شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
اور نظریہ وحدۃ الوجود
از : مولانا قاضی سید لطیف علی قادری،
نائب مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ‘ حیدرآباد
نفوس کی پاکی اخلاق کی صفائی اور ظاہر و باطن کو یکسا نیت کے نور سے آراستہ کرنے کا نام تصوف ہے ، اور تصوف کا مقصد اصلی ابدی سعادت کا حصول ہے، تصوف کی اصل وہ حدیث ہے جو حدیث جبرئیل سے مشہور ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اعبدکانک تراہ فان لم یکن تراہ فانہ یراک۔
تصوف چند اشغال ورسوم کا نام نہیں بلکہ معرفت ، طریقت، حقیقت، سلوک ،مجاہدہ او رخدا کی محبت واطاعت میں کامل ہونا بھی ہے۔ شریعت اور تصوف ایک دوسر ے کی راہ میں ہرگز متصادم نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔
اگر شریعت جسم ہے تو تصوف کو اسکی روح کا درجہ حاصل ہے۔
اگر تصوف خداسے محبت کے دعوے کانام ہے توشریعت اس کا ثبوت ہے۔ تصوف علم وعمل اور اخلاص واطاعت ہی کا دوسرا نام ہے۔
صوفی وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو غیراللہ سے محفوظ رکھے دل میں کوئی شیطانی خطرہ نہ آنے دے، عبادت اورریاضت میں اصول شرع اور سنت رسول پر قائم رہے۔
حضرت شیخ الاسلامؒ نے سلوک یا تصوف کی تعلیم اپنے والد گرامی قدر حضرت قاضی ابومحمد شجاع الدین فاروقیؒ سے حاصل کی تھی، اور تمام سلاسل میں آپ سے بیعت اور خلافت بھی حاصل کی ۔(۱)
اس طر ح والدگرامی نے رازہائے سربستہ اپنے ہونہار صاحبزادے کے سینہ میں منتقل کردئے ، اس کے علاوہ ۱۲۹۴ھ میں حرمین شریفین کے پہلے سفر کے موقع پر شیخ وقت امام العلماء حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے تصوف کے تمام سلاسل میں تجدید بیعت کی۔ اسی موقع پر شیخ العرب والعجم نے بلاطلب اپنا خرقہ خلافت بھی سرفرازفرمایا اور دکن کے مریدوطالبان کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ سلوک وتصوف کی تکمیل اور مشکلات کے حل کے لئے حضرت شیخ الاسلامؒ کی خدمت میں رجوع ہوکر مدد حاصل کریں۔ (۲)
تصوف کے دومکتب فکر ہیں
(۱)وحدت الوجود
(۲)وحدت الشہود
وحدت الوجود:
لاالہ الااللہ کے معنی اہل ظاہر کے یہاں تویہ ہیںکہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، پرستش اور عبادت صرف اسی کی ہونی چاہئے ، اس ذات واحد کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش شرک ہے۔ لیکن صوفیہ کے نزدیک لاالہ الااللہ کے معنی لاموجودالااللہ کے ہیں، یعنی عالم وجود میں صرف ذات خدا موجود ہے اس کے علاوہ کوئی موجود نہیں ، کسی دوسری چیزکو حقیقی وجود سے متصف کرنا شرک اور کفر ہے۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ممکنات اور وجود کائنات کی وجودِ باری تعالیٰ سے کیا نسبت ہے؟ جوصوفیہ وحدت الوجود کے قائل ہیں وہ کہتے ہے کہ وجود مطلق ایک ہی ہے، جو وجوب امکان ، قدیم ، حادث ، مجرد ، جسمانی مومن ، کا فر،طاہر نجس، مختلف مظاہر میں ظاہر ہے ، لیکن ہر مظہر کا حکم جداگانہ ہے، مظاہر میں فرق کرنا لازمی امر ہے، اور ہرمظہر پر ایک جداگانہ حکم لگانا ضروری ہے، طاہر پر طہارت کا حکم ہے تو نجس پر نجاست کا ، کافر کے کچھ احکام ہیں تومومن کیلئے دوسرے احکام
ہر مرتبہ ازوجود حکم دارد
گرفرقِ مراتب نہ کسی زندیقی
وجود کے ہر مرتبہ کا ایک حکم ہے، اگر تومراتب کا فرق نہ کریگا تو زندیق ہے…
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’فتاوی عزیزی‘‘ میں وحدت الوجود کی تشریح کی ہے فرماتے ہیں۔
’’پہلے وحدت الوجود کے معنی سمجھ لوپھر حقیقت حال سمجھنا، وحدت الوجود کے معنی یہ ہیںکہ وجود حقیقی (بمعنی مابہ الموجودیت نہ کہ معنی مصدری ) ایک چیزہے جو واجب میں واجب اور ممکن میں ممکن اور جو ہر میں جوہر عرض میں عرض ہے اور اس کے یہ اختلافات ذات کے اختلافات نہیں ہیں جیساکہ سورج کی شعاعیں پاک اور ناپاک پر پڑتی ہیں اور وہ اپنی ذات کے اعتبار سے پاک ہیں ناپاک نہیں ہیں، یہ مسئلہ اپنی جگہ حق ہے اور کسی طرح بھی شرع کے مخالف نہیں ہے اسلئے کہ اس وجود حقیقی میں سے ہر مرتبہ کا حکم جداگانہ حکم ہے اور شرع شریف ہر مرتبہ کا حکم بیان کرتا ہے۔ بعض کو ہادی بعض کوگمراہ کنندہ ،بعض کو واجب الاطاعت بعض کو واجب العصیان، بعض کو حلال بعض کو حرام، بعض کو پاک بعض کو ناپاک قرار دیتی ہے کوتاہ بیں سمجھتا ہے کہ یہ ذات کے اختلاف کی وجہ سے ہے حالانکہ یہ قطعاً نہیں ہے بلکہ شئون اور اعتبارات کا اختلاف ہے‘‘۔
وحدۃ الشہود
’’رودِ کوثر‘‘ میں شیخ محمد اکرام رقمطراز ہیںکہ
’’حضرت مجد د سرہندیؒ سے پہلے تمام صوفیاء ہند میں ایک ہی فلسفہ رائج تھا اور وہ تھا ابن العربی کا فلسفہ وحدت الوجود‘ بے شک اس کے اخذ وقبول میں مختلف منازل اور مراتب تھے بعض انتہا پسند صوفی تو وحدت الوجود میں اس قدر غلو کرتے تھے کہ وہ قریب قریب دائرہ اسلام سے باہر آجاتے تھے اور کئی دوسرے اسے فقط اسی حدتک اختیار کرتے تھے جس حدتک اسلام مانع نہ ہو، اب پہلی مرتبہ ایک جداگانہ فلسفہ مدون ہوا، جو فلسفہ وحدت الوجود کے مقابل ہوا اور یہ فلسفہ وحدۃ الشہود تھا جو معنوی اعتبار سے وحدت الوجود کی ضد یعنی تثنیۃ الوجود کا فلسفہ کہلاسکتاہے‘‘۔ (۳)
وحدت الشہود کی تفصیل یہ ہیکہ کائنات کاوجود اور مختلف صفات اور آثار کا ، اور مطلق کی ذات وصفات کا ظل وعکس ہے جو عدم میں منعکس ہوتاہے اور یہ ظل عکس واحد مطلق کا عین نہیں بلکہ محض ایک مثال ہے ، شیخ اکرام نے ، نواب میر احمد حسین نظام جنگ بہادر کی کتاب ’’فلسفہ فقراء‘‘ سے ایک نقشہ نقل کیا ہے جس میں ان دونوں نظریوں کے فرق کواجاکرکیاگیاہے۔
وحدت الوجود
ہوالکل
وحدت الشہود ہوالہادی
نظریہ رجحان تصوف
ہمہ اوست
نظریہ رجحان تصوف
ہمہ ازوست
سکون کی طر ف ما ئل
جوش کی طرف مائل
میںاوروہ جدا نہیں
وہ دریا تو میں قطرہ ہوں
میں اس کے ساتھ اور
وہ میر ے ساتھ ہے
وصل
عشق
میںکون؟
انَا الْحَق
اعتقاد۔میںکون
انَاعبدُہ(عاشق)(۴)
ایک مقام پر حضرت عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے ان دونوں مسلکوں میں مطابقت پید اکی ہے وہ یہ ہے کہ وحدت وجودی مرتبہ ذات میں درست ہے اور وحدت الشہود تعینات کے درجہ میں واجب القبول اور صحیح ہے لہٰذا دونوں باتیں اپنی جگہ صحیح ہیں۔ حضرت شیخ الاسلامؒ نظریہ وحدت الوجود کے قائل وحامی تھے اور جس طرح اقبالؔ لاہوری نے شاعری میں اپنا استاذ پیر رومیؔ کوجانا اور مانا اور اس کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح تصوف میں حضرت شیخ الاسلامؒ نے شیخ ابن العربیؒ کو اپنا پیر روحی مانا ہے۔ اس بات کا اندازہ حضرت شیخ الاسلامؒ کی تصانیف کو دیکھنے سے ہوتا ہے ۔ جن میں آپ نے حضرت شیخ اکبرکی کتب کے حوالے دئیے ہیں اور عبارات نقل کی ہیں۔
اسکی دوسری وجہ یہ کہ حضرت شیخ الاسلام کو شیخ اکبر کی ذات سے والہانہ لگائو اور غیر معمولی انس تھا اور آپ شیخ اکبر کی معر کہ آرا تصنیف لطیف ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ کا درس دیا کرتے تھے جس میں اس وقت کے جلیل القدر علماء او رمشائخ شریک رہا کر تے تھے ، جیسا کہ مولانا عبدالحی لکھنوی تحریر کرتے ہیں،
’’وکان یدرس الفتوحات المکیۃ بعد المغرب الی نصف اللیل وکان عظیم الاعتقاد فی الشیخ محی الدین ابن عربی۔ ( ۵)
ترجمہ :اور وہ (حضرت شیخ الاسلام )مغرب کے بعد سے آدھی رات تک ’’فتوحات مکیہ ‘‘ (نامی کتاب کا )درس دیتے تھے، اور شیخ محی الدین ابن عربی سے و الہانہ عقیدت رکھتے تھے۔
٭٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ‘ ؍مطلع الانوار‘ ص ۱۴‘ مطبوعہ1405‘ زیر اہتمام جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد۔
(۲)مولانا مفتی محمد رکن الدین قادریؒ‘ ؍مطلع الانوار ‘ص 17‘ مطبوعہ1405‘ زیر اہتمام‘ جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد۔
(۳) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی؍فتاویٰ عزیزی
(۴) نواب میر احمد حسین نظام جنگ بہادر؍فلسفۂ فقراء
(۵)مولانا حکیم عبدالحیٔ؍ نزہتہ الخواطر جلدہشتم، ص۸۰؍ مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد
٭٭٭