دن رات میں کل پانچ نمازیں فرض ہیں۔ فجر’ ظہر’ عصر’ مغرب’ عشاء ان پانچوں نمازوں کا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وقت مقرر ہے۔اورجس نماز کا جو وقت مقرر ہے اس نماز کو وقت میں پڑھنا فرض ہے ۔ وقت نکل جانے کے بعد نماز قضا ہوجاتی ہے ۔
اب ہم نمازوں کے وقتوں کا بیان کرتے ہیں کہ کس نماز کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہو جاتا ہے۔
فجر کا وقت:۔صبح صادق سے شروع ہو کر سورج نکلنے تک ہے اس درمیان جب
چاہیں فجر کی نماز پڑھ لیں۔ لیکن مستحب یہ ہے کہ فجر کی نماز اتنا اجالا ہو جانے کے بعد پڑھیں کہ مسجد کے نمازی ایک دوسرے کو دیکھ کر پہچان لیں۔ صبح صادق ایک روشنی ہے جو سورج نکلنے سے پہلے آسمان کے پوربی کناروں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ یہ روشنی پورے آسمان پر پھیل جاتی ہے اور اجالا ہو جاتا ہے۔ صبح صادق کی روشنی ظاہر ہوتے ہی سحری کا وقت ختم نماز فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ صبح صادق جاڑوں میں تقریباً سوا گھنٹہ اور گرمیوں میں لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ سورج نکلنے سے پہلے ظاہر ہوتی ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
ظہر کا وقت:۔سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ٹھیک دوپہر کیوقت کسی چیز کا جتنا سا یہ ہو تا ہے اس سایہ کے علاوہ اس چیز کا سایہ دوگنا ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ ظہر کے وقت میں مستحب یہ ہے کہ جاڑوں میں اول وقت اور گرمیوں میں دیر کر کے نماز ظہر پڑھیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
فائدہ:۔سورج ڈھلنے اور دوپہر کے سایہ کے علاوہ سایہ دوگنا ہونے کی پہچان یہ ہے کہ برابر زمین پر ایک ہموار لکڑی بالکل سیدھی گاڑ دیں کہ پورب پچھم یا اتر دکھن کو ذرا بھی جھکی نہ ہو۔ اب خیال رکھو کہ جتنا سورج اونچا ہوتا جائے اس لکڑی کا سایہ کم اور چھوٹا ہوتا جائے گا۔ جب سایہ کم ہونا رک جائے تو سمجھ لو کہ ٹھیک دوپہر ہو گئی اوراس وقت میں اس لکڑی کا جتنا بڑاسایہ ہو اس کو ناپ کر دھیان میں رکھو۔ اس کے بعد جوں ہی سایہ بڑھنے لگے تو سمجھ لو کہ سورج ڈھل گیا اور ظہر کا وقت شروع ہو گیا اور جب سایہ بڑھتے بڑھتے اتنا بڑا ہوجائے کہ دوپہر والے سایہ کو نکال کر اس لکڑی کا سایہ اس لکڑی سے دوگنا بڑا ہو جائے تو سمجھ لو کہ
ظہر کا وقت نکل گیا اور عصر کا وقت شروع ہو گیا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔ (البحر الرائق،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجمعۃ،ج۲،ص۲۵۶)
عصر کا وقت:۔ظہر کا وقت ختم ہوتے ہی عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور سورج ڈوبنے تک رہتا ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
جاڑوں میں عصر کا وقت تقریباً ڈیڑھ گھنٹے لمبا رہتا ہے اور گرمیوں میں قریب قریب دو گھنٹے (کچھ کم زیادہ مختلف تاریخوں میں) رہتا ہے’ عصر کی نماز میں ہمیشہ تاخیر مستحب ہے۔ لیکن نہ اتنی تاخیر کہ سورج کی ٹکیا میں زردی آجائے۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلوۃ،الباب الاول،الفصل الثانی،ج۱،ص۵۲)
مغرب کا وقت:۔سورج ڈوبنے کے بعد سے مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور شفق غائب ہونے تک رہتا ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱)
شفق سے مراد وہ سپیدی ہے جو سورج ڈوبنے کی سرخی کے بعد پچھم میں صبح صادق کی سپیدی کی طرح اتر دکھن میں پھیلی رہتی ہے مغرب کے وقت کی لمبائی ہمارے دیار میں کم سے کم سوا گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ تقریباً ہوا کرتی ہے۔ اور ہر روز جتنا لمبا فجر کا وقت ہوتا ہے اتنا ہی لمبا مغرب کا وقت بھی ہوتا ہے۔ (شرح وقایہ،کتاب الصلوۃ،باب اوقات الصلوات الخمس،ج۱،ص۱۴۷)
کہے تو نماز شروع کر سکتا ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اقامت پوری ہو جانے پر نماز شروع کرے(۱۳)دونوں پنجوں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ ہونا (۱۴)مقتدی کو امام کے ساتھ شروع کرنا (۱۵)سجدہ زمین پر بلا کچھ بچھائے ہوئے کرنا۔
عشاء کا وقت:۔شفق کی سپیدی غائب ہونے کے بعد سے صبح صادق کی سپیدی ظاہر ہونے تک ہے لیکن عشاء میں تہائی رات تک تاخیر کرنی مستحب ہے اور آدھی رات تک مباح ہے۔ اور آدھی رات کے بعد عشاء کی نماز پڑھنی مکروہ ہے۔ (البحرالرائق،کتاب الصلوۃ،ج۱،ص۴۳۰)
نماز و تر کا وقت:۔وہی ہے جو نماز عشاء کا وقت ہے لیکن عشاء پڑھنے سے پہلے وتر نہیں پڑھے جاسکتے کیونکہ عشاء اور وتر میں ترتیب فرض ہے یعنی ضروری ہے کہ پہلے عشاء پڑھ لی جائے اس کے بعد وتر پڑھی جائیں۔ اگر کسی نے قصداً عشاء کی نماز سے پہلے وترپڑھ لئے تو وتر ادا نہیں ہوں گے۔ بلکہ عشاء پڑھنے کے بعد پھر وتر پڑھنے پڑیں گے۔ ہاں اگر بھول کر وتر عشاء سے پہلے پڑھ لئے۔ یا بعد کو معلوم ہوا کہ عشاء بغیر وضو کے پڑھی تھی اور وتر وضو کے ساتھ پڑھے تو وہ وضو کر کے عشاء کی نماز پڑھے۔ لیکن وتر جو پہلے پڑھ لئے ہیں وہ ادا ہو گئے اس کو دہرانا ضروری نہیں۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الاول،الفصل الاول فی اوقات الصلوٰۃ، ج۱،ص۵۱۔۵۳)