہے گا‘‘۔
فضیلت جنگ بہادر کے وفات پانے پر آصف سابع نے ان کی رحلت کو ملک اور قوم کا عظیم نقصان قرار دیا‘ آصف سابع نے حسب ذیل تعزیتی فرمان مؤرخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۱۸ ء کے ذریعہ مولوی صاحب کی شخصیت اور خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔
’’مولوی محمد انوار اللہ فضیلت جنگ بہادر اس ملک کے مشائخ عظام میں سے ایک عالم باعمل اور فاضل اجل تھے اور اپنے تقدس و ورع اور ایثار ونفس وغیرہ کی خوبیوں کی وجہ سے عامۃ المسلمین کی نظروں میں بڑی وقعت رکھتے تھے۔ وہ والد مرحوم ،میرے نیز میرے دونوں بچوں کے استاد بھی تھے اور ترویج علوم دینیہ کے لئے مدرسہ نظامیہ قائم کیا تھا‘ جہاں اکثر ممالک بعیدہ سے طالبان علوم دینیہ آکر فیوض معارف وعوارف سے متمتع ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب کو میں نے اپنی تخت نشینی کے بعد ناظم امور مذہبی اور’’صدر الصدور‘‘ مقرر کیا تھا اور اور مظفر جنگ کا انتقال ہونے پر معین المہام امور مذہبی کے عہدہ جلیلہ پر مامور کیا۔ مولوی صاحب نے سر رشتہ امور مذہبی میں جو اصلاحات شروع کیں وہ قابل قدر ہیں اور اگر وہ تکمیل کو پہنچائی جائیں تو یہ سر رشتہ خاطر خواہ ترقی کرسکے گا۔ بہ لحاظ ان خصوصیات کے مولوی صاحب کی وفات سے ملک اور قوم کو نقصان عظیم پہنچا اور مجھ کو نہ صرف ان وجوہ سے بلکہ تلمذ کے خاص تعلق کے باعث مولوی صاحب مرحوم کی جدائی کا سخت افسوس ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے مدرسہ نظامیہ میں دو تعلیمی وظیفے پچیس پچیس روپے ماہانہ کے مولوی صاحب کے نام سے ہمیشہ کے واسطے قائم کئے جائیں‘ یہ وظیفے کس درجے کے طالب علموں کو کس مدت کے لئے اور کن شرائط سے دیئے جائیں گے‘ اس کے متعلق علحدہ تجاویز پیش کر کے میری منظوری حاصل کی جائے‘‘۔
آصف سابع کو اپنے استاد محترم کے قائم کردہ مدرسہ سے خاص تعلق خاطر تھا‘ انہیں یہ بات پسند نہ تھی کہ یہ مدرسہ اصطبل میں قائم رہے‘ چنانچہ اپنے اتالیق کی وفات کے چند ماہ بعد ہی آصف سابع نے فرمان مؤرخہ ۲۸؍جولائی ۱۹۱۸ ء کے ذریعہ احکام صادر کئے کہ حکومت کی جانب سے اصطبل کا انہدام کر کے‘ اسی مقام پر پندرہ بیس ہزار روپے کی لاگت سے مدرسہ کے لئے ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی جائے۔
آرکائیوز کے ریکارڈ سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کردہ یہ مضمون صرف چند برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اگر اس موضوع پر آندھرا پردیش آرکائیوز میں محفوظ تمام متعلقہ مواد کو تجزیہ کے ساتھ پیش کیا جائے‘ تو یقین ہے کہ اس موضوع پر بہت سے نئے گوشے منظر عام پر آئیں گے۔
٭٭٭
تذکرۂ حضرت شاہ رضا رحمۃ اللہ علیہ
دکن کے مشہور ومعروف اولیاء کرام میں بارھویں صدی کے حضرت سید شاہ رضا علی رضوی المدنی کا مقام منفرد نظر آتا ہے۔ آستانہ رضوی میں کئی بزرگان دین محو خواب ہیں، یہ آستانہ بے ہودہ مکروہ رسومات سے پاک وصاف ہے، یہاں خانقاہی نظام آج بھی سانسیں لے رہا ہے اور بندگان خدا کے روحانی علاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حضرت سید شاہ رضا علی حسینی رضوی المدنی المعروف سید شاہ رضاؒ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا علی موسی رضا رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اسی لئے مورخین نے آپ کو سادات رضوی لکھا ہے، آپ کے آباء واجداد مدینہ طیبہ سے تبلیغ اسلام فرماتے ہوئے ہندوستان تشریف لائے تھے اس لئے ’’المدنی‘‘ آپ کے نام کا جز بن گیا۔آپ کی حیات کی جھلکیاں
(۱) تاریخ گلزار آصفیہ
(۲)محبوب ذی المنن تذکرہ اولیاء دکن‘ حصہ دوم وسوم
(۳)تاریخ النوائط
(۴) مشکواۃ النبوۃ (۵)پنج گنج (۶)انوار الاخیار
(۷)حدیقۂ رحمانی(قلمی)
(۸)مرأۃ الکونین جیسی معتبر ومستند کتب ہمیں ملتی ہیں
یہ تذکرہ مبارک ان ہی کتابوں کے مستند مواد، حالات، واقعات وکرامات کی مدد سے مولانا محمد فصیح الدین نظامی نے مرتب کیا ہے، امید کہ اس زندہ ولی کے بافیض تذکرہ سے عامۃ المسلمین مطالعہ واستفادہ کرکے اپنی دینی ودنیاوی زندگی میں انقلاب برپاکریں گے۔
٭٭٭