یہ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اولاد مبارکہ میں سب سے آخری فرزند ہیں۔ یہ ذوالحجہ ۸ ھ میں مدینہ منورہ کے قریب مقام ”عالیہ” کے اندر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے۔ اس لیے مقام عالیہ کادوسرا نام ”مشربۂ ابراہیم ”بھی ہے۔ ان کی ولادت کی خبر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقام عالیہ سے مدینہ آ کر بارگاہِ اقدس میں سنائی۔ یہ خو ش خبری سن کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انعام کے طور پر حضرت
ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک غلام عطا فرمایا۔ اس کے بعد فوراً ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ”یااباابراہیم” (اے ابراہیم کے باپ) کہہ کر پکارا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اور ان کے عقیقہ میں دو مینڈھے آپ نے ذبح فرمائے اور ان کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی اور ان کے بالوں کو دفن کرادیا اور ”ابراہیم” نام رکھا، پھر ان کو دودھ پلانے کے لیے حضرت ”ام سیف” رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد فرمایا۔ ان کے شوہر حضرت ابو سیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوہاری کا پیشہ کرتے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت زیادہ محبت تھی اورکبھی کبھی آپ ان کو دیکھنے کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوسیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر گئے تو یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم جان کنی کے عالم میں تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یاسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عوف کے بیٹے!یہ میرا رونا ایک شفقت کا رونا ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب چشمان مبارک سے آنسو بہے تو آپ کی زبان مبارک پریہ کلمات جاری ہوگئے کہ اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلاَّ مَا یَرْضٰی رَبُّنَا وَاِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا اِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں۔
جس دن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا اتفاق سے اسی دن سورج میں گرہن لگا۔ عربوں کے دلوں میں زمانہ جاہلیت کایہ عقیدہ جما ہوا تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت سے چاند اور سورج میں گرہن لگتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ غالباً یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی و جہ سے ہوا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا جس میں جاہلیت کے اس عقیدہ کا ردفرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اِنَّ اْلشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰیَتَانِ مِنْ اٰیٰاتِ اﷲِ لَایَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ فَاِذَا رَاَیْتُمُوْھَا فَادْعُوا اللہَ وَصَلُّوْا حَتّٰی یَنْجَلِیْ (بخاری جلد ۱ ص۱۴۵ باب الدعاء فی الکسوف) یقینا چاند اور سورج اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا جینے سے ان دونوں میں گرہن نہیں لگتا جب تم لوگ گرہن دیکھو تو دعائیں مانگو اور نماز کسوف پڑھو یہاں تک کہ گرہن ختم ہو جائے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میرے فرزند ابراہیم نے دودھ پینے کی مدت پوری نہیں کی اور دنیا سے چلا گیا۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے بہشت میں ایک دودھ پلانے والی کو مقرر فرما دیا ہے جو مدت رضاعت بھر اس کو دودھ پلاتی رہے گی۔(1)(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس دفن فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کی قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔(1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص ۴۵۳)
بوقت وفات حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف ۱۷ یا ۱۸ ماہ کی تھی۔ واﷲ تعالیٰ اعلم(2)