سفر کی تعریف
دَورانِ سَفَربھی روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے۔سَفَر کی مِقْدار بھی ذِہن نشین کرلیجئے۔سَیِّدی ومُرشِدی امامِ اَہْلِسُنَّت ،اعلی حضرت، مولیٰنا شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرحمٰن کی تحقیق کے مُطابِق شَرْعاً سَفَر کی مِقْدارساڑھے ستاون میل (یعنی تقریباً بانوے کلومیٹر)ہے جو کوئی اِتنی مِقدار کا فاصِلہ طے کرنے کی غَرَض سے اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے باہَر نِکل آیا ، وہ اب شرعاً مُسافِر ہے۔اُسے روزہ قَضا ء کرکے رکھنے کی اِجاز ت ہے اور نَماز میں بھی وہ قَصْر کریگا۔مُسافِر اگر روزہ رکھنا چاہے تَو رکھ سکتا ہے مگر چار رَکْعَت والی فَرض نَمازوں میں اُسے قَصر کرنا واجِب ہے۔ نہیں کریگا تَو گُنہگار ہوگا۔اور جَہالَتاً (یعنی علم نہ ہونے کی وجہ سے)پوری (چار)پڑھی تو اس نَماز کا پھیرنابھی واجب ہے (مُلَخَّصاًفتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ج۸ص۲۷۰) یعنی معلومات نہ ہونے کی بِناء پر آج تک جتنی بھی نمازیں سفر میں پوری پڑھی ہیں ان کا حساب لگا کرچار رکعتی فرض قصر کی نیّت سے دو دو لوٹانے ہوں گے۔ ہاں مسافر کو مقیم امام کے پیچھے فرض چار پورے پڑھنے ہوتے ہیں سنتیں اور وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔ قَصْر صِرف ظُہر ،عَصْر اور عِشاء کی فَرْض رَکْعَتوں میں کرنا ہے۔یعنی اِن میں چار رَکْعَت فَرْض کی جگہ دو رَکْعَت ادا کی جائیں گی۔باقی سُنَّتوں
اور وِتَرْ کی رَکْعَتیں پُوری اداکی جائیں گی۔ دُوسرے شہر یا گاؤں وغیرہ میں پہنچنے کے بعد جب تک پندرہ دِن سے کم مُدَّت تک قِیام کی نِیَّت تھی مُسافِر ہی کہلائے گا اور مُسافِرکے اَحْکام رہیں گے۔اور اگر مُسافِر نے وہاں پہنچ کر پندرہ دِن یا اُس سے زِیادہ قِیام کی نِیَّت کرلی تَو اب مُسافِر کے اَحکام خَتْم ہو جائیں گے ۔اور وہ مُقیم کہلائے گا ۔اب اسے روزہ بھی رکھنا ہوگا اور نَماز بھی قَصْر نہیں کریگا۔ سفر کے متعلق ضروری اَحکام کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے بہار ِ شریعت حصّہ چہارم کے باب” نمازِ مسافِر کا بیان” کامُطالَعَہ فرمائیں۔