حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت

        حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے، اہل کوفہ نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور آپ نے وہاں چند ماہ چند روز قیام فرمایا، اس کے بعد آپ نے امر خلافت کا حضرت امیر معاویہ کو تفویض کرنا مسطور ذیل شرائط پر منظور فرمایا:
(1) بعد امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلافت حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہنچے گی
(2) اہل مدینہ اور اہل حجاز اور اہل عراق میں کسی شخص سے بھی زمانۂ حضرت امیر المومنین مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے متعلق کوئی مواخذہ ومطالبہ نہ کیا جاوے۔
(3) امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دیون کو ادا کریں۔ 
    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تمام شرائط قبول کیں اور باہم صلح ہوگئی اور حضور انور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معجزہ ظاہرہواجو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا کہ اللہ تعالیٰ میرے اس فرزند ارجمند کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تخت سلطنت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے خالی کردیا۔یہ وا قعہ ربیع الاول 41ھ؁ کا ہے۔
     حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب کو آپ کا خلافت سے دستبردار ہونا


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ناگوار ہوا اور انہوں نے طرح طرح کی تعریضیں کیں اور اشاروں کنایوں میں آپ پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ آپ نے انھیں سمجھا دیا کہ مجھے گوارا نہ ہوا کہ ملک کے لیے تمہیں قتل کراؤں۔ اس کے بعد اِمام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ سے رحلت فرمائی اور مدینہ طیبہ میں اقامت گزیں ہوئے۔ 
    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے حضرت اما م عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ ایک لاکھ سالانہ مقرر تھا۔ ایک سال وظیفہ پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور اس وجہ سے حضرت امام کو سخت تنگی درپیش ہوئی۔ آپ نے چاہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی شکایت لکھیں، لکھنے کا ارادہ کیا، دوات منگائی مگر پھر کچھ سو چ کر توقف کیا۔ خواب میں حضورپر نورسید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے استفسار حال فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اے میرے فرزند ارجمند! کیا حال ہے؟ عرض کیا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہ بخیرہوں اور وظیفہ کی تاخیر کی شکایت کی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے دوات منگائی تھی تاکہ تم اپنی مثل ایک مخلوق کے پاس اپنی تکلیف کی شکایت لکھو۔ عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم مجبور تھا کیا کرتا ۔ فرمایا یہ دعا پڑھو:
اَللّٰھُمّ اَقْذِفْ فِیْ قَلْبِیْ رِجَائَکَ وَاقْطَعْ رِجَآئِیْ عَمَّنْ سِوَاکَ حَتّٰی لَا اَرْجُوْ اَحَدًا غَیْرَکَ اَللّٰھُمَّ وَمَا ضَعُفَتْ عَنْہُ قُوَّتِیْ وَقَصُرَ عَنْہُ عَمَلِیْ وَلَمْ تَنْتَہِ اِلَیْہِ رَغْبَتِیْ وَلَمْ تَبْلُغْہُ مَسْئَلَتِیْ وَلَمْ یَجْرِ عَلٰی لِسَانِیْ مِمّا اَعْطَیْتَ اَحَدًا مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ منَ الْیَقِیْنِ فَخُصَّنِیْ بِہٖ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔
   ”یارب ! عزوجل میرے دل میں اپنی امید ڈال اور اپنے ماسوا سے میری امید قطع کریہاں تک کہ میں تیرے سوا کسی سے اپنی امید نہ رکھوں۔ یارب! عزوجل جس
سے میری قوت عاجز اور عمل قاصر ہو اور جہاں تک میری رغبت اور میرا سوال نہ پہنچے اور میری زبان پر جاری نہ ہو ، جو تونے اولین وآخرین میں سے کسی کو عطا فرمایا ہویقین سے یارب العالمین! عزوجل مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص فرما۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس دعا پرایک ہفتہ نہ گزرا کہ امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے پاس ایک لاکھ پچاس ہزار بھیج دئیے اور میں نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی اور اس کا شکر بجالایا۔ پھر خواب میں دولت دیدار سے بہرہ مند ہوا۔ سرکار نامدار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشا د فرمایا :اے حسن! رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا حال ہے۔ میں نے خدا عزوجل کا شکر کرکے واقعہ عرض کیا، فرمایا :اے فرزند !جو مخلوق سے امید نہ رکھے اور خالق عزوجل سے لو لگائے اس کے کام یوں ہی بنتے ہیں۔
1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے۔ (پ۳۰،الاخلاص:۱)
Exit mobile version