۲ھ میں رمضان کے روزے فرض ہوئے اور اسی سال عید سے دو دن پہلے صدقہ فطرکا حکم دیا گیا۔ (الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۲ )
صدقہ فطرکی ادائیگی کی حکمت
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ،رء وف رَّحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے روزوں کو لغو اور بے حیائی کی بات سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھلانے کے لیے صدقہ فطر مقرر فرمایا ۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الزکوٰۃ ،باب زکوٰۃ الفطر،الحدیث۱۶۰۹،ج۲،ص۱۵۷)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: یعنی فطرہ واجب کرنے میں 2حکمتیں ہیں ایک تو روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی۔ اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلاوجہ لڑ پڑتا ہے، کبھی جھوٹ غیبت وغیرہ بھی ہو جاتے ہیں ،رب تعالیٰ اس فطرے کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کر دے گا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔دوسرے مساکین کی روزی کا انتظام۔ (مرأۃ المناجیح، ج۳، ص۴۳)
صدقہ فطر کا شرعی حکم
صدقہ فطر دینا واجب ہے۔ (الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۲) صحیح بخاری میں عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ عليہ وسلم نے مسلمانوں پر صدقہ فطرمقرر کیا۔
(صحيح البخاري،،کتاب الزکوٰۃ، باب فرض صدقۃ الفطر، الحديث: ۱۵۰۳،ج۱، ص۵۰۷. ملخصا)
صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟
صدقہ فطر ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جو مالک ِ نصاب ہو اور
اسکانصاب حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو ۔ (ما خوذ ازالدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۶۵) مالِکِ نِصاب مَرد اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے(چاہے پھر وہ پاگل اولاد بالِغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرے۔ہاں! اگر وہ بچّہ یامَجْنُونخود صاحِبِ نِصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فِطْرہ اداکردے۔
(الفتاوی الھنديۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲)