اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثْنَیۡنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ
ترجمہ کنزالایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بے شک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافر وں کی شرارت سے باہرتشريف لے جاناہواصر ف د وجان سے جب وہ دونوں غارميں تھے (۱) جب اپنے يا ر سے (۲) فرماتے تھے (۳) غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے(۴) تو اللہ نے اس پراپناسکينہ اتارا (۵)۔(پ۱۰، التوبۃ:۴۰ )
تفسير:
(۱)نبی کريم صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم اور حضرت صديق جو حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کے يا رِ غار ہيں۔ لفظ يا رِ غار اس آيت سے حاصل ہوا۔آج بھی دلی دوست اور باوفا يا ر کو يا رِ غار کہا جاتا ہے۔
(۲) اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ايک يہ کہ ابوبکر صديق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابيت قطعی ايمانِ قرآنی ہے لہٰذا اس کا انکار کفر ہے۔دوسرا يہ کہ صديق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ حضورصلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کے بعد سب سے بڑا ہے کہ انہيں رب عزوجل نے حضورصلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کا ثانی فرمايا ۔اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم نے انہيں اپنے مصلےٰ پر امام بنايا ۔آپ چار پشت کے صحابی ہيں۔ والدين بھی ،خود بھی ،ساری اولاد بھی، اولاد کی اولاد بھی صحابی۔ جيسے يوسف عليہ السلام چار پشت کے نبی ۔ يہ آپ کی خصوصيت ہے۔ يہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کے بعد خلافت صديق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ہے۔ رب تعالیٰ انہيں دوسرا بنا چکا پھر انہيں تيسرا يا چوتھا کرنے والا کون ہے ۔ وہ تو قبر ميں بھی دوسرے ہيں حشر ميں بھی دوسرے ہوں گے۔
(۳)مجھ پر غم نہ کھاؤ کيونکہ صديق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس وقت اپنا غم نہ تھا خود تو سانپ سے کٹوا چکے تھے حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم پر فدا ہو چکے تھے اگر اپنا غم ہوتا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کو کندھے پر اٹھا کر گيا رہ ميل پہاڑ کی بلندی پر نہ چڑھتے اکيلے غار ميں اندھيرے ميں داخل نہ ہوتے، سانپ سے نہ کٹواتے ۔ان کا يہ غم بھی عبادت تھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کا يہ تسکين دينا بھی عبادت ۔چنانچہ رب تعالیٰ نے ان دونوں ہستيوں کو مکڑی کے جالے اور کبوتری کے انڈوں کے ذريعے بچايا ۔
(۴) موسیٰ عليہ السلام نے فرمايا تھااِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَيھْدِين o (پ۱۹، الشعرآء: ۶۲)ميرے ساتھ ميرا رب ہے يعنی تمہارے ساتھ رب نہيں ميرے ساتھ ہے۔ مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم نے فرمايا اللہ عزوجل ہمارے ساتھ ہے يعنی ميرے ساتھ بھی ہے اور تمہارے ساتھ بھی۔جس کے ساتھ رب ہو وہ کبھی گمراہ نہيں ہو سکتا۔ اللہ عزوجل ہميشہ ابوبکر صديق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھااور رہا جيسے حضورصلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ۔
(۵) معلوم ہوا کہ سکينہ کا نزول صديق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا کيونکہ اس وقت بے چينی انہی کو تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کا قلبِ مبارک تو پہلے ہی سے چين ميں تھا ۔نيز اس سے قريب ميں صديق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی ذکر ہوا لصاحبہ اور ضمير حتی الامکان قريب کی طرف رجوع ہوتی ہے۔ حضرت صديق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خيا ل تھا کہ کافر غار کے منہ پر آگئے ۔اگر حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم پر مطلع ہو گئے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کو دُکھ ديں گے۔(تفسير نورالعرفان)