حضرت امامِ اعظم کا استغاثہ

اگر ہم اس کی مثالیں تحریر کریں تو کتاب بہت طویل ہو جائے گی مثال کے طور پر ہم صرف امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قصیدہ میں سے تین اشعار تبرکاً نقل کرتے ہیں جن میں حضرت امام موصوف نے کس طرح درباررسالت میں اپنا استغاثہ پیش کیا ہے اس کو بہ نگاہ عبرت دیکھئے اور انہی اشعار پر ہم اپنی کتاب کو ختم کرتے ہیں ملاحظہ فرمائے۔
یَا سَیِّدَ السَّادَاتِ جِئْتُکَ قَاصِدًا
اَرْجُوْا  رِضَاکَ  وَاَحْتَمِیْ  بِحِمَاکَ
اَنْتَ الَّذِیْ  لَوْلَاکَ  مَا خُلِقَ  امْرَؤٌ
کَلًّا   وَّ لَا    خُلِقَ   الْوَرٰی   لَوْلَاکَ
اَنَا طَامِعٌ  بِالْجُوْدِ  مِنْکَ  وَلَمْ یَکُنْ
لِاَ بِیْ  حَنِیْفَۃَ  فِی الْاَنَامِ    سِوَاکَ
                               (قصیدۂ نعمانیہ)
    ترجمہ: اے سید السادات! میں آپ کے پاس قصد کرکے آیا ہوں میں آپ کی خوشنودی کا امیدوار ہوں اور آپ کی پناہ گاہ میں پناہ گزین ہوں۔ آ پ کی وہ ذات ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کوئی آدمی پیدا نہ کیا جاتا اور نہ کوئی مخلوق عالم وجود میں آتی۔ میں آپ کے جود و کرم کا امیدوار ہوں۔ آپ کے سوا تمام مخلوق میں ابو حنیفہ کا کوئی سہارا نہیں!
واخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین واکرم الصلوٰۃ وافضل السلام 
علی سید المرسلین واٰلہ الطیبین اصحابہ المکرمین وعلٰی اھل طاعتہ 
اجمعین برحمتہ وھو ارحم الراحمین اٰمین یارب العالمین .
Exit mobile version