شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے چند مشہور تلامذہ

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
کے چند مشہور تلامذہ

بقلم: شاہ محمد فصیح الدین نظامی رضوی اشرفی

، مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ

شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ فاروقی ؒنے ساری زندگی درس و تدریس، تصنیف و تالیف کے علاوہ عبادت و ریاضت میں گزاری۔ حصول تعلیم کے بعد کوئی دیڑھ سال ملازمت کرکے ۱۲۸۷؁ھ میں استعفیٰ دے دیا جبکہ آپ کی عمر اس وقت ۲۳ سال تھی۔ ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد درس و تدریس ہی آپ کا مشغلہ رہا اور ۱۲۹۲ھ؁ میں مدرسہ نظامیہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ ۱۲۸۷؁ھ سے ۱۳۳۶؁ھ تک تقریباً ان پچاس سالوں میں آپ کے ہزاروں تلامذہ ہوئے۔ جن میں شاہان دکن سے لے کر علماء، صوفیاء، فقہاء، ادباء، شعراء، محدث، متکلم، مورخ، پروفیسر، سرکاری عہدیدار، اطباء، حکماء، قانون داں گویا ہر فن میں سینکڑوں تشنگان علم و فن آپ کے چشمہ علم و عرفان سے فیضیاب ہوئے اور دنیا کے مختلف خطوں میں یہ فیضان جاری رکھا اور تا ہنوز جاری و ساری ہے۔ 
فہرست تلامذہ بلحاظ ماہرین علوم وفنون ،عہدہ ومنصب
حکومت وریاست 
آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خان بہادر 
آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر 
تفسیر وتاویل
مولانا مفتی محمد رحیم الدین صاحب قادری ؒ
حضرت مولانا سید پادشاہ حسینی لئیقؒ
حضرت علامہ سید ابراہیم ادیب رضویؒ
حدیث واصول حدیث
حضرت مولانا سید عبداللہ شاہ صاحب نقشبندی ؒمحدث دکن 
حضرت مولانا ابوالوفاء سید محمود شاہ افغانی  ؒ
     (صدر مجلس احیاء المعارف النعمانیہ)
حضرت مولانا مفتی سید احمد علی صوفی قادری صاحبؒ
فقہ وافتاء
حضرت مولانا مفتی رکن الدین صاحب ؒ ،مفتی اول جامعہ نظامیہ 
مولانا مفتی سید محمود صاحبؒ کان اللہ لہ، مفتی میسرم
مولانا مفتی محمد رحیم الدین صاحبؒ، مفتی صدارت العالیہ 
حضرت مولاناحبیب اللہ المدیج حضرمی شافعیؒ
درس وتدریس 
مولانا سید محمد ابراہیم صاحبؒ استاذ نواب صلابت جاہ ونواب بسالت جاہ 
مولانا امیرالدین صاحبؒ پونیری مہتمم جامعہ نظامیہ 
مولانا سید شاہ محمد شطاری صاحبؒ شیح الادب جامعہ نظامیہ 
مولانا حکیم سید حیدر حسینی صاحبؒ مدرس مدرسہ طیبہ سرکارعالی
مولانا سید غوث الدین قادریؒ، سابق شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ 
مولوی عبدالرشید صاحبؒ ،مدرس مدرسہ وسطانیہ شاہ گنج
حضرت سید شاہ محمد حسینی القادریؒ بانی اسلامیہ کالج ورنگل
تنظیم وتشکیل 
مولوی میر عبداللطیف صاحب، مہتمم اعراس 
محمد عبدالکریم خان صاحب سابق، منتظم درگاہ حضرت خواجہ اجمیری ؒ
مولوی سید یوسف حسینی صاحب ‘معتمد دائرۃالمعارف
مولوی احمد عبدالعلی صاحب‘ سابق مہتمم مدرسہ نظامیہ 
مولانا خواجہ مخدوم میاں صاحب
مولانا سید احمد صاحب قادری 
مولانا عبدالصمد شاہنوری صاحب
مولانا غلام احمد صاحب سابق مددگار ناظم نظم جمیعت
مولوی غلام احمد صاحب سابق صوبہ دار ،ورنگل 
مولانا مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب‘ ناظم محلات مبارک 
مولانا عبدالجبار خان صاحب آصفی‘ منتظم دفتر معتمدی صرف خاص مبارک
مولوی حافظ غلام حسین صاحب سابق ناظم پائیگاہ سروقار الامراء 
مولوی محمد اکرم علی صاحب، تحصیلدارپر گی
قانون ووکالت
مولانا محمد عبدالرحیم صاحبؒ ،وکیل، مختار عام پالونچہ
مولانا حسن علی صاحبؒ  طلسمی ،وکیل درجہ اولی
مولانا میر عبدالقدیر صاحبؒ وکیل 
طب وحکمت
مولانا حکیم محمود صمدانیؒ سابق مہتمم صدر شفاخانہ نظامیہ
مولانا حکیم عبدالقادر صاحبؒ ،مہتمم شفاخانہ یونانی سرکارعالی
وعظ وخطابت
حضرت مفتی سید محمود صاحبؒ ،خطیب تاریخی مکہ مسجدحیدرآباد
مولانا مفتی محمد رکن الدین صاحبؒ قادری
حضرت مولانا سیدپاشاہ حسینی صاحبؒ لئیقؔ 
حضرت مولانا الحاج حافظ سید محمد حسین نقشبندی قادریؒ
شعر وادب 
مولانا محمد مظفر الدین معلیؔ  ؒ
مولوی اکرم الدین صدیقی ؒوالدپروفیسر اکبر الدین صدیقی ؒ مصنف مشاہیر قندہار)
مولانا سیدغلام قادرزعمؔ صاحب (والدڈاکٹر زورؔ )
حضرت مولانا اسماعیل شریف ازلؔؒ (گلبرگہ شریف)
حضرت نذرمحمد خان نقشبندیؒ (گلبرگہ شریف)
تصنیف وتالیف
حضرت علامہ سید ابراہیم ادیب رضوی نجفیؒ
حضرت مولانا سید عبداللہ شاہ صاحبؒ  نقشبندی مجددی
مولانا مفتی محمد رکن الدین صاحبؒ قادری
مولانا حکیم محمود صمدانی صاحبؒ
حضرت مولانا مفتی سید احمد علی قادری صوفی صاحبؒ
مولانا محمد عبدالجبار خاں آصفیؒ
مولانا شاہ ابوالخیر کنج نشین جنیدی ؒ(مورخ نظامیہ)
تحقیق وتصحیح 
مولانا قاضی محمد شریف الدین صاحبؒ ،ناظم دائرۃ المعارف
مولانا حافظ محمد ولی الدین صاحب ؒ ، مہتمم مجلس اشاعت العلوم 
مولانا ابوالوفاء الافغانی ؒ،صدر مجلس احیاء المعارف النعمانیہ 
رشد وہدایت 
مولانامفتی محمد رحیم الدین صاحبؒ خلیفہ 
مولانا مفتی سید محمود صاحب ؒخلیفہ
مولانا سید غلام قادر زعمؔ صاحب ؒخلیفہ 
مولانا مفتی رکن الدین صاحبؒ خلیفہ
مولانا سید شاہ برہان اللہ حسینی صاحبؒقندہار
مولانا سیدشاہ اسمعیل عرف ذبیح اللہ شاہ صاحبؒ 
مولانا صلاح الدین ابن شمیر القیعطیؒ
حضرت سیدشاہ حسین محمد محمدالحسینیؒ خیرؔ 
   (سجادہ نشین درگاہ حضرت خواجہ بندہ نواز گلبرگہ)
حضرت شیخ تاج الدین جنیدیؒ سجادہ نشین روضہ گلبرگہ
حضرت لاڈلے حسینی صاحبؒ ،سجادہ نشین روضہ خوردگلبرگہ 
مولانا نذر محمد خان نقشبندیؒ گلبرگہ
خلفاء حضرت شیخ الاسلام 
حضرت مولانا مفتی محمد رکن الدین صاحب ؒ
حضرت مولانامفتی محمد رحیم الدین صاحب قادریؒ
حضرت مفتی سید محمود قادری کانہ اللہ لہ خطیب مکہ مسجد 
حضرت سید غلام قادر ؒزعم ؔوالد ڈاکٹر زروؔ
چند تلامذہ کے مختصر حالات تحریر کئے جاتے ہیں۔ 
آصف سادس نواب میر محبوب علی خان
افضل الدولہ آصف جاہ خامس کا جس وقت انتقال ہوا اس وقت نواب میر محبوب علی خان کی عمر ِبمشکل دو سال سات ماہ آٹھ دن تھی انہیں ۳۱ ذیقعدہ ۱۲۸۵ھ مطابق ۸؍فبروری ۱۸۶۸ء بروز یکشنبہ جانشین تسلیم کر کے مسند آصفی پر بٹھایا گیا۔
نواب میر محبوب علی خان ۵؍ربیع الثانی ۱۲۸۳ھ مطابق ۱۷؍ اگست ۱۸۶۶ء بروز جمعہ پیدا ہوئے ان کی والدہ ماجدہ کا نام شہزادی وحید النساء بیگم تھا۔ افضل الدولہ کے انتقال کے بعد برطانوی ریزیڈنٹ مقیم حیدرآباد کی سفارش اور برطانوی وائسرائے ہند لارڈ رپن کی منظوری پر ننھے شہزادے کو ریاست حیدرآباد کا حکمران تسلیم کر کے مسند نشینی کی رسم انجام دی گئی اور امور سلطنت کی دیکھ بھال اور انجام دہی کے لئے سالار جنگ کی سربراہی میں ایک کونسل آف ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں دیگر امراء عظام کے علاوہ امیر کبیر شمس الامراء بھی بحیثیت ایک رکن شامل تھے شہزادے کی رسم تاج پوشی منجھلی بیگم کی حویلی واقع شاہ علی بنڈہ روڈ میں منعقد ہوئی۔ مسند نشینی کے وقت ڈھائی سالہ شہزادہ اپنی ’’گورنرس‘‘ (آیا) کی گود میں شاہانہ دستار‘ روایتی طرہ لگائے سفید پاجامے میں ملبوس گدی پر رونق افروز تھے جب کہ ریاست کے سارے امراء وزراء سلطنت‘ اعلی عہدہ دار ‘ اراکین خاندان بشمول بشیر الدولہ مکرم الدولہ ‘ شمشیر جنگ‘ شہاب جنگ وغیرہ وغیرہ حسب مراتب بگلوس‘ شیروانی ٹوپی اور دستار میں دست بستہ نظر جھکائے شاہ نشین کے آگے کھڑے تھے۔ انگریز ریزیڈنٹ مسٹر سانڈرسن نے وائسرائے ہند کی طرف سے جاری کردہ توثیق نامہ پیش کرتے ہوئے خدمتِ شاہانہ میں نذرانہ گذارنے کے رسم انجام دی‘ اس کے بعد امرائے سلطنت نے حسب رواج قدیم‘ حسب مراتب خدمتِ شاہانہ میں سلامی اور نذرانے پیش کر کے جانشین آصفیہ سے اپنی والہانہ محبت و وفاداری کا اظہار کیا۔ دوسرے دن شاہی دربار کا رسمی انعقاد عمل میں آیا۔ ریاست کے تمام امور سالار جنگ کے مشورہ اور حکم ہی سے انجام پاتے تھے۔ برطانوی حکومت کی جانب سے جو تقریبات یا کسی معاملات پر مذاکرات ہوتے تو سالار جنگ ہی آصف جاہ سادس کی نمائندگی کرتے تھے۔
۱۸۵۷ء میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے موقعہ پر افضل الدولہ نے انگریزوں کی جو طرف داری کی تھی جس کے نتیجہ میں اس پہلی تحریک آزادی کو ناکامی اور انگریز سامراج کو سرخروئی حاصل ہوئی تھی اور انگریزوں نے اس کار گذاری اور وفاداری کے صلے میں علاقہ جات ہائے شولاپور اور رائچور آصفی سلطنت کو نہ صرف واپس کردیئے تھے بلکہ تقریبا پچاس لاکھ روپے کا وصول طلب قرض بھی معاف کردیا تھا اور افضل الدولہ کے گذرجانے کے بعد بھی سالار جنگ اول نے اس سلسلہ میں اپنی کوششیں جاری رکھیں اور بدلے میں اسی لاکھ پونڈ تک ادا کرنے کا پیش کش کیا مگر وائسرائے نے اس کو بھی قبول نہیں کیا تو سالار جنگ ۱۸۷۵ء میں ایک بااختیار وفد لے کر لندن پہنچے۔ ان کے غیاب میں عنان حکومت شمس الامراء کے ہاتھ میں رہی۔ سالارجنگ اور ان کے ہمراہ گئے اراکین وفد کی جس میں مکرم الدولہ بھی شامل تھے۔ لندن میں بڑی قدر و منزلت سے ان کی پذیرائی ہوئی۔ شاہانہ استقبالیہ دیا گیا‘ اعلی سطح پر گفتگو ہوئی لیکن کوئی نتیجہ خیز بات سامنے نہیں آئی۔انگریز صوبہ برار سے دستبردار ہونے راضی نہیں ہوئے لامحالہ سالارجنگ کو ناکام ہی وطن لوٹ آنا پڑا۔ ۱۸۸۳ء میں سالارجنگ کا انتقال ہوگیا۔
۱۰؍شعبان ۱۲۸۷ھ مطابق ۴؍نومبر ۱۸۷۰ء میں ننھے حکمراں کی تسمیہ خوانی کی تقریب منعقد ہوئی۔ ۷؍ جمادی الثانی ۱۲۸۸ھ میں تعلیم و تربیت کے لئے مولوی محمد زماں خان شاہ جہاں پوریؒ کو استاد مقرر کیا گیا۔ مشہور خوشنویس مولوی مظہر الدین نے خوشنویسی سکھائی۔ حافظ حاجی محمد انوار اللہ صاحب (بانی جامعہ)محبوب نواز جنگ اور دولت یارجنگ کو لائق علی خان سالار جنگ ثانی نے شاہانہ تربیت کے لئے مقرر کیا۔ غرض بہتر معلم اور استادوں کے علاوہ ماہرنظم ونسق حضرات بادشاہ کی تربیت اور رہنمائی کے لئے مقرر ہوئے۔ انگریزی پڑھانے کے لئے جان کلارک کو نامزد کیا گیا۔ ۲۲؍رمضان ۱۲۹۲ھ کو قرآن شریف کی تکمیل ہوئی۔ ۶؍ربیع الثانی ۱۲۹۱ھ کو سالگرہ کا پہلا جشن دربار منعقد کیا گیا اور امراء عظام اور دیگر نوابوں اور جاگیرداروں کو خطابت اور انعامات سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ۱۸۸۳ء میں سالارجنگ اول مختار الملک کے انتقال کے بعد ان کی سربراہی میں قائم کونسل آف ایجنسی کی ہیئت ترکیبی میں تبدیلی لائی گئی اور آصف جاہ سادس (بادشاہ وقت) کو اس کا سربراہ بنایا گیا اور سالارجنگ دوم کو وزارتِ عظمی کی ذمہ داری سونپی گئی جب کہ اراکین کونسل میں سرآسمان جاہ بہادر‘ سرخورشید جاہ بہادر‘ مہاراج نریندر پرشاد بہادر وغیرہ شامل تھے۔
۲۱؍ذیقعدہ ۱۲۹۳ھ کو آپ معہ سالارجنگ مدار المہام اور دیگر عمائدین سلطنت کے ہمراہ دہلی روانہ ہوئے وہاں دربار برطانوی میں شرکت فرمائی۔ 
نواب میر محبوب علی خاں عیدین اور تہواروں کے موقعوں پر اعلی عہدہ داروں‘ رشتہ داروں اور وفاداروں کو خطابات اور انعامات سے سرفراز فرمایا کرتے تھے چنانچہ ایک عید کے موقع پر آصف یاور الدولہ کو آصف یاور الملک‘سعید الدولہ کو سعید الملک‘ نظام یار جنگ کو حسام الملک خانخانان‘ اعتماد جنگ صمصام الدولہ کو صمصام الملک‘ مشیر الملک کو فخر الملک کے خطابات اور شاہانہ مراتب عطا فرمائے۔
۱۸؍محرم ۱۲۹۴ھ میں آفتاب محل (چومحلہ) میں انگریزی دربار کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ریزیڈنٹ مقیم حیدرآباد مسٹر سنڈرسن نے حکومت برطانیہ کی جانب سے وائسرائے ہند کی وساطت سے روانہ کردہ ایک خصوصی ’’تمغہ اعزاز‘‘ ’اسٹار آف انڈیا‘ پیش کیا اور جی سی ایس آئی کا خطاب اور جواہرات تحفہ میں دیئے۔ ۲۱؍ذیقعدہ ۱۲۹۹ھ کو نواب افسر الملک بہادر سے آصف جاہ سادس نے گھوڑے کی سواری 
سیکھناشروع کیا۔ ۲۵؍صفر ۱۳۰۰ھ کو آپ معہ نواب سالار جنگ اعظم مدار المہام وغیرہ اورنگ آباد تشریف لے گئے تھے۔ ۱۶؍صفر؍ ۱۳۰۱ھ کو آپ وائسرائے ہند گورنر جنرل لارڈرپن سے ملاقات کے لئے کلکتہ عازم سفر ہوئے۔ جہاں انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیتوں میں سے وقت نکال کر نمائش بھی دیکھی۔
کلکتہ سے واپس آنے کے بعد آصفجاہ سادس نے کونسل آف ایجنسی تحلیل کر کے عنان حکومت خود سنبھال لی۔ ۷؍ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ میں سالار جنگ دوم میر لائق علی خان کو منیر الملک کا خطاب دے کر سلطنت آصفیہ کا وزیر اعظم مقرر کیا۔ پھر تین برس بعد جب وہ اس عہدہ جلیلہ سے سبکدوش ہوئے تو ان کی جگہ اقبال الدولہ وقار الامراء کو اپنا وزیر اعظم نامزد کیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ بھی اس گراں بہا ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے توآصف جاہ سادس نے مہاراجہ کشن پرشاد کو مدارالمہامی پر مامور فرمایا۔ ۴؍ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ کو گورنر جنرل لارڈرپن جواباً حیدرآباد آئے اور آصفجاہ سادس کے سولہویں جشن مسند نشینی میں شرکت کی۔ اس جشن مسند نشینی کے سلسلہ میں مسلسل تین یوم تک مغل انداز میں دربار شاہانہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ سارے شہر کو روشنیوں سے منور کردیا گیا تھا۔ ہر عام و خاص رعایا کے گھر گویا ایک عید اور تہوار کا سماں بندھا ہوا تھا۔
ماہ جمادی الثانی؍ ۱۳۰۳ھ کو میر عثمان علی خان بہادر ولی عہد سلطنت آصفیہ تولد ہوئے ان کی پیدائش کی خوشی میں سرکاری وغیر سرکاری دفاتر‘ کارخانوں‘ دکانوں اور کاروباری اداروں کو ایک یوم کی تعطیل عام کا اعلان کیا گیا ۔ ۱۵؍شعبان ۱۳۱۷ھ کو آصفجاہ سادس اپنے ولی عہد بہادر میر عثمان علی خان کے ہمراہ وائسرائے ہند لارڈ کرزن سے بغرض ملاقات کلکتہ تشریف لے گئے اس کے تین برس بعد ۱۹؍ رمضان ۱۳۲۰ھ میں ولیعہد بہادر‘ مدیر المہام اور دیگر امرائے سلطنت کے ہمراہ دہلی میں منعقدہ برطانوی ملک معظم جارج پنجم کے دربار جشن تا جپوشی میں شرکت کے لئے دہلی گئے وہاںاس دربار کے جلوس میں وائسرائے ہند کے ساتھ شرکت فرمائی۔ برطانوی شہنشاہ کے جشن تاجپوشی کے موقع پر آصف جاہ سادس کو جی سی بی کا خطاب حکومت برطانیہ کی طرف سے بطور خاص پیش کیا گیا۔
ریاست حیدرآباد لسانی طور پر تین علاقوں پر مشتمل تھی مرہٹی زبان بولنے والوں کا علاقہ مرہٹواڑہ، کنٹری کہنے والوں کا علاقہ کرناٹک اور تلگو علاقہ تلنگانہ‘ اس طرح ریاست حیدرآباد تلنگانہ‘مرہٹواڑہ اور کرناٹک کے علاقوں پر مشتمل تھی لیکن کبھی بھی علاقہ یا زبان کے نام و اساس پر لوگوں میں کوئی بھید بھاؤ تھا نہ حکومت کسی کے ساتھ امتیاز برتتی تھی۔ یہ سب نعمتیں تو آزادی کے بعد کی دین ہے آج ہم مذہب زبان اور علاقہ کے نام پر ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔
ماہ جمادی الاول ۱۳۲۹ھ میں آصف جاہ سادس اپنے اہل عیال اور دیگر رشتہ داروں اور اقارب کے ہمراہ حضرت بابا شرف الدینؒ کی درگاہ شریف (پہاڑی شریف)زیارت وقیام کے لئے تشریف لے گئے تھے واپسی میں فلک نما پیالیس میں قیام پذیر ہوئے۔
۴؍ رمضان ۱۳۲۹ھ روز دو شنبہ دن کے ساڑھے گیارہ بجے دولت آصفیہ کا غریب پرور‘ خدا رسیدہ اور رعایا پرور بادشاہ جو بہ ظاہر (چھٹا‘ سادس) کہلاتا تھا اس دارفانی سے رخصت ہوگیا۔
حسب روایت قدیم انکے انتقال کی خبر کو انتہائی راز میں رکھا گیا۔ شہر پناہ کے دروازے بند اور محلات پر سخت پہرے لگادئے گئے اور دیگر تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد میت کو خاموشی سے بذریعہ کار خلوت مبارک منتقل کردیا گیاتھا جہاں سے رات کے گیارہ بجے پچھلے مخصوص دروازے سے میت مکہ مسجد کے شاہی قبور کے احاطہ میںلائی گئی اور اپنے والد کے پہلو میں دفن کردیاگیا۔ اُس وقت ان کی عمر ۴۵ برس چار ماہ ۲۸ دن تھی اور انھوں نے ریاست حیدرآباد پر ۴۳ برس ۹ ماہ ۲۲ دن حکمرانی کی۔ آصفجاہ سادس کے اچانک اس طرح رحلت کرنے پر لوگوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے سات روز تک  دفاتر اور مدارس بند رکھے گئے۔
آصفجاہ سادس کے سانحہ ارتحال کے بعد  ۲۰؍اگست ۱۹۱۱ ء میر عثمان علی خاں سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ آصفجاہ سادس کو جملہ سات صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں تھیں(۱)۔
آصف سابع نواب میر عثمان علی خان
آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان 1303ھ م 1886ء کو پرانی حوالی حویلی حیدرآباد میں پیدا ہوئے 27برس کی عمر میں مسند نشین ہوئے۔ سادہ سید ھابو ٹا قد، چھریرہ بدن، گورا رنگ، معمولی سی شیروانی زیب تن کئے رومی ٹوپی اوڑھے معمولی لوگوں کی طرح زندگی بسر ہوئی۔ مگر کہیں جلال تھا تو آواز میں تھا، گرجدار ایسی کہ ایوان کانپ اٹھے! اور اگر رعب کہیں تھا تو آواز میں تھا،چمکدار ایسی کہ کوئی تاب نہ لاسکے۔ وہ شخص ایسا تھا خود تو بہت معمولی غذا کھاتا تھا لیکن خوان تھے کہ مزے دار کھانوں سے بھرے دوسروں کے لئے ہوتے تھے۔ خود تو معمولی لباس زیب تن کرتا مگر اوروں کے لئے زرق برق کے لباس مہیا تھے۔ وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ نہ خرچتا مگر خزانہ کا منہ رعایاکے لئے کھلاتھا۔ دواخانوں کی عمارتیں ان ہی کے زمانے میں بنیں، عدالت العالیہ کا سنگِ بنیاد انہوں نے ہی  رکھا۔ کتب خانہ آصفیہ کی کتابوں کو انہوں نے ہی جمع کیا ۔ اور تعلیم کو اس طرح عام کیا کہ رعایا نے ان کے تبحر علمی اور علمی خدمات کے پیش نظر سلطان العلوم کی سند عطا کی۔ جامعہ عثمانیہ کی بستہ عمارت تیار ہوئی تو خوشی خوشی مادر علمیہ کے افتتاح کے لئے پہنچے۔ اس جامعہ میں اس وقت کے مطلق العنان بادشاہ کے عہد میں، اردو کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ انہوں نے کبھی کہاتھا۔
’’میری نظر میں نہ کوئی قوم بلند وپست ہے اور نہ کوئی اچھوت ہے جب تک وہ نیک کردار کی حامل ہے۔ بلکہ میں سب کو بحیثیت بنی نوع ایک طرح سے برابر سمجھتا ہوں!‘‘
وہ تاریخی جملے جو کسی بھی عالمی دستور اور نظام حیات کا روشن اصول اقرار دیئے جاسکتے ہیں۔ وہ جملے کیا ہیں؟ ملاحظہ ہوں!
’’بحیثیت رئیس میں ایک دوسرا مذہب بھی رکھتا ہوں جس کوصلح کل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ کیونکہ میرے زیر سایہ مختلف مذاہب وفرقہ کے لوگ بستے ہیں اور ان کے معابد کی نگہداشت میرے آئین سلطنت کا ایک زمانہ سے وطیرہ رہا ہے۔‘‘ جو کہا گیا وہ کرکے دکھا یاگیا۔ یہ صرف کاغذ کے پھول نہیں تھے کہ دیکھنے میں خوبصورت تو ہیں لیکن خوشبو کانام و نشان نہیں۔ سلاطین حیدرآباد کی اس مثالی رواداری اور شاہ عثمان کی دلداری اور وضعداری نے مہاراجہ کشن پر شاد سے کہلوایاتھا۔
’’جب سے اس مشرق الانوار خسرو دکن نے اپنی حکومت کی بسم اللہ کی اور اس میں جشنِ شاہانہ کی رسم ادا ہوئی دکن کے نصیب جاگے۔ بہار سلطنت نے پھول برسائے اور چرخ نیلی نے تارے اُتارے۔ ظل اللہ کا اقبال چتر بنکر سایہ فگن ہوا۔ عزت واجلال کے جلوس ترقی کی رفتار نے برق خرامی کی۔ بخت آصف کا شہباز ہوائے ملک رانی میں پرواز ہوا۔ زمامِ سلطنت کواپنے ہاتھ میں لیکر ثابت کردیا کہ   ؎
 بالائے سرش ز ہو شمندی 
می تافت ستارئہ بلندی 
اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع نے بلاشبہ اپنی ناموری کیلئے ’’فیض‘‘ کے بے شمار ’’اسباب‘‘ بنائے ، پل وتالاب بنائے، علمی درس گاہیں کھولیں، کتب خانے، قائم ہوئے اور دواخانے وسرائیں بنے اور اس طرح ایک رعایا پر ور حاکم ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے اپنی ذاتی اور خلّا قانہ صلاحیتوں کاشعر گو ئی اور نثر نگاری کے ذریعہ ثبوت بھی دیا۔ وہ خود بھی بڑے شاعر تھے اور عثمانؔ تخلص فرماتے تھے۔ و ہ سلطان العلوم تو تھے ہی اپنی شاعرانہ خوبیوں کی وجہ سے ’’خسرو شریں سخن‘‘ بھی کہلائے۔بقول مہاراجہ شاد ؔ ؎ 
یہ اگر آئینہ صورت ِجاناں ہوتا 
لاکھ میں ایک ہمارا دل حیران ہوتا
’’اعلی حضرت نے پہلے ہی ناسخؔ کی غزل سے ابتداء کی‘‘۔ وہ بلا شبہ استاد جلیل کے شاگرد تھے مگر شعر اپنے رنگ میں کہتے تھے اور خوب کہتے تھے  ؎
سامنے تیرے ہیں سب فضلِ و بستان جنوں
قیس ہو، دامق ہو یافرہاد، عثماںؔ کوئی ہو
حضرت عثمانؔجذبات نگاری میں حد درجہ کمال رکھتے ہیں۔ ان کے دیوان میں ایسے بیسیوں اشعار ملیں گے جن سے ان کی وارفتگی کا پتہ چلتا ہے مثلا مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں   ؎
حضرت زاہد میرا ہے یہ طریق بندگی 
نقش پائے یار جس جگہ سر رکھدیا
حضرت عثمانؔ کے یہاں حسن اور عشق کا تصوّر صاف و شفاف ہے۔ ان کی شاعری میں یقینا ٰوارفتگی بھی اور ایک طرح کا والہانہ پن ہے لیکن یہ انداز بیان اہل لکھنو سے مختلف اور اہلِ دہلی سے قریب کرتا ہے۔ شعرائے لکھنو کے یہاں جو عریانی اور جذبات کو برانگیختہ کرنے والا خارجی انداز ہے وہ ان کے یہاں ہمیں نہیں ملتا۔ اصل میںاسکی وجہ یہی ہے کہ سلسلہ آصفیہ کے شعراء نے ذہنی اور قلبی طور پر خود کو دہلی سے قریب تر رکھاہے۔ حضرت عثمانؔ کی شاعری بھی اس روایت کا تسلسل ہے۔ حالانکہ انہوں نے ابتداًء رنگ ناسخؔ کو اپنے لئے منتخب فرمایا تھا ان کے یہاں داخلی رجحان اس وجہ سے ممکن ہوا کہ حضرتِ عثمانؔ اپنے اسلاف کے شعری مزاج سے کما حقہ آگاہی رکھتے تھے۔
حضرت عثمانؔ کو حکومت کی طرح شاعری بھی ورثہ میں ملی تھی۔ وہ بیک وقت اقلیمِ دکن کے بھی اور اقلیمِ سخن کے تاجدارتھے۔ بانیٔ سلطنت حضرت آصف جاہ اردواور فارسی کے پر گو شاعر تھے۔ جبکہ حضرت عثمانؔ کے والد بزگوار اور عوام کے محبوب پاشا دہلوی رنگ میں شعر کہتے تھے۔ 
سچ تو یہ ہے کہ حضرت عثمانؔ اپنے مزاج کے منفرد آدمی تھے اسی لئے ان کے شعر بھی انفرادی انداز لئے ہوئے ہیں۔
حضرت عثمانؔ کی نثر بھی ان کے شعر ہی کی طرح بے تکلّف رواں اور مزہ دے جانے والی ہوتی تھی۔ نذری باغ سے جو ارشادات فرمایاکے ساتھ جاری ہوتے تھے وہ اپنے میںبڑی انفرادیت اور تحکّمانہ انداز رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسا طرز نگارش اختیار کیا تھا جو ان ہی کا ایجاد کردہ تھا اور جو ان کی ذات شاہانہ کے ساتھ ختم بھی ہوگیا۔ گو یا اپنی طرزِ نگارش کے وہی موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ اصل میں سلطان العلوم آصف جاہ سابع کی نثر ان کی ذات ہی کی طرح سادہ مگر پرکار تھی۔ او ران کی انفرادیت جھلکتی تھی۔ حضرت آصف جاہ سابع کے کارناموں کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا ان کے کارنامے روشن تو ہوتے جائیں گے  ؎ 
 شمعِ حریمِ عشق ہوں میں سوختہ جگر
عثماںؔ بجھا سکے گی نہ بادِ سحر مجھے
سقوط حیدرآباد 1948ء کے بعد وہ بادشاہ سے راج پر مکھ بنے اور تنظیم جدید 1956ء کے بعد ان کی دنیا ’’نذری باغ‘‘ میں سمٹ گئی۔1967ء میں جب ان کا انتقال ہو اتو ان کا جنازہ اس دھوم سے اٹھا کہ دنیا انگشت بدنداںرہ گئی۔ انکے انتقال کی خبر جیسے ہی ’’بلدہ‘‘ اور ’’اطراف بلدہ‘‘ پھیلی تو اس مردِ قلندر کا آخری دیدار کرنے والوں میں ایک میں بھی شامل تھا  ؎
پھر صدمۂ فراق کا دل پر اثر ہوا
پھر آفتابِ داغ جگر جلوہ گر ہوا
جلوس جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں تھی جب مسجد جودی میں سپردلحد کیاگیا تو ’’شاہِ عثمان‘‘ کی ’’دونوں آنکھیں‘‘ بے اختیار رورہی تھیں۔ آنسوؤں کا سیلاب تھا کہ رواں تھا، تھمتا ہی نہ تھا   ؎
گل وریحاں وسنبل جب خزاں میں ہوگئے رخصت
مگر بلبل کے لب پر رہ گئی آہ وفغاں باقی
حضرت عثمانؔ کا خاتمہ یقینا بالخیر یقینا وقتِ قضا نامِ احمدؐ لب پر رہا ہوگا  ؎
خاتمہ بالخیر ہو عثمانؔ کا یا رب غفور
نامِ احمدؐ لب پہ ہو جب ہو قضا کاسامنا
یہ ایک عاشقِ صادق کے عشق کی انتہاء ہے(۲)۔
حضرت علامہ مفتی محمد رکن الدین ؒ
حضرت مفتی محمد رکن الدین بن محمد قاسم نے حیدرآباد کے ایک معزز علمی گھرانے میں آنکھ کھولی اور اپنے قابل والدین کے زیر سایہ پرورش پائی۔ ابتدائی تعلیم کا مرحلہ شفیق والد اور مادر مہربان کے زیر نگرانی طے ہوا۔ بعد ناظرہ خوانی ، اردو نوشت و خواند جامعہ نظامیہ میںشریک ہوئے اور مشہور زمانہ ’’ درس نظامی‘‘ کی تکمیل یہیں سے کی حضرت شیخ الاسلام کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ علوم اسلامی میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ آپ میں عبارت فہمی بدرجہ اتم موجود تھی ۔1321ھ مطابق 10؍مارچ 1904ء میں سند فضیلت حاصل فرمائی۔ اسی سال ایک واقعہ پیش آیا جس شب مولانا مفتی محمد رکن الدین صاحبؒ نے سند فضیلت حاصل کی اسی شب اپنے وقت کے بزرگ حضرت شرف الدین احمد رودولویؒ نے خواب دیکھاکہ حضرت سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم برآمد ہیں اور سندیں جو اس جلسہ میں فاضلین کو دی گئیں اپنی دستخط خاص سے مزین فرمانے کیلئے طلب فرما رہے ہیں چنانچہ منتظم صاحب 8 سندیں لے کر حاضر خدمت ہوئے۔
اس واقعہ کو حضرت فضیلت جنگؒنے بھی اپنی تصنیف لطیف ’’مقاصد الاسلام‘‘ حصہ چہارم صفحہ 8 پر تحریر فرمایا ہے۔
حضرت فضیلت جنگ نے پہلے آپ کو مدرس مقرر فرمایا۔ 1328 ھ میں جب دارالافتاء باضابطہ قائم کیا گیا تو یہ فخر بھی آپ کو حاصل ہوا کہ جامعہ کے سب سے پہلے مفتی کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور گراں بہا ذمہ داری بھی آپ کو سونپی گئی یعنی آپ ناظم تعلیمات بھی مقرر ہوئے۔ دور نظامت میں آپ نے جامعہ کی علمی ترقی اور طلباء میں علمی استعداد بڑھانے کی حتی المقدور کوشش فرمائی آپ ایک کامیاب مدرس، مفتی وناظم مدرسہ ثابت ہوئے اورآپ کی کوششوں کا شجر ثمر آور ہوا۔
کسی اہل دولت یا صاحب حکومت کا رعب آپ کے دل پر مسلط نہیں ہوتا تھا ، یہی وجہ تھی کہ حضرت فضیلت جنگ نے آپ کو والیٔ دکن کے شہزادگان نواب معظم جاہ بہادر و اعظم جاہ بہادر کی تعلیم و تربیت کیلئے مقرر فرمایا تھا۔ جامعہ نظامیہ کی ایک کارروائی کے سلسلہ میں اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر آصف سابع کے فرمان جمادی الاولی 1340ھ کا یہ حصہ قابل غور ہے کہ 
’’اس سے بڑھ کر ان (مولانا مفتی محمد رکن الدین) کے کیارکٹر کی صداقت کیا ہوسکتی ہے کہ وہ سرِدست صاحب زادوں کی مدرسی پر مقرر ہیں ورنہ وہ اس خدمت کے اہل نہ سمجھے جاتے۔‘‘ (۳)
آپ کے فتاویٰ مدلل مستند و معتبر ہوتے جو بڑی عرق ریزی و تحقیق و تفحص کے بعد جاری کئے جاتے ہیں۔ جس کو فروغ اردو کیلئے قائم کئے گئے ادارے مجلس اشاعۃ العلوم نے ’’فتاوی نظامیہ‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں شائع کیا ہے۔ مولانا مفتی محمد عظیم الدین (سابق صدر مصحح دائرۃ المعارف العثمانیہ) کی زیر نگرانی اور مولانا ابوبکر محمد الہاشمی (صدر مجلس احیاء المعارف النعمانیہ) مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ نظامیہ کی خصوصی توجہ سے 1998ء میں ایک جلد میں شائع ہوئے۔ دوسری تصنیف آپ کے استاذ حضرت فضیلت جنگ کے چشم دید حالات و سوانح پر مشتمل ’’مطلع الانوار‘‘ بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ کے مشہور تلامذہ میں اعظم جاہ بہادر، معظم جاہ بہادر، مولانا سید محمود ابو الوفا الافغانیؒ، مفتی سید محمود کان اللہ لہؒ (خطیب مکہ مسجد)، مولانا مفتی محمد رحیم الدینؒ (مفتی صدارت العالیہ)، مولانا محمد اکبر علیؒ (ایڈیٹر روزنامہ صحیفہ) ، مولانا حکیم محمد حسین صاحبؒ (شیخ الحدیث) ، مولانا مفتی حبیب عبداللہ المدیحج  ؒ، مولانا شیخ صالح بن سالم با حطابؒ شامل ہیں۔
حضرت علامہ سید ابراہیم ادیبؔ رضویؒ
آپ حضرت سید عباس رضوی کے فرزند اول ہیں۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے جو سید ابراہیم رضوی بن سید عباس بن سید ابراہیم بن سید حیدر بن سید عباس بن سید عبدالقادر المعروف بہ قادر پاشاہ بن سید محمد بن سید ابو الحسن نجفی (نزیل حیدرآباد) سے سید امام رضا علیہ السلام پر منتہی ہوتا ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت 1295ھ میں بمقام موضع میسرم تعلقہ ابراہیم پٹنم (حیدرآباد دکن ) ہوئی۔ 
ابتدائی تعلیم والد کے پاس آبائی مقام میسرم ہوئی۔ آپ کے والد بھی صاحب علم و فضل اور مدرسہ نظم جمعیت میں استاد تھے۔ ولادت سے تین سال قبل 1292ھ میں جامعہ نظامیہ کی شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ شاہ صاحب فضیلت جنگ کے ہاتھوں تاسیس ہوچکی تھی۔ والدین نے حصول علم میں اس ہونہار کے ذوق و شوق کو دیکھ کر جنوبی ہند کی عظیم درس گاہ میں داخل کرادیا۔ اس وقت نظامیہ ملک کے جید علما ء کا مرکز تھا۔ اس کے علاوہ شاہانہ سرپرستی کی وجہ سے ہند وبیرون ہند سے علم و فن کی عظیم شخصیتیں حیدرآباد کھنچی چلی آئی تھیں۔
آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد الکریم افغانی، شیخ محمد یعقوب، مولانا مفتی محمد رکن الدین، مولانا عبد الرحمن سہارنپوری اور علامہ آغا شوستری جیسی نامور، شخصیتیں شامل ہیں۔ 
مولانا عبد الرحمن سہارنپوری محدثؒ سے 1321ھ میں صحاح ستہ کی سندلی ۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 26 سال تھی۔
عربی ادب میں آغا شوستری کے شاگرد تھے، جن کا قیام کوہ مولا علی میں تھا۔ استاد کو ایسے جوہر قابل کے استاد ہونے پر فخر تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ ’’لیت لی ولدامثلہ ‘‘ استاد کے یہ الفاظ رسمی سند سے کہیں گراں قدر ہیں۔ حصول علم کے ذوق میں آپ اپنے مقام میسرم سے استاد کی جائے قیام کوہ مولا علی تک کا طویل فاصلہ پیدل طے کرتے تھے۔
جامعہ عثمانیہ میں شعبہ عربی کے اساتذہ کے تقرر کیلئے انٹرویو مقرر کیا گیا تھا، اس انٹرویو کے صدر پروفیسر المالطیفی تھے جو 8زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جب مولانا کی باری آئی تو پروفیسر نے ان سے کہا کہ میز پر رکھے ہوئے اردو اخبار کا عربی میں ترجمہ کیجئے۔ اس پر مولانا نے دریافت کیا کہ ترجمہ نثر میں کیا جائے یا نظم میں؟ اور پھر مختصر سے وقت میں منظوم ترجمہ کردیا۔ ترجمہ دیکھ کر پروفیسر لطیفی اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ بیشک آپ ادیب اور شاعر ہیں۔
مولاناکی ادبی مہارت کا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حرم شریف کے قیام کے دوران مکہ معظمہ کے ادیب محمد امین الکتبی نے آپ سے آپ کے قصیدہ لامیۃ الدکن کی سندلی۔ مشہور مستشرق پروفیسر مارگولیتھ نے جب جامعہ عثمانیہ کا دورہ کیا تو شعبہ عربی میں آپ سے ملاقات ہوئی کچھ علمی مباحثہ ہوا جس کے بعد پروفیسر نے آپ کی غیر معمولی وسعت علمی اور عربی ادب میں مہارت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے ہندوستان بھر میں عربی ادب کا ایسا ماہر نہیں پایا‘‘۔
عرب ممالک سے مراسلت کی ذمہ داری بانی جامعہ نظامیہ نے آپ ہی کے سپرد کی تھی۔ عربی زبان کے بلند مرتبہ شاعر تھے۔ طبیعت فطرتاً موزوں تھی۔ فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ آپ کے قصائد شعرائے قدیم کے طرز میں یعنی قصیدہ کی ابتداء تشبیب سے ہوتی ہے۔ 
آپ نے اپنے وقت کے مشہور شیخ طریقت حضـرت جمال الدین شاہ حسنی الحسینی القادریؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ نے 1950ء میں حرمین شریفین کا قصد فرمایا اور حج و زیارت سے مشرف ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کے شیوخ و صلحاء کی صحبتوں سے مستفید ہوئے۔
دبلے پتلے، قد و قامت متوسط، رنگ سانولہ، آنکھیں بڑی اور روشن، داڑھی نہ گھنی نہ چھدری۔ سرپر سبز رنگ کا بڑا عمامہ اور سادہ لباس پر طویل جبہ۔ آخری ایام میں پاجامہ کی بجائے تہمدباندھنے لگے تھے۔
82 سال کی عمر میں 2؍شوال المکرم 1377ھ مطابق 22؍ اپریل 1958ء بروز سہ شنبہ رات کے 8 بجے عالم جاودانی کی طرف کوچ فرمایا۔ اس وقت آپ بمقام سید علی چبوترہ اپنے سمدھی مولانا حکیم محمد حسین صاحبؒ کے مکان میں قیام فرما تھے۔ دوسرے دن نماز جنازہ مسجد چوک میں پڑھائی گئی حضرت مولانا سید محمد پاشاہ حسینیؒ نے امامت فرمائی۔ علماء و صلحاء و تلامذہ و متوسلین کی کثیر تعداد شریک تھی۔ تدفین قادری باغ عنبر پیٹ میں پیر و مرشد کے پائین میں بائیں جانب ہوئی۔ طاب اللہ ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ۔ لوح مزا پر تاریخ وفات فی روضۃ یحبرون کندہ ہے۔ مولانا ڈاکٹر محمد عارف الدین فاروقی نے ان المتقین فی جنت وعیون سے استخراج کیا ہے۔آپ کے 6 صاحب زادے اور3 صاحب زادیاں تھیں۔
مختلف موضوعات پر بہت سی تصانیف عربی اور اردو میں یادگار چھوڑی ہیں جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
۱) تفسیر سورۃ والتین و سورۃ قریش۔ 
۲) معالم النور (تصوف۔ جس میں عوالم کی حقیقیت بیان کی گئی ہے) ۔
۳) شرح لامیۃ العرب للشنفری (عربی ادب)۔
۴) شرح شواہدفی الاتقان (تفسیر)۔ 
۵) الملخص من شرح الشواہد (تفسیر)۔ 
۶) حاشیہ و تعریب علی کتاب الفائق (لغت)۔ 
۷) قصیدہ لامیۃ الدکن ۔ 
۸) قصیدہ دالیہ۔ 
۹) مطلق الوجود۔ 
۱۰) رسالت و نبوت۔ 
۱۱) مطالع النور۔ 
۱۲) کلمہ توحید ۔
۱۳)  28 حروف 28 اسماء ۔
۱۴)  حاضرات متعارفہ۔
۱۵) شرح شرح مأۃ عامل ۔
محدث دکن حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددیؒ
محدث دکن ابو الحسنات حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی نے جمعہ ۱۰؍ ذی الحجہ ۱۲۹۲ ہجری اس خاکدان عالم میں قدم رکھا یہ وہ دن ہے جس دن حجاج کرام کعبۃ اللہ میں جمع ہوتے ہیں اور طواف کعبہ میں سرگرداں رہتے ہیں گویاآپ آفتاب ولایت بن کر عرفات کا پیغام لے کر تولد ہوئے ۔
آپ کے جد اعلیٰ بلد الحرام مکہ مکرمہ سے بعہد عادل شاہی ارضِ ہندوستان پر قدم رنجہ ہوئے اور فرمان شاہی میں نلدرگ (مہاراشٹرا ) میں فروکش رہ کر امور دینیہ اسلامیہ کی سرپرستی فرمائی ۔ حضرت ابو الحسنات کے والد گرامی حضرت پیر سید مظفر حسین نقشبندی رحمہ اللہ نے حکومت آصفیہ کے زمانہ میں حیدرآباد منتقل ہوکر یہیں قیام پسند کیا ۔ خدا رسیدہ بزرگ حضرت شہزادہ قادری رحمہ اللہ کی صاحبزادی آپ کی والدہ محترمہ ہیں ۔آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ ، کی جانب سے ۴۰ ویں پشت میں اور ۴۴ واسطوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ،سے ملتا ہے اس طرح آپ نجیب الطرفین سادات ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ عالم اسلا م کی مشہور دانش گاہ ازہر ہند جامعہ نظامیہ اسلامیہ کا ۱۲۹۲ ہجری میں سنگ بنیاد رکھا جارہا تھا حضرت ابو الحسنات بھی اسی سنہ  ۱۲۹۲؁ھ میں پیدا ہوئے ، والدین نے آپ کا نام سید عبد اللہ رکھا ، ابو الحسنات آپ کی کنیت ہے مسلکا حنفی اہل سنت وجماعت ، مشرباً نقشبندی ہیں ، ہجر رسول کریم علیہ  التحیۃ والتسلیم میں ہمیشہ بے چین وبے قرار رہنے والے بزرگ حضرت عاقبت شاہ رحمہٗ اللہ نے آپ کی تسمیہ خوانی پڑھائی۔اس کے بعد تحصیلِ علم اور تربیتِ ذات کا مرحلہ شروع ہوا۔دکن کی مردم خیز اور علم پرور زمین میں اس وقت ایسے اساتذہ وامام الفنون موجود تھے جو علوم شریعت وطریقت کے ہر شعبہ میں کمال دستگاہ کے حامل تھے ۔حضرت ابو الحسنات علیہ الرحمہ نے جن اساتذہ کرام سے ظاہری وباطنی علوم حاصل فرمائے ان میں شیخ العرب والعجم پیر طریقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اجل شیخ الاسلام حضرت العلام ابوالبرکات حافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ والرضوان بانی جامعہ نظامیہ ، کے علاوہ شیخ المعقولات حضرت مولانا منصور علی خاںؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا حکیم عبدالرحمن ؒسہارنپوری خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ،ان اکابرین کے علاوہ آپ نے دیگراساتذہ سے بھی اکتساب علم وفن کیا ۔
حضرت ابو الحسناتؒ نے جس عہد میں تعلیم حاصل فرمائی اس وقت مدارس ومکاتب کی کثرت کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے تحت درس وتدریس کا معروف طریقہ یہ تھا کہ مختلف علوم وفنون کیلئے انفرادی تدریسی مراکز قائم تھے ۔حضرت انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمۃ کا بھی ایک خصوصی حلقہ درس قائم تھا جہاں ملک وبیرون ملک کے طالبان علم سیراب ہونے کیلئے جوق در جوق چلے آتے ،اسی حلقہ درس سے حضرت ابو الحسنات نے بھی خوب خوب استفادہ ٔ علمی کیا، در حقیقت یہی وہ حلقۂ درس ہے جو بعد میں چل کر ایک عظیم دانش گاہ’’ جامعہ نظامیہ‘‘ کے قیا م کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ حضرت مفتی محمد رکن الدین علیہ الرحمہ کے مطابق حضرت شیخ الاسلام کے اسی فیضان علمی کو باضابطہ وباقاعدہ شکل دینے کیلئے ۱۲۹۲ہجری میںجامعہ نظامیہ کی تاسیس عمل میں آئی اور سارے علماء ومشائخ نے بالاتفاق آپ کو امام العصر تسلیم کرکے جامعہ نظامیہ کی تمام تر تعلیم وتنظیم آپ کے سپرد وحوالہ کردی ۔
علو م ظاہری کی تحصیل وتکمیل کے بعد آپ علوم باطنی کی طرف متوجہ ہوئے اور نقشبندیہ سلسلہ کے مشہوربزرگ پیر طریقت حضرت شاہ سعد اللہ رحمہ اللہ کے خلیفہ حضرت پیر سید محمد بخاری شاہ صاحب رحمہٗ اللہ سے رجوع ہوکر اکتساب طریقت اور فیض حاصل کیا ۔ 
حضرت پیربخاری شاہ صاحب ؒدریائے معرفت کے غواص تھے۔آپ حیدرآباد کے محلہ سعیدآباد میں قیام پذیر تھے حسینی علم سے حضرت ابو الحسناتؒ بپابندی اپنے پیر کی خدمت میں حاضری دیتے ، درحقیقت پیر بخاری شاہ صاحب کی بارگاہ وہ سینائے مقدس تھی جو حضرت ابوالحسنات کیلئے تجلّی گاہِ ایمن بنی ہوئی تھی ،عدیم المثال حاضری نے آپ کے ہر روز۔ کو روز عید اور ہر شب کو شب برات بنا دیا تھا۔ آپ کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ آپ کے مراقبہ کو دیکھ کر حضور اکرم ﷺ کے غار حرا میں مراقب ہونے کا تصور سامنے آجاتا تھا ۔ آپ کا مشرب بہت وسیع اور بے مثال تھا ۔خود کو پس پردہ رکھ کر حق کو ظاہر کرنے کا وصف آپ میں بدرجہ اتم موجود تھا ۔جو کرامات آپ سے ظاہر ہوئیں وہ من اللہ ظاہر ہوئیں۔تصرفات آپ کے ہاں محمود تھے مقصود نہیں ،آپ کی گریہ وزاری میں بڑی دلسوزی تھی جس سے شقی القلب بھی رقیق القلب ہوجاتا ،آپ اپنی دعائوں میں اکثر یہ الفاظ فرماتے ،
’’اے بار الہا تیرے معصوم بندے اس عاجز کو اپنا شیخ جان کر تیری درگاہ میں دعا کی درخواست کرتے ہیں اے اللہ تو میری لاج رکھ لے اور ان سبھوں کی دعا قبول فرمااور نہیں بامراد فرما ۔‘‘
آپ کا وعظ حکمت وموعظت کا بہترین نمونہ ہوتا ، نجی مسائل کے حل میں بھی آپ کی گفتگو بڑی تسلی بخش ہوتی۔قدرت نے آپ کو زبان وبیان کے ساتھ قلم کی قوت سے بھی سرفراز فرمایا تھا ،آپ کے تصنیفات وتالیفات وملفوظات از ابتداء تا انتہاء اپنے موضوعات وعنوانات کے لحاظ سے منفرد سند کا درجہ رکھتے ہیں ، قرآن وحدیث، اقوال صحابہ، تشریحات تابعین،توضیحات تبع تابعین ،اجتہادات مجتہدین وعرفانیاتِ سالکین ،نگارشات مؤرخین سے بھری ہوئی ہیں۔ کُن فیکون سے پہلے کی حقیقتوں کو واضح انداز میں سمجھانے والا ’’ میلاد نامہ ‘‘ یہودونصاری کے جسمانی معراج کے ہرگمان کی نفی وتردید میں ’’معراج نامہ‘‘ احوال یوم آخرت سے آگاہ کرنے والا ’’ قیامت نامہ‘‘  منزل معرفت کے درمیان پیش آنے والے ہر مرحلہ کی بلا تمثیل تشریح ’’یوسف نامہ ‘‘ معراج المومنین کی سیر حاصل تفصیل ’’ فضائل نماز ‘‘ زمینِ دل کو گل وگلزار بنانے کیلئے ’’ گلزارِ اولیاء‘‘ روحانی راہ میں رکاوٹ بننے والی بیماریوں کیلئے ’’ علاج السالکین ‘‘ خدا اور رسول سے قریب ہونے کیلئے ’’ کتاب المحبت‘‘ ایک انسان کے شب وروز کواسوۂ حسنہ میں ڈھالنے ’’ مواعظ حسنہ‘‘  سرورکائنات علیہ التحیۃ سے شرف ہمکلامی کیلئے ’’زجاجۃ المصابیح ‘‘ (پانچ جلدوں میں) تصنیف فرمائیں ۔ 
یہ تصنیفات ایک جامعہ کا درجہ رکھتی ہیں، بالخصوص زجاجۃ المصابیح کو حضرت ابو الحسنات علیہ الرحمہ کی زندگی کا شاہکار کہا جاسکتا ہے،مسلک امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو احادیث کی روشنی میںپایۂ ثبوت تک پہونچانا قدرت نے آپ کے حصہ میں رکھا تھا جس کے ذریعہ آپ کو حضور فخر کائنات ﷺ کی خوشنودی حاصل ہوئی اس کتاب کو تصنیف کرکے آپ نے بقول عبد الماجد دریا بادی احناف کے سر سے صدیوں کا قرض اتار دیا ۔ اور افغانستان کے فقیہ اعظم علامہ شیخ ابو نصر محمد اعظم ھروی نے دیکھا تو فرمایا کہ ’’ یہ صحیح ترین احادیث کا منبع اور بحر ذخار ہے جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور وسعت قلب وانشراح صدر کا موجب ثابت ہو رہی ہیں اللہ تعالی مؤلف کو اور اشاعت میںمدد کرنے والوں کو جزاء خیر مرحمت عطافرمائے ‘‘۔ ملک شام (سیریا) کے عالمی شہرت یافتہ عالم جلیل الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ کا کہنا ہے کہ ’’ بیت اللہ شریف کی گرانقدر منفعتوں میں ایک زجاجۃ المصابیح ہے جس کی وجہ سے میری بصارت اور بصیرت دونوں روشن ہوگئے‘‘۔ 
دربانبوی ﷺ میں مقبولیت : 
حضرت محدث دکنؒ کا یہ عظیم کارنامہ تائید غیبی کا نتیجہ ہے جس کا اظہار خود آپ نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اس طرح فرمایا۔
’’جب خطیب تبریزی نے مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت امام شافعیؒ کے مسلک کے مطابق احادیث کو جمع فرمایاتو میر ے دل میں باربار یہ خیال آتاکہ میں مشکوٰۃ ہی کے طرز پر ایک ایسی کتاب تالیف کروں جس میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کے مسلک کے مطابق احادیث جمع کروں مگر میری تنگ   دامنی مجھے اس کام کے انجام دینے سے روک رہی تھی یہاں تک کہ میں نے خواب میں شمس الضحی وبدرالدجی ونورالہدی ومصباح الظلم ہمارے حبیب نبی کریم  ﷺ کو جلوہ گردیکھا اور سلام فرمایا تومیں نے  بھی سلام عرض کیا تو آپ  ﷺ روحی فداہ نے مجھے اپنے اس سینے سے چمٹایا جو علم وحکمتوں کا منبع ہے مجھے کوگلے لگایا جب میں نیند سے شاداں وفرحاں بیدارہوا تواس نعمت پر میں اللہ کی حمد بجالایااوراس کا شکر ادا کیا یہ مبارک خواب میر ے سینے کے انشراح کا سبب بن گیا جس کی برکت سے اس کی تنگی کشادگی سے تبدیل ہوگئی، اورمیںنے اس کی تالیف کا پختہ ارادہ کرلیا اور اس کے لئے اپنی کمرکس لی اور اس کتاب میں جو بھی حدیث لکھا ہر حدیث کے تحریر کے وقت حضور نبی کریم ﷺ پر درودشریف پڑھا اور میں نے اس کا نام ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ رکھا ۔(۴)
زجاجۃ المصابیح کی پانچوں جلدیں جو تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں، اس کی تکمیل ۱۹۵۱؁ء میں ہوئی ، عدم سرمایہ کی وجہ سے اس کی طباعت تین سال کے بعد ہوئی اس وقت آصفی سلطنت باقی تھی، حضرت محدث دکنؒ کی متو کلانہ طبیعت کسی عہد یدار سے اس کتاب کی اشاعت کے لئے سرمایہ طلب کرنے پر راضی نہیں تھی بفحوائے۔
مردے ازغیب بروں آیدوکارے بکند
(غیب سے کوئی شخص نمودار ہوگا اورکان انجام دے گا)
حضرت کے ایک مرید جناب عبدالرزاق صاحب گتہ دار بیڑ (مہارشٹرا) حسب معمول ذکرالہی میں تھے، مکاشفہ میں انہوںنے دیکھا کہ پیرومرشد قدس سرہٗ نور کے ایک ہال میں گھرے ہوئے ہیں لیکن اس نور کو پھیلنے کا راستہ نہیں ہے وہ بہت حیران ہوئے کہ کیا ماجرا ہے، انہوںنے اپنے اس وارد کو حضرت علیہ الرحمہ کے ایک شاگرد جناب حکیم محمد صابر صاحب لکچرر عربی اور نگ آباد کالج سے ذکرکیا انہوں نے بتایا حاجی صاحب آپ کا مکاشفہ بالکل صحیح ہے حضرت پیر و مرشد نے تاجدارمدینہ سرورقلب وسینہ ﷺکے نورانی ارشادات یعنی احادیث شریفہ پر مشتمل ایک ضخیم کتاب تالیف فرمائی ہے۔ جو سراسر نورہی نور ہیں اورراستہ یو ں بند ہے کہ حضرت کے پاس اس کی اشاعت کے لئے کوئی سرمایہ نہیں ہے تم راستہ نکالو اور ثواب دارین حاصل کرو۔ چنانچہ موصوف نے تخمینہ مصارف کے بعد آٹھ ہزار روپئے کی خطیر رقم حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں روانہ فرمائی اور طباعت کا کام شروع ہوگیا اور ۱۹۵۳؁ء سے ۱۹۶۰؁ء تک زجاجۃ المصابیح کی پانچوں جلدیں زیور طباعت سے آراستہ ہوگئیں اور اس کتاب کا دوسرا ایڈ یشن کوئٹہ (پاکستان ) سے ۱۹۹۱؁ء میں شائع ہوا ۔(۵)
ضرورت تالیف:۔
اگر کوئی یہ سوال کرے کہ صحاح ستہ اور متعدد کتب حدیث خصوصاً طحاوی شریف کے بعد زجاجۃ المصابیح کی ضرورت کیوں پیش آئی تو یہی سوال مشکوٰۃ المصابیح کی تالیف سے بھی متعلق ہوگا، جو جواب مشکوٰۃ کے متعلق ہوگا وہی جواب زجاجۃ کے بارے میں ہوگا ، مشکوٰۃ المصابیح کی تالیف کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ مذکورہ کتب حدیث میں صرف صاحب کتاب کی سند سے مروی شدہ روایات ہی ہوں گی کسی عنوان کے متعلق جامع معلومات کے لئے ساری کتابوں کے ابواب دیکھنا ہر ایک کے لئے ایک دشوار امر ہے، اس لئے صاحب مشکوٰۃ نے استفاد ہ کے سہولت کی خاطر صحاح ستہ کے علاوہ دیگر کتب حدیث سے احادیث کو جمع کیا ، چونکہ صاحب مشکوٰۃ شافعی تھے۔ اس لئے اختلافی مقامات میں وہی احادیث درج کی ہیں جن سے حضرات شافعیہ استدلال کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر زمانے میں یہ ضرورت بڑ ی شدت کے ساتھ محسوس کی گئی کہ مشکوٰۃ کے طرز پر ایک کتاب ایسی ہو جو ان روایات پر مشتمل ہوجن سے احناف کے مسلک کی تائید ہوتی ہو۔ مشکوٰۃ کی تالیف کے بعد سات سوبرس سے یہ قرض جو علماء احناف پر تھا اس کو  محدث دکن حضرت عبداللہ شاہ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ نے ادا فرمایا۔ جیسا کہ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اعتراف کیا ہے کہ
 ’’اس میں قطعاً اختلاف نہیں ہے کہ ایسی کتاب علماء احناف ایک ہزار سال سے نہیں لکھ سکے ہیں‘‘۔ 
خصوصاً دور حاضر میں اس کتاب کی اشد ضرورت تھی۔ جبکہ ایک جماعت جو حدیث پر عمل کرنے کا دعوی کرتی ہے ، جو حدیث فہمی سے کوسوں دور ہے اور جو اپنی غلط فہمی اور نادانی سے یہ پرو پگنڈہ کرتی ہے کہ احناف قیاس اور رائے پر عمل کرتے ہیں اس کا حدیث سے واسطہ نہیں ۔ زجاجۃ المصابیح ان کے اس پروپگنڈ ہ کا قلع قمع کرتی ہے، جو کوئی انصاف پسند حضرت محدث دکن کی اس جمع کردہ احادیث کے مجموعے اور تحقیقات کو دیکھے گا یہ کہہ اٹھے گا احناف کے مسلک کی تائید جس قدر احادیث سے ہوتی ہے ، اور کسی مسلک کی نہیں حضرات حنفیہ سے زیادہ اور کسی کو حدیث پر اہتمام عمل نہیں ہے فقہ حنفیہ کا ایک ایک جزئیہ حدیث نبوی سے مسنتیرہے حضرت امام صاحبؒ کاقول حدیث کے علاوہ کسی نہ کسی صحابی یا تابعی کے قول سے ماخوذ ہے۔ 
فنی خصوصیات:۔
زجاجۃالمصابیح علم حدیث کا ایک روشن مینارہ ہے، اور احادیث نبویہ کے ذخیرہ میں قابل قدر اضافہ ہے اور خصوصاً احناف کے لئے یہ کتاب دلیل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
یہ (۲۹) کتابوں (مثلا کتاب ، کتب الطہارۃ اور کتاب الصلوۃ وغیرہ ) اور ۳۲۷ ابواب پرمشتمل ہے۔ 
’’زجاجۃ المصابیح‘‘ میں مشکوٰۃ المصابیح کی طرح علوم حدیث کے مختلف مضامین عقائد ، احکام ، آداب اور مناقب وغیرہ کو جمع کیا گیا ہے اور صحاح ستہ کے علاوہ موطا امام مالک وموطا امام محمد مسند امام احمد و دارمی جو طبرانی ودارقطنی و بیہقی و مصنف ابن ابی شیبہ وشرح معانی الآثار وغیرہ متعدد کتب حدیث جو چراغوں کی طرح روشن ہیں ۔ جن کی روشنی اس زجاجۃ سے نکھر رہی ہے اور یہ احادیث مقدسہ کا حسین گلدستہ ہے جس سے دماغ ایمان معطر ہوجاتاہے۔ 
مشکوٰۃ میں ایک مسئلہ کے متعلق احادیث تین فصلوں میں منتشر تھیں جس سے پڑھنے والے میں ایک تو کیفیت تسلسل کا برقرار رہنا اور دوسرے مسائل کا بیک نظر تلاش کرنا دشوار تھا، اس لئے حضرت محدث دکنؒ نے ہر مسئلہ کے متعلقہ احادیث کوبلالحاظ فصل یکجا کیا ہے۔ جیسا کہ صاحب مشکوٰۃ نے کتاب الاطعمۃ میں سب سے پہلی حدیث بسم اللہ پڑھنے اور کھانے کے دوران آداب سے متعلق حدیث لائی اور صاحب زجاجۃ نے سب سے پہلی حدیث کھانے پر بیٹھنے سے قبل جس ادب کو ملحوظ رکھا جائے جیسے ’’ہاتھ دھونا‘‘ لائی ہے اور یہی روایت صاحب مشکوٰۃ نے دوسری فصل میں بیان کیاہے۔ کیونکہ صاحب مشکوٰۃ کے پیش نظر بیان احادیث میں بخاری ومسلم ودیگر کتب کی ترتیب ہے اور صاحب زجاجۃ کے پیش نظر مسائل کی ترتیب ہے اس لئے زجاجۃ المصابیح کی ترتیب میں انتہائی معقولیت اورسہولت نظر آتی ہے۔ 
قارئینِ زجاجۃ اس خصوصیت کو نمایاں پائیں گے کہ ہر باب میں اس سے کلی مطابقت رکھنے والی حدیث کو مقدم رکھا اور مسائل  کی تمام روایات درجہ صحت وحسن سے کم نہیں ہے۔ حضرت محمد خواجہ شریف صاحب قبلہ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ نے نور المصابیح جلددہم کے ابتداء  میں بیان فرمایا، 
’’اصل بات یہ کہ حدیث شریف میں ضعف، سند اور رواۃ کی عدالت وضبط میں کسی طعن کی وجہ سے ہے اور یہ بُعد زمانہ کے ساتھ بڑھتاگیا لیکن ائمہ مجتہدین بالخصوص ان میں امام اعظم ؒ کا دور خیرالقرون ہے۔ اسی لئے امام صاحب کی مستدل احادیث شریفہ سب صحاح کے مرتبہ میں ہیں‘‘۔ (۶)
اصحاب صحاح ستہ اور دیگر مشہور محدثین کرام میں  سے ہر ایک نے کسی نہ کسی طریقہ سے حضرت امام اعظمؒ کے تلامذہ یا تلامذہ کے  تلامذہ سے علم حدیث میں استفادہ کیا ہے اورباقاعدہ ان کی شاگردی اختیار کی ہے، اس کی تفصیل حضرت شیخ الاسلام علامہ مولانا محمد انواراللہ  فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی تصنیف ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ میں ملاظہ کیجئے، امام صاحب کے مستدلہ مسائل سے متعلق احادیث میں قرب زبان نبوی ﷺ کی وجہ سے ضعیف کا احتمال کم ہے ، مذکورہ محدثین کا زمانہ امام صاحبؒ کے بہت بعد کاہے، مثلاً حضرت امام صاحبؒ کی پیدائش  ۸۰؁ھ میں ہوئی اور حضرت امام بخاریؒ کی پیدائش ۱۹۴؁ھ میں ہوئی حضرت امام بخاری حضرت امام صاحب سے ۱۱۴سال چھوٹے اور امام مسلم ۱۲۴ سال  چھوٹے ہیں۔ 
فقہ حنفی کے مخالفین اگر ٹھنڈ ے دل سے زجاجۃ المصابیح کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوجائے گاکہ فقہ حنفی کا ہرمسئلہ صحیح احادیث سے ماخوذ ہے۔ مسئلہ عدم قراء ت خلف الامام اور رفع یدین وغیرہ سے متعلق زجاجۃالمصابیح میں موجود احادیث شریفہ کے متعلق جو تحقیق حضرت شیخ الحدیث مولانا خواجہ شریف صاحب قبلہ نے اپنی کتاب ’’امام اعظم امام المحدثین ‘‘ میں فرمائی ، اس کا اقتباس درج ذیل ہے۔
’’ امام کے پیچھے قراء ت کرنے کی کوئی بھی حدیث بخاری شریف میں نہیں ہے اس میں صرف یہ ہے کہ جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں یہ حکم تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے ہے۔ مسلم شریف میں ’’لا قراء ۃ مع الامام فی شئی ‘‘ (امام کے ساتھ نماز کے کسی حصہ میں تلاوت نہیں)کے صاف صاف الفاظ ہیں احادیث کریمہ سے یہ ثابت ہے کہ آیت کریم ’’فاستمعوالہ وانصتوا ‘‘(جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو)امام کی قراء ت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے سے متعلق ہے‘‘ (روایات زجاجۃ میں ملاحظہ فرمائیے) صحاح ستہ میں اس مضمون کی اور بھی حدیثیں ہیں حضرت محدث دکنؒ  نے اس سلسلہ میں زجاجۃ المصابیح میں جو احادیث جمع فرمائیں انکا اجمالی خاکہ ملاحظہ فرمائے۔ 
 امام کے پیچھے قرأ ت نہ کرنے کے متعلق احادیث 
صحابہ کی تعداد جن سے یہ حدیثیں نقل کی گئیں (۱۷) 
کتابوں کی تعداد جن سے احادیث لی گئیں (۲۶)
قراء ت نہ کرنے کے متعلق جملہ احادیث (۱۰۴)
 رفعِ یدین صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت کیاجائے
صحابہ کی تعداد جن سے یہ احادیث نقل کی گئیں (۵)
وہ محدثین جن سے یہ احادیث لی گئیں (۱۴) 
جملہ احادیث (۲۹)
نماز میں آمین آہستہ کہنے کے متعلق زجاجۃ المصابیح میں جملہ ۱۲ احادیث نقل کی گئیں ۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب قبلہ نے بالکل حق فرمایا:
’’ زجاجۃ المصابیح کو پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی فقہ حنفی کے بارے میں لب کشائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ فقہ احادیث شریفہ کے مطابق نہیں ہے تو یہ اس کی کم فہمی یاعناد کے سواء کچھ نہیں۔ اللہ ھوالموفق‘‘۔ (۷)
حضرت محدث دکنؒ نے ہر بڑے باب کی ابتداء قرآن مجید کی آیات سے فرمائی۔ ابواب سے بالکل متعلق آیات کے انتخاب سے آپ کی قرآن مجید پر گہر ی نظر اور استنباط کی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ مثلا ’’باب مایقرا بعد التکبیر‘‘ (نماز کی تکبیرتحریمہ کے بعد کیا پڑھاجائے) کی ابتداء اس آیت سے فرمائی ’’وسبح بحمد ربک حین تقوم‘‘ (اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرو جبکہ تم کھڑے ہو) تکبیر کے بعد ثناء (سبحنک اللھم وبحمدک الخ) کا پڑھنا بالکل اس آیت پر عمل کرناہے۔ 
حضرت محدث دکنؒ کا علمی تبحر اوراس کی وسعت زجاجۃ کے حاشیہ سے ظاہر ہے ۔ او ریہ حواشی تقریباً ۱۰۵سے زائد مصادر سے ماخوذ ہیں۔ 
شرح میں سطحی اقوال کو نہیں بیان فرمایا بلکہ انتہائی مفید اصول تحریر فرمائے جس کے مطالعے سے ایک طالب علم حدیث کی بصیرت میں خوب اضافہ ہوتاہے۔ جس کی ایک مثال یہاں دی جاتی ہے۔ 
حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے صبح کی ایک رکعت سورج کے طلوع ہونے سے پہلے پالی اس نے صبح کی نماز پالی الخ شوافع اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نماز فجر کے دوران سور ج کے طلوع ہونے سے نماز باطل نہیں ہوتی اور احناف کے پاس نماز نہیں ہوتی صاحب زجاجہ اس حدیث کے اصل مفہوم کو اورنماز کے نہ ہونے سے مختلف روایات کو پیش کرتے ہوئے علامہ عینیؒ کے اس قول کو پیش فرمایا کہ ’’جبکہ سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز کی ممانعت سے متعلق کیثر احادیث منقول ہیں ، اباحت صلوٰۃ کے مقابلہ میں نہی کی روایات کا متواتر ہو نا اس کے منسوخ ہو نے کی دلیل ہے‘‘۔ 
صاحب زجاجہ نے اس کے حاشیے میں نسخ کے متعلق ایک ایسا قاعدہ نقل فرمایا جو مختلف مسائل میں ایک جامع اصول کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ تحریر فرمایا۔
نسخ کی حقیقت یہ ہیکہ اس مقام میں محرم (حرمت والی حدیث) ومبیح (جوازوالی حدیث) دونوں جمع ہوگئے او ریہ قاعدہ مشہور ہیکہ محرم و مبیح دونوں جمع ہو جائیں تو عمل محرم (حرمت والی روایت ) پر ہوگا اور مبیح (جواز ) منسوخ سمجھا جائیگا کیونکہ ناسخ کا حکم آخر میں ہوا کرتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ حرمت والا حکم جواز کے بعد ہوا کرتا ہے ، کیونکہ اصل اشیاء میںاباحت ہے(یعنی ہر شی جائز ہے جبتک کہ منع وارد نہ ہو) اور تحریم (اباحت کے بعد) عارض آنے والی شئی ہے او راسکا عکس نہیں ہو سکتا کیونکہ اس صورت میں دومرتبہ نسخ لاز م آجائیگا۔(۸)
کتاب کے اصل متن میں اختلافی مسائل کے سلسلہ میں ایسی مفید باتوں کو نقل فرمایا جن سے واقفیت ہر طالب علم حدیث کے لئے ضروری ہے۔ اخیر قعدہ میں تشہد کے اختتام پر حدث ہونے سے نماز کے اعادہ کی ضرورت نہ ہو نے پر حضرت نے ابوداؤد،و ترمذی اور دیگر کتبِ حدیث سے مرفوع حدیث نقل کرکے تحریر فرمایا۔ 
ابوداؤد نے اس حدیث کے بارے میں سکوت فرمایا اور وہ جب کسی حدیث پر سکوت فرماتے ہیں تو وہ ان کے پاس حسن یا صحیح ہوتی ہے او رترمذی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہر وہ روایت جس کو میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے جحت ہے ، سوائے چار احادیث کے اور یہ حدیث اس میں نہیں ’’کذافی الشعایۃ ‘‘۔(۹)
جب محدثین کسی حدیث کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں ہے تو علم حدیث سے ناواقف یہ سمجھتے ہے کہ یہ ضعیف ہے اس بات کا رد کرتے ہوئے ،حضرت محدث دکنؒ نے مذکورہ مسئلہ ہی کے ضمن میں ترمذی کی ایک روایت کردہ حدیث کی شرح میں فرمایا۔ 
’’ملاعلی قاری نے فرمایا اس حدیث کے او ربھی طرق ہیں جن کو طحاوی نے ذکرکیا ہے۔ کثرتِ طُرق، ضعیف حدیث کو درجہ حسن میں پہنچا دیتے ہیں۔ ابن ہمام نے کہا ہے کہ کسی حدیث کے بارے میں کسی کا یہ کہنا کہ ’’یہ صحیح نہیںہے‘‘ اگر اس کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو باعث عیب نہیں کونکہ حجت صحت پر ہی موقوف نہیں بلکہ حسن بھی کافی یہ (صحیح کی نفی سے ضعیف ہو نا لازم نہیں آتاحسن بھی ہو سکتی ہے)۔(۱۰)
حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ کے مسلک کی حقانیت آپ کی سطرسطر سے نمایاںہے ۔ حضرت امام صاحبؒ کی فضیلت میں اس حدیث کے تحت ایک اہم نکتہ ملاحظہ فرمائیے۔ 
حضورنبی اکرم  ﷺنے ارشاد فرمایا’’انااکثرھم تابعایوم القیامۃ ‘‘ (متفق علیہ) (قیامت کے دن سارے انبیاء میں میر ے متبعین زیادہ ہوںگے) ۔ اس حدیث میں اس بات کا ثبوت سے کہ متبعین کی کثرت متبوع (جس کی اطاعت کی جاتی ہے)کی افضیلت کو بتاتی ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کو (ائمہ میں باعتبار عظمت ) عظیم وافرحصہ حاصل ہے کیونکہ اکثر اہل اسلام فروعی احکام میں آپ ہی کے متبعین ہیں۔ (۱۱)
جہاں احادیث شریفہ میں عظمت نبی  ﷺ کا مضمون آتا ہے حضرت محدث دکنؒ کا قلب مبارک حب نبی  ﷺ سے سرشار ہوجاتا ہے۔ جو ایمان کی کسوٹی ہے۔ اور آپ کا قلم ایسی ایسی ایمان افروز باتوں کو نقل کرتا ہے جن سے دماغ معطر ہو جاتاہے۔ حضوراکرم  ﷺ کے اس فرمان ’’واناحبیب اللہ ولافخرالخ‘‘ (میں اللہ کا حبیب ہوں اس پر فخر نہیں کرتا) کی شرح میں رقمطرازہیں۔ 
’’ خلیل اور حبیب میںفرق یہ ہے کہ خلیل خلّت سے مشتق ہے جس کے معنی حاجت کے ہیں۔اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل  بنایا اور حبیب ’’فعیل ‘‘ کے وزن پر فاعل اور مفعول دونوں معنی میں آتا ہے تو حضور اکرم  ﷺ محب اور محبوب ہیں خلیل وہ محب ہے جو اپنے محبوب کو اپنی حاجت کی وجہ سے چاہتا ہے او رحبیب بغیر کسی غرض سے چاہنے والا ہو تاہے۔ اور اس کا حاصل یہ ہیکہ خلیل مرید سالک وطالب کے درجہ میں ہوتا اور حبیب مراد ومجذوب اور مطلوب کے درجہ میں ہوتاہے۔ اسی وجہ سے خلیل کا فعل اللہ کی رضاکے لئے ہوتا ہے۔ اور حبیب وہ ہے، اللہ کا فعل اس کی رضاکے لئے ہوتاہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے’’ فلنولینک قبلۃ ترضھا‘‘ (ہم ضرور ضرور تمہیں اس قبلہ کی طرف پھردیں گے جس میں تمہاری رضاہے)’’ولسوف یعطیک ربک فترضی‘‘ (تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ راضی ہوجاؤ گے) خلیل وہ ہے جس کی مغفرت حدطمع میں ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا’’ والذی اطمع ان یغفرلی ‘‘ اور حبیب وہ جس کی مغفرت مرتبہ یقین میں ہوجیسا کہ رب نے حبیب سے فرمایا’’ لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتاخر ‘‘ اور خلیل یہ کہے ’’رب اجعل لی لسان صدق فی الاخرین‘‘ (اے میررب میر ا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں کردے) اور رب تعالی حبیب سے یہ کہے’’ورفعنالک ذکر‘‘ (ہم نے آپ کے لئے آپ کے ذکر کو بلند کیا)اور رب نے حبیب سے فرمایا ’’انا اعطینک الکوثر‘‘ (بیشک ہم نے آپ کو خیر کثیر عطافرمایا) ۔(۱۲)
جہاں حضرت محدث دکنؒ نے اختلافی مسائل میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے مسلک کو سب سے بڑ ھ کر احادیث سے قریب ثابت فرمایا ہے ، وہیں مسلک اہل سنت والجماعت کے عقائد کے اثبات میں کوئی کسر نہیں رکھی ، آپ کا نفیس تعلیقات کا انتخاب آپ کے مسلک حق کی حفاظت پر دلالت کرتاہے جس کی چند مثالیں درج ذیل سطورمیں ملاحظہ فرمائیے ۔
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ آپ نے فرمایا میں حضورنبی کریم ﷺکے ساتھ مکہ میں تھا اور ہم اس کے اطراف واکناف کے ایک حصہ میں نکلے توجس کسی پہاڑی یا درخت کا سامنا ہوتا تو وہ کہتا ’’ السلام علیک یارسول اللہ ‘‘ (رواہ الترمذی والدارمی)
اس حدیث کی شرح مرقاۃ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: یہ حدیث نبی کریم ﷺ کا معجزہ او رولی کی کرامت کا ثبوت ہے (کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انسانی عادت کے بر خلاف پہاڑاو ردرخت کے سلام کی آواز کو سن لیا) ۔(۱۳)
زیارتِ قبور کی وہ حدیث جس میں حضور ﷺ نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی اس کے حاشیہ میں نقل فرمایا کہ ’’ابن حجر نے اپنے فتوی میں کہا اولیاء کے قبور کے پاس جو جو منکرات کا صدور ہوتا ہے جیسے مردوں اور رعورتوں کا اختلاط اس کی وجہ سے قابل تقرب امور (زیارت قبور)کو چھوڑا نہیں جاسکتا بلکہ لوگوں پر ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ان برائیوں کا سد باب او رازالہ کریں (نفس زیارت کو منع نہ کریں) ۔(۱۴)
حضرت محدث دکنؒ نے اس کتاب کے ذریعہ عقائدکی بنیاد اور احکام کی حفاظت کا جو انتظام فرمایا اس کی طرف نظر کرتے ہو ئے حضرت مولانا ابوالحسن زید فاروقی رحمہ اللہ نے تاثرات کا یوں اظہار کیا۔ 
’’ مصابیح ہو یا مشکوٰۃ ان کے مولف شافعی ہیں۔ ہمارے علماء احناف نے ان کتابوں کی شرح یا حاشیہ لکھ کر حنفی مذہب کے استدلالات لکھے ہیں۔ ۷۳۷؁ھ سے ۱۳۶۸؁ھ تک احناف کس مپرسی کی حالت میں رہے مرقات ، لمعات اور اشعۃ اللمعات کوہر شخص خرید نہیں سکتا۔ وہابیت اور غیر مقلدی کے اسباب پو ری طرح اثرانداز ہوتے جارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے حضرت محدث دکنؒ  کو توفیق دی کہ وہ حنفی مذہب کے استدلالات احادیث شریفہ کی مستند کتابوں سے جمع کریں۔ حضرت محدث دکنؒ نے وہ کام کیا جو سات سو سال سے کوئی حنفی نہیں کرسکا اس کتاب کی اشاعت سے غیر مقلدی اور وہابیت کے اثرات پھیلنے سے انشاء اللہ بند ہو جائیں گے۔ ‘‘(۱۵)
مولانا محمد منظور نعمانی نے حضرت محدث دکنؒ سے حیدرآباد میں اپنی ملاقات کے دوران زجاجۃ المصابیح کی تالیف کی قدردانی کا اظہار کرتے ہو ئے فرمایا ’’حضرت ! حدیث نبوی ﷺ کے قصر عالی شان میں ایک اینٹ رہ گئی تھی الحمد للہ ، آپ نے وہ رکھ دی ہے۔ یعنی زجاجۃ المصابیح کی تصنیف سے حدیث شریف کا یہ قصر مکمل ہوا جب حضرت محدث دکنؒ نے یہ سنا تو آنسو سے ڈبڈ بائی آنکھوں کے ساتھ فرمایا رسول اللہ ﷺ اس کو قبول فرمالیں‘‘۔(۱۶)
فقیہ ہرات مولانا ابو نصر محمد اعظم برنا بادی نے تیسری جلد کی وصولیابی پر اظہار مسرت کرتے ہوئے لکھا۔ 
’’زجاجہ کی دوجلدوںکی تدریس نے میری آنکھوں کو ٹھنڈ ک بخشی اور اب تیسری جلدکی وصولیابی میرے وسعتِ قلب اور انشراحِ صدر کا موجب ثابت ہورہی ہے، جو حقیقت میں صحیح ترین حدیثوںکا منبع ہے، اورایسا محسوس ہورہاہے کہ مجھے ایک ایسابحرِزخار حاصل ہوگیاہے جو میرے لئے بالکل کافی ہے احناف کے لئے واضح حجت ہے جہالت اور تنقید کی بیماریوں کے لئے قانون ہے اورمذہب حنفی کے بارے میں جواب قاطع ہے اس کے جملہ فوائد سے آگاہی گہر ی نظر کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ۔(۱۷)
علامہ عبدالفتاح ابو غدہ شہر حلب (ملک شام) کے رہنے والے ہیں جب زجاجۃ کی پہلی جلد د یکھی تو حضرت محدث دکنؒ  کی خدمت میں مکتوب ارسال کرتے ہوئے لکھا۔ 
’’ مجھے حضرتِ والا کی تصنیف ’’زجاجہ المصابیح‘‘ کی جلد اول دستیاب ہوئی جس کی وجہ سے میر ی بصر اور بصیرت دونوں روشن ہوگئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بیش بہا نعمت سے جو نوازا ہے اس پر اللہ تعالیٰ شکر ادا کیا اللہ تعالیٰ آپ کو اس کارِ خیر پر اسلام او رحضرات احناف کی طرف سے جزاء خیر عطا فرمائے‘‘۔(۱۸)
مولانا عبد الحکیم شرف قادری شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، پاکستان نے فرمایا:
’’ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کتاب کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا جائے اور اس کی زیادہ اشاعت کی جائے خوشی کی بات یہ ہے کہ فرید بک اسٹال لاہور کی طرف سے یہ کتاب متن اور ترجمہ کے ساتھ شائع کی جاری ہے اس کتاب کی اشاعت سے اہلِ علم قارئین کوپتہ چلے گا کہ فقہ حنفی کس قدر مضبوط دلائل کی بنیاد پر استوارہے‘‘ ۔(۱۹)
الغرض آپ کی یہ تصنیف ایسی زبردست عظمت وشہرت کی مالک ہے کہ جس کی وجہ تا دور شمس و قمر آپ کو فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ آپ کی حیات پر ہمیشہ حیات رسول اور سیرت صحابہ کا پرتو رہا ۔ آپ کے ہر فعل میں سنت طیبہ کی اتباع پائی جاتی تھی اور ساری زندگی شریعت حقہ کی عملی تفسیر تھی ۔حضرت ابو الحسنات نے علم وعمل اور دین حق کی ترویج واشاعت میں اپنی عمر کے ۹۲ سال بسرکئے اور آنے والوں کیلئے نقوش چھوڑے ،اس کو کرامت کے سوا اور کیا عنوان دیا جاسکتا ہے کہ دم آخر جب کہ آپ کی نبض ڈوب چکی ہے لیکن قلب کی حرکت جاری وساری تھی۔ ۱۸؍ ربیع الثانی ۱۳۸۴ ہجری مطابق ۲؍ اگست ۱۹۶۴ء آپ نے اس دار فانی کو چھوڑاا ور رفیق اعلی سے جاملے ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 
حضرت علامہ مفتی محمد رحیم الدین ؒ
حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین بن محمد سراج الدین، محلہ اپو گوڑہ حیدرآباد 7؍ربیع الثای 1311ھ کو تولد ہوئے۔ شرافت و حرمت اور علم و حلم سے مزین اس خاندان میں حضرت محمد سراج الدینؒ ایک انفرادی شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ مفتی صاحبؒ کی بنیادی تعلیم و تربیت انھیں کے پاس ہوئی۔ اس کے بعد مدرسہ فخریہ میں شریک ہوئے۔ دیگر علوم و فنون کے ساتھ فلسفہ ہیئت کی تعلیم کیلئے یہ مدرسہ اس وقت اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں کے تعلیمی مراحل ختم کرنے کے بعد آپ کو جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں شریک کیا گیا ۔ حضرت فضیلت جنگ کی خاص نگرانی و شاگردی میں آپ نے علوم میں مہارت تامہ او رکامل دستگاہ حاصل کی۔
قدرت نے آپ کو غیر معمولی قوت حافظہ عطا کیا تھا۔ جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے قرآن حفظ کیا۔ حاضر جوابی میں آپ بے نظیر تھے۔ منطق و فلسفہ میں بھی عبور حاصل تھا۔
ابتداء سابق حکومت آصفیہ کے محکمہ صدارت العالیہ میں خلاصہ نویسی کی خدمت پر مامور ہوئے۔ 1336ھ میں صدارت العالیہ کے مفتی بنائے گئے۔ کتاب الجنایات کی ترتیب میں آپ روح رواں رہے۔
جامعہ نظامیہ میں بالترتیب ناظم (شیخ الجامعہ) شیخ التفسیر ، شیخ الفقہ اور صدر مفتی کی حیثیت سے غیر معمولی و یادگار اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ جن کے تذکرہ کے بغیر جامعہ کی تاریخ ادھوری ہوگی۔
آپ کے شاگردوںمیں بڑے بڑے علماء بالخصوص حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب دامت برکاتہم صدر مفتی جامعہ نظامیہ جو آپ کے بھتیجے بھی ہوتے ہیں اور اپنی نوعیت کے عظیم تحقیقی ادارہ دائرۃ المعارف (عثمانیہ یونیورسٹی) میں صدر مصحح (چیف ایڈیٹر) کے عہدہ پر فائز رہ کراپنی پچاس سالہ تحقیقی خدمت پر صدر جمہوریہ ہندایوارڈحاصل کرچکے ہیں۔
اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کیلئے قائم کئے گئے ادارہ اشاعۃ العلوم کے ایک عرصہ تک آپ معتمد رہے اور کتابوں کی اشاعت کے تسلسل کو باقی رکھا۔ علامہ ابو الوفاء افغانیؒ کی زیر سرپرستی قائم شدہ اشاعتی ادارہ مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کی تاسیس و ترقی میں آپ کا سرگرم رول و حصہ رہا ہے۔ایک باکمال عالم ہونے کیساتھ ساتھ آپ ایک بہترین قلمکار و مصنف بھی تھے۔ آپ کی تصنیفات حسب ذیل ہیں۔
۱۔ فتاویٰ صدارت العالیہ:(دوجلد )
جس میں مختلف مسائل کے متعلق آپ نے اردو میں جوابات تحریر کئے ہیں، جوابات کی اردو تحریر مختصر لیکن جامع و مانع ہے۔ حوالہ جات تفصیل سے درج کئے گئے ہیں۔
۲۔ صفتہ الحج:
  جو مسائل حج و زیارت پر ایک بہتر ین دستاویز ہے۔
۳۔ دعوۃ الاخوان لاحیاء معارف النعمان: 
یہ دراصل احیاء المعارف کے جامع تعارف پر مشتمل ہے جس میں اس ادارہ کی علمی و ادبی سرگرمیوں کو وضاحت سے بیان کیاگیا ہے۔ یہ کتاب اردو میں تحریر کی گئی ہے۔ 
۴۔ مسئلہ فاتحہ…… …  1389ھ میں آپ کا وصال ہوا۔
حضرت مفتی سید شاہ احمد علی صوفی قادری ؒ
حضرت مفتی سید شاہ احمد علی صوفی ؒقادری بانی جامعہ نظامیہ کے فیض یافتہ ارشد تلامذہ میں شمار کئے جاتے ہیں ،آپ ایک بہترین صحافی‘ ادیب اور عربی وفارسی کے علاوہ اردو کے قادر الکلام شاعر بھی تھے۔
۱۰؍رمضان المبارک ۱۳۱۲ھ؁ بروز چہار شنبہ بعد ظہر بمقام تصوف کدہ کبوتر خانہ قدیم آپ کی ولادت ہوئی ‘ تاریخ ولادت بلحاظ علم ابجد ’’چراغ حق‘‘ ہے ‘ سید الصوفیہ آپ کا لقب ہے‘ آپ صوفی اعظم قطب دکن ؒکے فرزند اکبر و جانشین تھے۔ سلسلہء نسب بائیسویں پشت میں آفتاب ولایت شیخ عبدالقادر الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے ‘ آپ کے آباء و اجداد آٹھویں صدی ہجری میں بغداد سے دکن تشریف لائے تھے۔ آپ کے نانا حضرت سید شاہ محمد سعید حسینی اپنے زمانہ کے ممتاز علماء میں سے تھے۔
ابتدائی تعلیم فارسی ‘ نحو وصرف ‘ عربی ادب اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔ حضرت غلام محبوب صاحب ؒ مدرس جامعہ نظامیہ سے بھی آپ نے خاطر خواہ استفادہ علمی کیا۔
۱۳۲۳؁ھ میں اپنے والد محترم کے ہمراہ جب آپ حرمین شریفین تشریف لے گئے تو وہاں دو سال قیام کے دوران نہ صرف دو مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل فرمائی بلکہ حرمین شریفین کے اکابر علماء و مشائخ خصوصاً حضرت شیخ عبداللہ المنصوری مفتی مکہ ‘ حضرت شیخ صالح صدیق ‘ حضرت شیخ محمد سعید القعقاعی مکی ‘ شیخ الخطباء شیخ احمد مکی ‘ شیخ العرب سید احمد برزنجی ‘ شیخ عبداللہ عود نابلسی مدنی سے علوم کی تحصیل کی۔  ۱۳۲۵؁ھ میں آپ وطن واپس لوٹے تو جامعہ نظامیہ کے ممتاز علماء خصوصًا حضرت سید شاہ غوث الدین قادری ‘ مولانا محمد عبدالکریم ‘ مولانا سلطان حسین مجددی مدرس دارالعلوم ‘ مولانا حکیم محمد منصور علی خاں ‘ بحر العلوم مولانا محمد حبیب الرحمن انصاری بیدلؔ سہارنپوری وغیرہم سے بھی حصول علم کیا۔ بالخصوص بانی جامعہ نظامیہ حضرت حافظ محمد انوار اللہ فاروقی ؒ سے فقہ ‘ ادب‘ منطق ‘ فلسفہ اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کی۔
حضرت فضیلت جنگ اپنے مخصوص حلقہ تصوف کے درس میں آپ کو اپنی سیدھی جانب بٹھاکر حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی معرکہ آراء عربی کتاب ’’فتوحات مکیہ‘‘ آپ سے پڑھواتے اور خود اس کے اسرار و نکات کی عارفانہ تشریح فرمایا کرتے تھے۔(۲۱) 
۱۳۳۳؁ھ میں اپنے والد ماجد سے جمیع سلاسل طریقت قادریہ ‘ مخرمیہ ‘ چشتیہ ‘ سہروردیہ‘ نقشبندیہ اور اویسیہ میں خلافت و اجازت سے سرفراز ہوکر رشدو ہدایت اور تصنیف و تالیف کی مسند پر متمکن ہوئے اور اپنے بیان و قلم سے مذہب و ادب کی خدمات انجام دیں۔
آپ کے پر اثر خطابات سے طالبان حق کے قلوب میں انقلاب آجاتا ‘ آپ کی سحر آفریں خطابت کا ایک واقعہ سوانح نگاروں نے اس طرح رقم کیا ہے کہ ۱۳۵۳؁ھ مدراس سیرت کمیٹی کے زیر اہتمام سمندر کے کنارے ایک عظیم الشان تاریخی جلسۂ میلاد النبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منعقد ہوا جس میں آپ کو وعظ فرمانے کیلئے خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا ‘ اسرار علمی اور نکات سے بھر پور جب آپ کا خطاب ختم ہوا تو طالبان حق کی وارفتگی کا یہ عالم  تھا کہ لوگ دیوانہ وار آپ کی طرف دوڑ پڑے اور جہاں تقریبا ڈھائی ہزار نفوس نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی وہیں علماء مدراس نے آپ کے اعتراف کے بطور آپ کی خدمت میں ’’افضل العلماء‘‘ کا خطاب پیش کیا۔
۱۳۲۳؁ء میں پہلا حج کیا ‘ دوسرا حج ۱۳۲۴ء میں اور تیسرا حج ۱۳۶۵ء میں فرمایا۔ فرائض و تہجد کی سختی سے پابندی فرماتے۔ حضرت صوفی اعظم ؓ کے فرزند اکبر و سجادہ نشین ہونے کے وجہ سے اورنگ زیب عالمگیر کی جانب سے عطا کردہ نقدی معاش ‘خاندانی سجادگی و صدر خطابت پرگنہ نرکھوڑہ آپ کے نام ہی حکومت نے جاری کی یہ سلسلہ آج تک آپ ہی کی اولاد میں جاری و قائم ہے۔
آپ ایک بلند پایہ ادیب اور بالغ النظر مصنف و مولف بھی تھے۔ تفسیر صوفی ‘ مقدمۃ العلم ‘ مثانی الصوفی ‘ فتاویٰ صوفیہ ‘ تحفۃ الصوفیہ اور قرۃ العین آپ کی تصانیف ہیں ۔ کوئی پچیس سال تک صحافتی یادگار خدمات انجام دیں۔ ماہنامہ ’’صوفی اعظم‘‘ اور خواتین نامی رسالہ کے آپ  مدیر اعلیٰ رہے۔ دارالتصنیف صوفیہ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ کے بھی آپ بانی ہیں جہاں سے (230) مختلف علوم کی کتابیں شائع ہوئیں۔
حضرت سیدالصوفیہ جہاں ایک بلند پایہ عالم تھے وہیں پر آپ کو شعر و سخن اور فن تاریخ گوئی میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ اردو کے علاوہ آپ کا کلام عربی اور فارسی میں بھی پایا جاتا ہے۔ اتنی خوبیوں کے حامل ہونے کے باوجود آپ کوخود ستائی اور تعلّی سے سخت نفرت تھی۔ ۳۴۴ا؁ھ میں آپ اپنے والد ماجد کا عارفانہ کلام ترتیب دے کر مع تاریخی مقدمہ ’’خلاصہ حقیقت‘‘ شائع فرمایا۔
آپ کے چار صاحبزادوں میں اس وقت مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری صدر کل ہند جمعیۃ المشائخ وایڈیٹر ان چیف رسالۂ صوفی اعظم بقید حیات ہیں جو اپنے خاندانی علمی وروحانی فیضان کانشان بنے ہوئے ہیں ۔
۱۶؍ربیع الاول ۱۳۶۸؁ھ بروز شنبہ واصل بحق ہوگئے۔ ہجری مادہ تاریخ وصال قرآنی آیت ’’ان المتقین فی جنات وعیون‘‘ سے برآمد ہوتا ہے۔ نماز جنازہ آپ ہی کے فرزند مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری نے پڑھائی اور آبائی قبرستان واقع دریچہ بواہیر میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ طبقات الصوفیہ ‘ اسرار العاشقین ‘ مقدس ٹیکمال اور تذکرئہ صوفیہ میں آپ کے خاندانی حالات تفصیل سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
حضرت علامہ نذر محمد خان قدس سرہ العزیز
آپ کی ولادت باسعادت جنوری۱۸۳۱؁ء مطابق ۱۳۵۵؁ھ قلعہ قلائی شہر غزنی میں ہوئی سلسلہء پدری نسبت قریش تابک ہے آپ کے دسویں دادا میر حسن بابا قدس سرہ العزیز ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کے دور کے ایک اہل اللہ اور صاحب کمال اولیاء میں شمار ہوتے ہیں اور مادری سلسلہ نسبت بھی کئی واسطوں سے چلتا ہوا غزنی کے مشہور خاندان خلجی سے ملتا ہے جو حضرت مولانا جہاں دار شاہؒ تک پہنچتا ہے۔
بچپن میں غزنی کے مجتہد العصر علماء سے استفادہ فرمایا۔ حصولِ علم کی طلب صادق لے کر کوہِ سلیمان کی دشوار گذار گھاٹیوں کو عبور کردیا۔ درہ خیبر کوہِ سلیمان میں اس دور کے اہل اللہ قطب وقت مردِ خدا اخوند صاحبؒ سے نذرؔ نے نیاز حاصل کیا اور دولتِ ظاہری و باطنی سے سرشار ہوئے بحسب ارشاد اولاً پشاور پہنچے اور وہاں کے شہرہ آفاق مدرسہ عربیہ میں داخلہ لیا لیکن ۱۸۵۷ء کے انقلاب نے انہیں ہجرت پر مجبور کردیا جہاں سے روانہ ہو کر مدرسہء عربیہ جامعہ ملّیہ دہلی میں شرکت فرمائی۔ علوم ظاہری کے یگانہ روزگار علماء سے استفادہ فرمایا۔ علم کی بڑھتی ہوئی تشنگی نے دیوبند، گجرات، اور بمبیٔ پہنچایا۔ اور مختلف درسگاہوں سے اپنی تشنگی بجھاتے ہوئے حضرت قدرت اللہ بخاری کا شغریؒ کے ہمراہ حیدرآباد دکن کے جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا۔ علامہ مولانا انواراللہ خان بہادر المعروف بہ فضیلت جنگ بہادر، بانی جامعہ نظامیہ نے دیکھا کہ حضرت نذر محمدؒ و قدرت اللہ ؒ کے حالات ظاہر وباطن دیگر طلباء سے عجیب وغریب ہیں اسلئے بطور خاص خوردونوش کا انتظام فرمایا۔ پھر اپنے مرشد قدرت اللہ بخاریؒ کے ہمراہ حج بیت اللہ وزیارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے۔  فراغت حج بیت اللہ وزیارت کے بعد حضرت بخاریؒ اپنے مرید وساتھی مولوی نذر الحق نذر محمد کو حیدرآباد جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہیں تمہاری شادی اور اولاد ہوگی او ر تم سے ہزارہا تشنگانِ علم ظاہری وباطنی سے مشرّف ہوں گے۔ اس کے بعد حضرت بخاریؒ خودواصل ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک جنت البقیع میں ہے۔ حضرت ممدوح دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سیراب ہو کر بحکم دوبارہ حیدرآباد دکن تشریف لائے۔ اسکے بعد حضرت مسکین شاہؒ سے فیض روحانی اورسلسلہ نقشبندیہ حضرت جمال الدین دامانیؒ اور سلسلہ چشتیہ میں حضرت سید شاہ جمال الحق فناؒ۔ اس کے بعد حضرت مکرم نے اپنے شیوخ طریقت کے حسب الحکم شہر گلبرگہ میں اپنی اسلامی خدمات کا آغاز فرمایا اور سال ۱۳۲۱؁ھ میں اسلامیہ مدرسہ ہفت گنبد میں قائم فرمایا۔ اور تشنگانِ علم کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر حضرت خواجہء دکن سیّدنا گیسودرازؒ کے منشائِ ومقصد اطہر کے مطابق حضرت خواجہء دکنؒ کے فرزند اکبر حضرت سید شاہ اکبر حسینیؒ کے قائم کردہ مدرسہ کی گویا تجدید فرمائی۔ بے شمار طلبا استفادہ کرتے رہے اور سا ل بہ سال دستار فضیلت سے سر فراز ہوتے رہے پھر وظیفہ کے بعد بھی یہ سلسلہ ء درس وتدریس آخری وقت تک جاری رہا۔
اخلاق وعادات:
پیرانِ طریقت کی تربیت وفیضان سے آپ نے ان جوہر علیہ کو اخلاقی حیثیت سے نکھارا جس سے آپکے اوصاف حمیدہ واخلاق منوّرہ علمی وعملی میدان میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتے رہے جو زندگی میں تکلّفات اور نام نمود پائے ناپسند فرماتے البتہ صفائی پاکیزگی سلیقہ آپ کی روز مرّہ زندگی کے ضروری اجزا تھے متعلقین کے علاوہ عزیز واقارب سے بھی ہمدردی فرماتے۔ ان کے آڑے وقت مدد کرتے جو کبھی قرضہ حسنہ کی شکل میں ہوتی اور کبھی قیمتی نصائح اور نیک مشورہ سے کبھی عطایا کے طور پر آپکے حُسنِ سلوک اور امداد کی کسی کو خبر نہ ہوتی۔ مریدین کو سلوک طے کرنے کی رغبت دلاتے۔ جس میں جیسی صلاحیت ہوتی اسی انداز میں تعلیم فرماتے۔ ظاہری تعلیم کابھی یہی حال تھا۔ غرض خداداد قابلیت کے حامل تھے۔ اگر مریدوں میں دنیوی معاملات میں اختلاف ہوتا تو افہام وتفہیم کے ذریعہ نہایت عمدگی سے صلح کرادیتے۔
عشق محمّدیؐ:
حضرت ممدوح کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعقیدت انتہائی عشق کے حد تک تھی اور فرماتے کہ ’’خوفِ خدا کے بجائے اس سے محبت سیکھنا چاہئے۔ محبت خدا کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی ہستی سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اسلئے کوئی کام ایسا نہ کرنا چاہئے کہ اس محبوب ترین ہستی کی ناراضی کا سبب ہو‘‘۔ اور ارشاد فرماتے کہ’’ رسولؐ کی محبت ایمان ہے۔ اھلِ بیت اطہار جزوِ رسولؐ ہیں۔ ہمیں اُن سے محبت، جزوِ ایمان ہے۔ اور اصحابِ رسولؐ سے محبت، لوازمہء ایمان ہے‘‘۔ اور عشقِ رسولؐ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی : 
بجز حبّ محمدؐ کامل ایماں ہو نہیں سکتا
خدا کا چاہنے والا مسلماں ہونہیں سکتا
آپ کی ذات میں جوش وتڑپ ، گریہ وزاری اور سوز وگداز بھی شامل تھا اور رسولؐ کی غلامی پر ناز تھا۔ سرکار دوعالمﷺ کا ذکرِ مبارک فرماتے تو ایک خاص کیفیت سے سرشار ہوجاتے تھے ۔ جب حدیث شریف پڑھاتے تو سرکارؐ کے تصوّر میں مستغرق ہوجایا کرتے۔ اور حضرت ﷺ سے والہانہ اور بے پناہ عقیدت کے متعدد واقعات بیان فرماتے۔ اس وقت آپ کا چہرئہ مبارک عشقِ رسولؐ کی وجہ سے دمکنے لگتا اور بے تاب ہو جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کے چشم مبارک سے آنسو جاری ہوتے اور بیٹھنے والوں پر رقّت طاری ہوجاتی۔ جس سے دیکھنے والوں کا ایمان تازہ ہوجاتا تھا۔ بے شک اگر انسان کے دل میں ایمان کی ذرّہ برابر بھی چنگاری ہوگی تو ایسے ایمان والوں کو دیکھ کر ایمان کی روشنی سے دل منوّر ہوگا اور اس شخص کو یادِ الہی اور محبت رسولؐ کی دولت حاصل ہوگی۔ غرض کہ بوقت حج اہل مدینہ ان ہی حالات کے پیش نظر آپ کو عاشقِ رسولؐ سے مخاطب فرماتے۔ جب کبھی  آپ اپنے شیوخ اور پیرانِ طریقت اور کاملینِ حقیقت کا ذکر فرماتے تو ان کے تصوّرات میں گم ہوجاتے اور مزے لیکر ان کے حالات اور واقعات بیان فرماتے تھے اور اُن مقدس اور پاک ہستیوں کے قرب اور فیضِ محبت، غیرمعمولی اوصاف اور اعلیٰ مرتبہ کا ذکر فرماتے اور زبردست بافیض ہستیوں سے اپنی نسبت پر فخر فرماتے تھے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز بلند پرواز قطب دکنؒ کی نسبت یوں فرماتے تھے۔ ’’نورِ محمدی‘‘ کے ایک لباس کا نام ’’بندہ نواز‘‘ ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ سے بے حد والہانہ محبت وعقیدت اور انتہائی عشق تھا۔ اس محبت وعشق کا اثر سمجھنا چاہئے کہ حضرت نذر محمد قبلہؒ پائین گیسودرازی و بندہ نوازیؒ میں استراحت فرمارہے ہیں۔ آپ اس سرائے فانی سے ۱۹؍رجب المرجب ۱۳۸۳؁ہجری مطابق ۱۸؍ڈسمبر۱۹۶۲؁ء شبِ دو شنبہ رفیق اعلی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
قد افلح من تزکی وذکر اسم ربہ فصلّی 
ترجمہ: بے شک بامراد ہوگیا وہ شخص جو پاک ہوگیا اور اپنے رب کا نام لیتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔
اللھم صل علی سیدنا محمد وعلی الہ واصحابہ وبارک وسلم۔
چمنے کہ تاقیامت گُل اوبہار بادا
صنمے کہ برجمالش دو جہاں نثار بادا
حضرت ممدوح ؒکی ہدایتیں:
ایک مرتبہ آپ کے ایک شاگرد جو عدالت کے جج تھے یوں نصیحت فرمائی ، اے عزیز! تو اللہ کے معاملہ میں احتیاط کر اور اس سے ڈر، اللہ زیادہ طاقتور ہے تجھ کو انسانوں کے اثر سے بچا سکتا ہے۔ اللہ میں یہ قدرت ہے کہ تیرے پاس فرشتہ بھیج دے اور تجھ کو اس کُرسی عدالت سے اُتاردے اور تجھ کو اس کشادہ مکان سے نکال کر تنگ وتاریک قبر میں پہنچا دے وہاںتیرے عمل کے سوائے کوئی چیز کام نہ آئے گی۔ گناہ سے بچ، خدانے تجھے حکومت دی ہے اس حکومت سے تو بزرگانِ خدا کو دین کا مددگار اور معاون بنا اور اس حکومت کو دین کے خلاف استعمال نہ کر۔ خدا کی طاعت میں کسی بندہ کی طاعت اور فرماں برداری ناجائز اور حرام ہے۔
خوفِ خدا:
تصوف میں اصل احسان یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سامنے حضوری کا تصور ہر وقت رہے۔ حضرت ممدوح پر یہ کیفیت غالب تھی اور اللہ تعالی کی شانِ جلالت سے ہر وقت خائف رہتے تھے جب مسجد میں آتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی دوست کو دفن کر کے آرہے ہیں اور مسجد میں بیٹھے تو اس قدر اُداس نظر آتے تھے گویا وہ قیدی ہیں جس کے قتل کا حکم دیا جاچکاہے اور جب دوزخ کا ذکر سنتے تو حضرت ممدوح پر وحشت طاری ہوتی تھی لرزہ بہ اندام ہوجاتے تھے۔ اس خوف کی وجہ سے کثرتِ نوافل کے سوا اہل بیت سے دلی محبت رکھتے تھے تا کہ ان نفوس قُدسیہ کے اتباع کی وجہ غضبِ الہی سے محفوط رہیں، جب ان نفوس قدسیہ کا ‘ذکر آتا تو تڑپ جاتے تھے۔ خدا کے فضل وکرم سے عوام میں ہر دلعزیزی وعزت حاصل تھی۔ شہرت وہردلعزیزی کے باعث مسائل دریافت کرنے اور معاملات حل کرانے والوں کاتانتا بندھا ہوتا تھا۔ قادرِ مطلق نے حضرت ممدوح کوایک اور نعمت سے سرفراز فرمایا تھا وہ یہ کہ آپ مستجاب الدعوات تھے ۔ چنانچہ دوران درس وتدریس ایک شخص آیا اور کہا کہ میرا بیٹا گھر سے چلاگیا ہے اس کی ماں بہت پریشان ہے اس کی پریشانی دیکھ کر سربہ سجود ہوکر آپ نے یوں دعا فرمائی ’’ اے اللہ کوئی شبہ نہیں، آسمان تیرا آسمان ہے، زمین تیری زمین ہے اور جو کچھ زمین و آسمان کے درمیان ہے وہ بھی تیرا ہے تو اس لڑکے کو یہاں پہنچادے‘‘۔ حضرت ممدوح ابھی سر سجدے سے نہیں اٹھائے وہ شخص کیا دیکھتا ہے لڑکا سامنے کھڑا ہے وہ بڑا خوش ہوا اور حضرت ممدوح کا معتقد ہوگیا۔
خلقت پر شفقت:
حضرت ممدوح کی ذات میں حسنِ خُلق کا پورا حصہ تھا ایک مرید فرماتے ہیں حضرت نے فرمایا مجھ میں جو کچھ دیکھتے ہو قدرت اللہ کے فیوض وبرکات ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مرید، پیر کا مظہر ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ نمازِ عید سے آرہے تھے راستہ میں ایک لڑکا اداس اور آزردہ کھڑا ہوا ہے۔ اس بچے سے پوچھا کہ سب بچے کھیل رہے ہیں میاں تم کیوں نہیں کھیل رہے ہیں۔ بچہ بولا میں یتیم ہوں۔ حضرت نے بچے کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لایا۔ اس سے بہت محبت کرتے تھے اسکی دلجوئی کرتے اولاد کی طرح گھر میں رکھ کر تعلیم دی اور وہ لڑکا بڑا ہو کرحافظ قرآن اور قاری بن گیا۔ آج کل تاج کمپنی مطبع قرآن پاک کی تصحیح کا کام ان کے ذمّہ ہے۔
توحید میں استغراق اور کیفیت جذب وحال:
حضرت ممدوح پر ہر وقت ایک محویت واستغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ موجودات عالم کو بہ نگاہ عبرت دیکھتے تھے اور پھر خدا کی ذات وصفات میں مستغرق ہوجاتے تھے۔ یہی استغراق حضرت کے لئے موجب سکون اور اطمینان ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ رات کے وقت تالاب کے کنارے تشریف لے گئے اور کہنے لگے سبحان اللہ! اے آسمان اور اے پانی تم دونوں کو پیدا کرنے والا کس قدر عظیم الشان ہے۔ جب رات زیادہ تاریک ہوگئی تو آپ کہنے لگے : اے لوگو تم بھی اپنے لئے ایک ایسا محبوب تلاش کرلو جیسا میں نے پالیا ہے۔ میں نے اس کو ایک سونگاہ میں پایا ہے۔ جس کی محبت میں کوئی مشقت نہیں۔ اگر میں اس سے دور ہوں تو مجھ کو قریب کرلیتا ہے اور قریب ہوں تو وہ قریب ترآجاتا ہے۔حضرت ممدوح ہمیشہ جذب وحال سے سرشار رہتے تھے۔ جب آپ سفر کی منازل طے کرتے ہوئے حیدرآباد پہنچے تو صوفیہ کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی تو ایک صوفی بآواز بلند کہہ رہا تھا تیری تھوڑی سی محبت نے عذاب میں مبتلا کردیا۔ جب یہ شدید ہو تو کیا حال ہوگا۔ جو محبت مشترک اور کئی لوگوں میں تقسیم تھی اس کو میرے دل سے سمیٹ لیا گیا تجھے اس غم زدہ انسان پر رحم نہیں آتا جو اس وقت بھی روتا رہتا اور عشق سے ناآشنا بنتا ہے حضرت یہ کلمات سنتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور حاضرین مجلس پر بھی جذب وحال کی کیفیت طاری ہوگئی۔جو اہل اللہ ہوتے ہیں چرخ کی آواز یا بعض معمولی چیزوں سے عبرت لیتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت کہیں جا رہے تھے ایک عورت ملی اس نے حضرت سے پوچھا آپ کہاں سے آرہے ہیں؟ فرمایا: میں پر دیسی ہوں۔ عورت بولی افسوس۔ ’’کیا اللہ موجود ہوتے ہوئے بھی غربت زدہ لوگ پائے جاتے ہیں۔ وہ تو پردیسیوں کا مونس اور ضعیفوں کا مددگار ہے‘‘۔ حضرت، عورت کی زبان سے یہ حکیمانہ فقرہ سن کر رونے لگے۔ عورت نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں۔ فرمایا: میری بیماری جس نے ناسور کا حکم اختیار کرلیا ہے، اسکی جلد ہی دوا مل گئی۔ عورت نے کہا: اگر آپ اس قول میں سچے ہیں تو روئے کیوں؟ حضرت نے فرمایا: کیا آدمی روتا نہیں؟ عورت نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا کسطرح؟ عورت نے جواب دیا: رونے سے دل کو راحت ملتی ہے۔ اگر گریہ وزاری دل کیلئے امن وسکون کا باعث ہے۔ دل کا بھید پوشیدہ رکھنے کیلئے اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ آہ وزاری کو خانہ دل میں چھپائے رکھے۔ آنسو بہانے سے دل ہلکا ہوجاتا ہے۔ اور دل کی سبکساری عقل مندوں کے لئے کمزوری ہے۔ حضرت، اس عورت کی گفت وشنید سے حیران رہ گئے عورت نے پوچھا: کہ اب آپ کا کیا حال ہے، فرمایا کہ آپکے اس کلام پر تعجب ہوتا ہے۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ مجھ کو ایسی بات بتایئے جس سے اللہ تعالی مجھے نفع دے۔ عورت بولی: کیا اب تک جو فائدے ایک حکیم کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں اس کے ہوتے ہوئے زوائد سے مستغنی نہیں ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: زوائد سے مستغنی نہیں ہوں۔ عورت نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں۔ اچھا اپنے رب سے محبت کیجئے اور اس کا اشتیاق کیجئے کیونکہ ایک دن آئے گا کہ وہ اہلِ کرسی کرامت پر ہوئے اولیاء کے لئے جلوہ افروز ہوگا اور ان کو اپنی محبت کا ایک ایسا پیالہ عطا کرے گا اس کے بعد ان کو پیاس ہی محسوس نہ ہوگی۔ حضرت یہ سن کر زار وقطار رونے لگے اور وہ عورت حضرت کو ایسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئی۔
معرفتِ سلوک میں اعلیٰ مقام:
حضرت ممدوح معرفت و سلوک کے جس مقام اعلی پر متمکن تھے اس کا اندازا اس سے ہوسکتا ہے کہ مولانا جمال الدین دامانیؒ آپکے متعلق فرماتے تھے۔ ’’نذر محمدؒ ان لوگوں میں سے نہیں کہ اُن کو کرامات سے آراستہ کیا جائے اور ان کا مقام و حال سے تعارف کیا جائے۔ وہ اپنے وقت کے امام اور یگانہ روزگار گروہ صوفیہ کے سردار ہیں اور سب کو ان کے ساتھ عینیت واضافت اس لحاظ سے ہے کہ وہ سب سے پہلے آدمی ہیں جو باتیں اب تک اشاروں میں کی جاتی تھیں آپ نے صاف لفظو ںمیں بیان کردیا‘‘۔ حضرت اپنے مقامات کی نسبت خود فرماتے تھے کہ ’’میں نے تین سفر کئے اور تین علم حاصل کئے۔ پہلے سفر میں میں نے وہ علم حاصل کیا جس کو خاص وعام دونوں نے قبول کیا۔ دوسرے سفر میں میں نے وہ علم حاصل کیا جسکو خاص و عام قبول نہ کرسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منجانب اللہ ایک تیسرے علم کے لئے تیار ہوا انہوں نے جو کچھ حاصل کیا وہ ان کے باطن کے لئے فانی ہے‘‘۔ اوراپنے مریدین پر ان تینوں علموں کی تشریح فرماتے تھے ۔ آپ کا پہلا علم عام علم ظاہری ہے جس کو سبھوں نے قبول کیا۔ دوسرا علم توکل معاملات اور محبت کا ہے جس کو خاص نے قبول کیا۔ تیسرا علم حقیقت جو خاص وعام کے علم وعقل کے دائرہ سے باہر تھا۔ اس بناء پر لوگ اس کو سمجھ نہ سکے تو خدانے خود اپنے خاص فضل سے ایک ایسا گروہ پیدا کیا جو اس دولت سے بہرہ ورہو۔ آپ خود فرماتے تھے، اس علم سے میردل پر جو واردات ہوئے وہ یہ ہیں:
’’آدمی کو یہ خیال رکھنا کہ کہیں لوگوں کے عیبوں کی چھان بین میں خود کو اپنے عیبوں کو دیکھنے سے غافل رکھے۔ یقین کرو کہ تمہیں لوگوں کیلئے نگران بنا کر نہیں بھیجا گیا اور اپنے وارداتِ قلبی کو یوں فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ محبوب بندہ وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ عقلمند ہو۔ ایک انسان کی غایت عقلمندی اور تواضع کی علامت یہ ہے کہ کوئی شخص اسکو کوئی بات بتلائے تو اسکو غور وخوص سے سنے اگرچہ کہ وہ اسے پہلے سے جانتا ہو اور جب کوئی حق پیش کرے تو فوراً قبول کرے اگرچہ یہ بات کہنے والا مرتبہ میں اس سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی خطا سرزد ہوجائے تو بے چوں چرا اس کا اقرار کرے۔ اور تیسری جگہ واردات یوں فرمایا تھا کہ انسان میں فساد چھ چیزوں سے آتا ہے:
۱۔ آخرت کا عمل کرتے وقت نیّت کا کمزور ہونا۔
۲۔ اپنے بدن کو شیطان کے حوالے کرنا۔
۳۔ موت کے نزدیک ہونے کے باوجود حرص وہوس کی درازی چاہنا۔
۴۔ خواہشات نفسانی کی پیروی کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ترک کردینا۔
۵۔ مخلوق کی رضا مندی کو خدا کی رضا مندی پر ترجیح دینا۔
۶۔ بزرگوں کی لغزشوں کو اپنے لئے حجت بنانا اور ان کے ہنروں کو دفن کردینا۔
زندگی کا لطف تو ایسے باہمت لوگوں کے ساتھ بسر کرنے سے ہوتا ہے جن کے دل میں تقوی وپرہیز گاری ہو جن کو ذکرِ مولیٰ سے نشاط وانبساط حاصل ہو۔ ایسے لوگوں سے دوستی کرے جن سے محبت سے تبدیلی ہوسکتی ہے اور محبت کا صحیح لطف حاصل ہو۔ ایسے دوست سے خدا کی محبت پیدا ہو اسکی علامت یہ ہے کہ اخلاق وافعال اور اوامرو نواہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو حبیبِ خدا ہیں ان کا تابع اور پیرو ہو۔ یہ اس کے واردات ہیں جو مریدین ومعتقدین کے لئے درسِ عمل دیتے ہیں بشرطیکہ اس پر عمل کرنے کی صحیح نیت ہو۔
اہل وعیال :
سراج العارفین کو اپنے اہل وعیال کے حالات پر توجہ اور ان کے حقوق کی پابجائی کا خیال رہتا تھا۔ برتاؤ دو قسم کا ہوتا تھا۔ بیوی کی قدر اور ہمّت افزائی کی جاتی تھی غلطیوں اور کوتاہیوں پر بلا توقف تنبیہ کرتے تھے۔ حضرت ممدوح کے پانچ صاحبزادے اور د و صاحبزادیاں ہیں جن کی کماحقہٗ تعلیم وتربیت فرمائی۔ خصوصی طور پر خلف اکبر نیاز محمود خاں کو بیعت سے مشرف فرماکر روحانی تربیت سے آراستہ کرکے خلافت سرفراز فرماکر جانشین مقرر فرمایا۔ دوسرے صاحبزادے جن کا نام فیض احمد تھا طالب علمی کے زمانے میں ۱۹ سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ تیسرے صاحبزادے جن کا نام نور احمد خاں صاحب ہے مدرسہ نظامیہ حیدرآباد سے فارغ التحصیل ہیں اور حضرت ممدوح کی ہدایت پر گامزن ہے۔ چوتھے صاحبزادے ظہور احمد خاں حضرت ممدوح کے زیر تربیت رہ کر تصوف ومسائل دینی وروحانی کی تکمیل فرمایا۔ پانچویں صاحبزادے عبدالحمید خاں حضرت ممدوح کے تبلیغی کاموں کا ذوق رکھتے ہیں۔ دونوں صاحبزادیاں حضرت ممدوح کے رشد وہدایات پر گامزن رہ کر تبلیغی کاموں میں مصروف ہیں۔
خلفاء ومریدین:
حضرت قبلہ کے مریدوں اور شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ ہر دل عزیزی کی وجہ آپ کی ذات کو خاص وعام نظر میں مرکز بنادیا۔ جن لوگوں کا تعلق بیعتِ ارادات کا تھا ان کی صلاحیتوں کے مطابق زیورِ سلوک سے آراستہ فرماتے تھے۔ خلفاء کی صحیح تعداد معلوم نہ ہوسکی مگر بعض قابلِ ذکر ہیں۔
حاجی مولوی نورا للہ قادری صاحبؒ مولوی کامل کو کرنول اور اسکے اطراف واکناف میں تبلیغ واشاعت دین کا ایک مقام حاصل ہے گویا کہ کرنول کی فضاء آپکی کرنوں سے منوّر ہے۔
ایک خلیفۂ کامل مولوی محی الدین پاشاہ قادری صاحب حیدرآبادی جو جذب حال میں سرشار رہتے ہیں مرشد کے ارشادات پر گامزن ہیں۔
اِن کے علاوہ مولوی عبداللہ خاں صاحب نقشبندی اورنگ آبادی، میراں حسینی صاحب، جعفر علی صاحب نقشبندی بیدر شریف، رکن الدین صاحب جنیدی، بیدر شریف، مولوی عبدالہادی صاحب، الحاج مولوی عبدالعزیز صاحب نقشبندی، حاجی غلام علی صاحب اثرؔ نقشبندی، غلام رسول صاحب نقشبندی یادگیری کے علاوہ اور تعلقہ جات میں آپ کے بکثرت مریدین ہیں۔
حاجی محمود شریف صاحب گلبرگوی، محمود خاں صاحب ضلع محبوب نگر، حاجی مولوی طاہر حسین صاحب حیدرآبادی، محمد حنیف صاحب ادھونی، امیر علی صاحب ادھونی، مرشد کے تعلیمات و ارشادات کا تبلیغی کام کما حقہ انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے خلفاء ومریدین اپنی اپنی ذمّہ داری کو پورا کررہے ہیں۔ حضرت کے ایک خلیفہ حاجی امیر علی صاحب نقشبندی قادری جو دعوت دین اسلام کا والہانہ جذبہ رکھتے ہیں، پیر ومرشدکے حسبِ ارشاد مختلف دیہات کا دورہ کرتے ہیں اور لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف بلاتے اور رہبری ورہنمائی کرتے ہیں۔ اس پیرانہ سالی میں بھی مرشد کے حکم تعمیل میں سفر کرتے ہیں اور ہر وقت ہر آن دامے درمے قدمے قلمے پورا کرتے رہتے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز صاحب جو حضرت کے شاگرد اور خلیفہ ہیں اس پیرانہ سالی میں ہر اتوار کو مدینۃ الحاج میں درس قرآن، اور تفسیر سے عوام کو فیض پہنچارہے ہیں۔ حکیم محمد ابراہیم صاحب وظیفہ یاب حیدرآباد قابل ذکرہیں۔ حضرت قبلہ کے خلیفہ مولوی حکیم پاشاہ محی الدین صاحب عامل نقشبندیہ سلوک کے مدارج طے فرماچکے ہیں اور سلسلہ مریدی اور خدمت خلق جاری ہے۔ بفضلِ خدا دعا مرشدی ومولائی ہر اتوار کو ختم خواجگان کا سلسلہ مرشد کے خلف اکبر الحاج نیاز محمود خاں اب تک جاری وساری ہے۔ سلسلہء نقشبندیہ کے ذکر اذکار ومراقبہ وذکرِ جہری خفی بلاناغہ اتوار کو ہوتا ہے۔ درود و سلام سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہوتا ہے ۔ ہر آن قبول ہوتا رہے۔ آمین۔(۲۲)
مولانا محمد عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری
(۱۹۲۵ء وفات)
ملکاپور (برار) کے ایک مذہبی اور علم دوست خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن زندگی کا بڑا حصہ حیدرآباد میں بسر ہوا اور ایک مدت تک مدرسۂ اعزہ سے وابستہ رہے۔ فارسی اور عربی کے عالم تھے اور اپنے عہد کے زبردست محقق اور مورخ سمجھے جاتے تھے۔ ان کا کتاب خانہ بڑا شاندار تھا جس میں دوادین اور بیاضوں کے علاوہ دکن اور ہندوستان کی سینکڑوں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تاریخیں محفوظ تھیں۔ بقول عماد الملک یہ ایک ایسا ذخیرہ تھا جو ان سے پہلے کسی مورخ کو نصیب نہ ہوسکا۔ موسیٰ ندی کی طغیانی میں یہ بیش بہا ذخیرہ تباہ ہوگیا۔
مولانا عبدالجبار خاں نے اپنی زندگی تاریخ دکن کی تحقیق و تدوین کے لیے وقف کردی تھی اور برسوں کی عرق ریزی اور جگرکاوی کے بعد ’’محبوب التواریخ‘‘ کا سلسلہ مرتب کیا جو پانچ جلدوں اور آٹھ حصوں پر مشتمل تھا۔ محبوب الوطن (تاریخ سلاطین بہمنیہ)محبوب الزمن (تذکرہ شعرائے دکن) اور محبوب ذی المنن (تذکرہ اولیائے دکن) اسی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کتابوں کی اہمیت کا اندازہ نواب عمادالملک کی اس رائے سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے مولف کی مالی امداد کے سلسلے میں دی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا ’’یہ تاریخ ایسی شرح اور مفصل لکھی جارہی ہے اور اس قدر تحقیق کے ساتھ کہ آج تک کسی نے نہیں لکھی۔ دفتر گزیٹر خاص اس کام کے واسطے سرکار سے تقرر ہوا تھا۔ باوجود تین لاکھ خرچ کے وہ کام نہیں ہوسکا جو مولوی صاحب کررہے ہیں۔ جب یہ تاریخ کامل ہوکر طبع ہوجائے گی عام طور پر بہت ہی کارآمد ہوگی اور اس عہد حکومت کی ایک یادگار قائم کردے گی‘‘۔ 
نواب عماد الملک کی اس رائے میں مبالغہ نہیں۔ آج بھی جب کہ تحقیق بہت آگے نکل چکی ہے دکن کی تاریخ اور خاص طور پر دکنی ادب پر کام کرنے والے ’’محبوب الزمن‘‘ سے استفادہ کے بغیرایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے دکن کے بیسیوں شاعروں کو گم نامی سے بچالیا اور ان کے حالات اور کلام کو اپنی تصانیف میں محفوظ کردیا۔ انہیں بعض نقادوں نے دکن کا آزاد کہا ہے اور اس میں شبہ نہیں وہی اس کے مستحق ہیں۔ جب تک اردو ادب زندہ ہے ان کا نام بھی زندہ رہے گا؎
دکن زندہ کردم بایں آرزو
کہ نامم بماند دریں چار سو(۲۳)
مولانا عبدالجبار خاں صوفی نے علامہ یوسف اسماعیل نبھانی کی عربی میں لکھی گئی سیرت النبی کاانتہائی فصیح بلیغ اورسلیس ترجمہ شمایل الرسول کے نام سے کیا ہے جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مقدمہ میں اپنے استاذ محترم حضرت شیخ الاسلامؒ کا تذکرہ انتہائی والہانہ انداز میں کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔ 
’’اس کتاب میں بعض ایسے دشوار اور مشکل مقامات تھے کہ موارد استعمال لغات میں لا محالہ تشکیک کااندیشہ تھا اسکی تحقیق خاص خاص مقام پر بحر علوم عقلیہ و نقلیہ،کاشق معضلات احادیث نبویہ، محی سنتِ سنیہ مصطفویہ اسوہ علمائے ربانی، قدوئہ کملائے زمانی، رئیس المفسرین، تاج المحدثین، الفاضل الفاصل بین الحق والباطل، ذو المجد والتفاخر مولنا مولوی معنوی محمد انوار اللہ خان بہادر استاد شہزادئہ بلند اقبال سے کی گئی ہے۔ 
حررہ من لہ الافتقار إلی مولٰہ المنان محمدعبدالجبار خان الشھیر بالآصفي النظامی سر رشتہ دار دفتر پیشی قدر قدرت اعلحضرت حضور پر نور نظام الملک آصفجاہ خلد اللہ ملکہ و ابد سلطانہ ۱۱؍جمادی الاول ۱۳۱۴؁ ہجری‘‘ ۔ (۲۴ )
حضرت سید شاہ محمدحسینی القادری ؒ
آپ کی ولادت ۶؍ربیع الثانی ۱۲۷۹؁ھ بمقام قلعہ ورنگل ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید محی الدین او روالدہ ماجدہ سالار بی صاحبہ تھیں ۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام علی رضاؓسے جاملتا ہے ۔ آپ سادات حسینی تھے، آپ کے آباواجداد بیجاپور سے فوج کے ہمراہ طبیب کی حیثیت سے آئے تھے ، آپ کے والدماجد نے پیشہ تجارت اختیار کیا ۔ اسطرح آپ کا بچپن حیدرآباد میں گذرا اور یہیں تعلیم و تربیت پائی چنانچہ اس زمانے کے مشہور عالم دین عارف باللہ حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی چشتی صابری ؒ المعروف بہ فضیلت جنگ سے شرف تلمذ حاصل کیا ،حضرت کے فیض صحبت کے نتیجہ آپ نے پیر طریقت حضرت سید شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانیؒ کے دست حق پر ست پر بیعت کی ایک عرصہ تک منازل سلوک طئے کئے حضرت کے وصال کے بعد حضرت کے صاحبزادہ عارف باللہ حضرت شاہ سیدعبدالرحیم حسینی القادری الملتانیؒ نے آپ کو سلسلہ قادریہ ملتانیہ میں خلافت سے سرفراز فرمایا، آپ بیت اللہ شریف او رمدینہ منورہ کی زیارت کے شوق میں زادراہ کے بغیر روانہ ہوئے جب آپ کی والدہ ماجد ہ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے ممبئی پہونچ کر زاد راہ کی تکمیل فرمائی ، آپ حج بیت اللہ شریف سے مشرف ہوکر وطن واپس ہوئے بعدازاں آپ نے عقد فرمایا آپ کی زوجہ محترمہ کا اسم گرامی حلیمہ بی صاحبہ تھا ، اس زمانے میں آپ حضرت مولانا فضیلت جنگ ؒ کے صاحبزادوں کے اتالیق تھے ، جب بانی جامعہ نظامیہ حضرت فضیلت جنگ ؒ نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا تو آپ بھی حضرت کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ دوسری مرتبہ حج بیت اللہ شریف اور مدینہ منورہ کی زیارت سے مشرف ہوئے حج بیت اللہ کے بعد حضرت فضیلت جنگ ؒ نے اپنے پیرومرشد حضرت شاہ محمد امد اد اللہ مہاجر مکی ؒ کی صحبت بافیض سے استفادہ کا ارادہ فرمایا تو آپ بھی حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے دست حق پرست کے طالب ہوئے کامل دو سال تک پیر و مرشد کے فیضان صحبت سے مستفید ہوئے ، تعلیم باطنی کے تکمیل پر آپ کو حضرت مہاجر مکیؒ نے چاروں سلسلہ چشتیہ ، قادریہ نقشبندیہ، سہرو ردیہ میں خلافت سے سر فراز فرمایا بعد ازاں مدینہ شریف کے حضرت شیخ احمد اللہ مدنی خالص القادری ؒ نے سلسلہ القادریہ میں خلافت عطاکی۔ حرمین شریفین سے واپسی کے بعد آپ کی زندگی کا وہ دور شروع ہوتا ہے جبکہ آپ کی توجہ ذات سے ہٹ کر قوم کی طرف ہوجاتی ہے۔ اس وقت ورنگل کے مسلمانوں میں ہر قسم کی جہالت ، بداعمالی اورعلم دین سے دوری عام تھی ازالہ جہالت واشاعت علم دین کی غرض سے آپ نے ۱۳۹۸؁ھ میں ایک ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ قائم کیا اس میں السِنہ مشرقیہ رشیدیہ خاص ، منشی ، منشی عالم ، منشی فاضل کی جماعتیں قائم کیں ، اس کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے تھا آپ کی مساعی جمیلہ سے مدرسہ دن بہ دن ترقی کرتا گیا، ورنگل کے اطراف واکناف سے طلباء علم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے یہ مدرسہ آج ترقی کرتاہوا ’’اسلامیہ ڈگری کالج‘‘ کے نام سے قوم وملک کی ترقی کیلئے کوشاں ہے قیام مدرسہ کے علاوہ آپ نے ۱۳۱۷؁ھ میں ایک عالیشان مسجد بھی تعمیر کرائی جو حضرت حاجی صاحب قبلہ کے نام موسوم ہے مدرسہ ومسجد کے علاوہ ایک عالیشان کتب خانہ بھی آپ قائم کیا جس میں فقہ تفسیر، تصوف کی گرانقدر کتب جمع کیں  بعد میں آپ نے یہ کتب خانہ مدرسہ اسلامیہ کے لئے وقف کردیا حضرت سید شاہ حبیب اللہ حسینی القادری الملتانیؒ کے ارشاد کے مطابق آپ نے سلسلہ بیعت کا آغاز کیا او ربہت سے حضرات کو داخل سلسلہ کیا، اپنے مرید ین کو تعلیم باطنی کے لئے آپ بعد عشاء مجالس منعقد کیا کرتے تھے ۔ اس طرح آپنے ورنگل کے مسلمانوں کو علم باطن سے مستفید فرمایا ، اس کے علاوہ حضرت حاجی صاحب قبلہ نے مسلمانان ورنگل کے تنازعات کی یکسوئی  کے لئے ایک ’’مجلس اہل اسلام ورنگل‘‘ قائم کی آپ تاحیات اس کے میر مجلس تھے او راس کے تحت ہر محلہ میں ایک میر محلہ اور ایک محلہ کمیٹی قائم کی گئی جو مسلمانان مرہٹواڑہ کے معلاملات کی یکسوئی کرتی آخری زمانے میں آپ کا میلان سماع کی طرف زیادہ ہوگیا قاضی پیٹ کے عرس حضرت شاہ افضل بیابانی ؒ میں تین روزقیام کرکے چوتھے روز واپس ہوتے۔ ہر ماہ ایک روز اپنے مکان میں محفل سماع منعقد کیا کرتے ، آپ ہی نے اپنی مسجد میں سب سے پہلے مجالس دوازدہم شریف اور یازدہم شریف کا آغاز فرمایا نیز حضرت مولائے کائنا ت سیدنا علی ؓ اورحضرت امام حسین ؓ کے مجالس بھی منعقد کیا کرتے تھے۔ غرض آپ کی ساری زندگی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ تھی۔ تواضع انکساری طبیعت کا خاصہ تھی ، آپ کے شاگردوںکا بیان ہے کہ آپ سے کوئی حرکت خلاف سنت نبوی سرزدہوتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا ۔ آخری زمانہ میں آپ مرض فالج میں مبتلا ہوئے ۲۹؍ربیع الاول ۱۳۴۲؁ھ بروز جمعہ بوقت نماز فجر وصال فرمایا ۔ بعد نماز جمعہ آپکی تعمیر کردہ مسجد میں تدفین عمل میں لائی گئی ، آپ کی نماز جنازہ میں حضرت سید شاہ غلام افضل بیابانی ؒ قاضی سرکار ورنگل نے شرکت کی ہر سال ۲۸؍ ۲۹؍اور۳۰؍ ربیع الاول کو آپ کا عرس مبارک منایا جاتا ہے۔ (۲۵)
حضرت قاضی مولانا میر انور علی صاحبؒ 
ہم آپ کے خاندان والا دودمان کے ذکر سے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ قضاء ت بلدہ کی گرانقدر خدمت کی مختصر سی تاریخ ناظرین کرام کی آگاہی کی غرض سے درج کریں۔
قضاء ت بلدہ 
یہ خدمت ایک ایسی اہم خدمت ہے کہ جس کے فرائض انعقاد نکاح فیما بین عاقدین ہے۔ نیز حلفنامہ و طلاق نامہ جات کی تصدیق بر سیاہجات کی تنقیح اور ان کا تحفظ جن پر ثبوت نسب کا دارومدار ہے۔ اگر یہ خدمت نہ ہوتی تو نسب کے ثابت ہونے میں بہت سی دشواریاں پیدا ہوجاتیں قاضی یا نائب قاضی کا کام نکاح خوانی اور سیاہہ جات (جو شرعی دستاویز کا اثر رکھتے ہیں) ترتیب دے کر بصورت نزاع عدالتوں میں پیش کرنا اور شہادت دے کر صحیح فیصلوں میں ممدو معاون ہونا اور قبل از عقد جواز و عدم جو از نکاح و محرمات وغیرہ کی تحقیق کرکے نکاح باندھنا اور تنقیحات سیاہہ کی پوری پوری پابندی کرنا ہے۔ نسب ایک ایسی چیز ہے کہ وراثت کا دارومداد صرف اسی پر ہے اگر کسی کا نسب ہی ثابت نہ ہو تو اس کی وراثت معرض خطر میں پڑجائے گی اس لیے ہماری گورنمنٹ عالیہ نے اس کواہم خدمات قرار دے کر اس پر نہایت متدین و بے لوث اور ذی علم افراد کا تقرر کرکے مناقشات وراثت کا ہمیشہ کے لیے استیصال فرما دیا چنانچہ اس گرانقدر خدمت پر سب سے پیشتر ۱۱۵۰؁ھ میں شیخ نصر اللہ صاحب کا تقرر عمل میں آیا۔ صاحب موصوف نے چند سال تک اس اہم خدمت کو با حسن الوجوہ انجام دے کر انتقال کیا ان کے بعد بہ عہد حضرت مغفرت مآب قاضی خلیل منصب قضاء ت سے سرفراز ہوئے۔ انہوں نے بھی چند سال کی انجام دہی خدمت کے بعد یکم رجب المرجب ۱۱۸۷؁ھ کو عالم جاودانی کی راہ لی۔ بعد ازاں قاضی محمد طاہر صاحب کو اس منصب جلیلہ سے سرفرازی بخشی گئی لیکن ان کو اس خدمت پر مامور ہوکر چند ماہ بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ بتاریخ ۷ صفر المظفر ۱۱۸۷؁ھ ان کی علیحدگی اس لیے عمل میں آئی کہ ان کی رائے اور مرد ھے محمد ہاشم کے اتفاق سے بعض مسلمانوں نے دہونڈورام پنڈت پر دھان وکیل کے بتوں پر حملہ کیا تھا۔ ان کی علیحدگی کے بعد حافظ محمد صاحب مدرس مکہ مسجد بتقریب جشن عیدالفطر ۱۱۹۵؁ھ میں خدمت قضاء ت بلدہ سے سرفراز فرمائے گئے۔ انہوں نے اپنی مفوضہ خدمت کو تادم زیست نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے کر انتقال کیا۔ ان کے بعد ۱۹؍جمادی الاول ۱۱۹۹ھ؁ کو بتقریب جشن سالگرہ مبارک مولوی معین الدین خاں صاحب المخاطب بہ نواب معین الاسلام خاں بہادر قاضی بلدیہ مقرر ہوئے اور تقریباً (۱۲) سال تک انہوں نے خدمت مفوضہ کو انجام دے کر ۱۲۱۱ھ؁ میں وفات پائی۔ ان کے قائم مقام قاضی محمد یوسف صاحب شاہجہاں پوری شریعت پناہ بلدہ قرار پائے۔ صاحب تاریخ گلزار آصفیہ نے آپ کا ذکر ان شاندار الفاظ میں کیا ہے۔ 
’’قاضی محمد ذوالفقار خاں قاضی بلدہ، فرخندہ بنیاد فرزند ارشدشریعت پناہ بلدہ قاضی محمد شریعت اللہ خاں اند قاضی محمد یوسف خاں المخاطب بہ شریعت اللہ خاں در عہد حضرت غفراں مآب از بلدہ شاہجہاں آباد وار د بلدہ حیدرآباد گردید۔ بعد رحلت قاضی معین الاسلام خاں باستصواب میر عالم خان بہادر بملاقات اعظم الامرا ارسطو جاہ مدار المہام سرکار رسیدہ باریاب حضور پر نور گشتہ بسیاربسیاد پسند خاطر مبارک شد۔ بخدمت جلیل القدر قضاء ت ممتاز ومباہی گردید ندو تامدت حیات خود بامورات محولہ خویش آنجنابان پر داختند کہ مورد تحسین و آفرین شاہانہ و مصدر الطاف خسروانہ گشتہ مشہور آفاق شدند و انتظام عدل وداد تابصورت پذیرمی گردید کہ مزید برآں متصور بنا شد در ۱۲۰۰ھ؁ یکہزار و دوبست ہجری جہان فانی را پدر ودفرمود۔ اما محمد ذوالفقار خان بعد رحلت پدر عالی قدر خویش از فرط الطاف حضرت مغفرت منزل برمسند نیابت رسالت سرفراز و ممتاز و مباہی گشتہ ایں مقدمہ نازک تر راور میزان ادراک ہر دوپلہ مخالف یک دیگر سنجیدہ از حق و باطل بعدل تقدیری چناں بتعدیل در آور دکہ تا این زبان گاہی از زبان آوری درہیچ مقدمہ خرد و بزرگ حرفی غیر از شکرگزاری خدا وند نعمت بگوش و ہوش، ہیچ کس نرسید تمامی خلقت خدا شکریہ ایں عطیہ کبریٰ حضور پر نور و موہبت عظمیٰ روز و شب بزبا نہا جاری دار والغرض آں قدوہ علماء متقدمین وزبدہ فضلای متاخرین فرد فرید روزگار است کہ مثلش دراقلیم ہند و دکن بنظر نہ آمد بابلا دو امصار واقالیم دیگرچہ بودہ باشد عالی منصبی بلند حوصلہ سیر فکر اقربا پرور مآل اندیش بجمیع صفات‘‘
’’ بزرگانہ موصوف‘‘ (ملاحظہ ہو تاریخ گلزار آصفیہ صفحہ (۴۲۷) ذکر نواب میر نظام علی خاں بہادر آصف جاہ ثانی)
صاحب تاریخ مکھن لال نے بھی اپنی تاریخ کے صفحہ ۷۳ و ۷۴ پر نہایت آبدار الفاظ میں آپ کا ذکر کیا ہے۔
الحاصل یہ کہ ایسی بہمہ صفت متصف ہستی کا انتقال بعمر۸۰ ہشتادسالگی ۱۲۳۶؁ھ میں ہوگیا آپ کے بعد حسب فرمان حضرت مغفرت منزل قاضی ذوالفقار خاں منصب قضاء ت سے ممتاز و سرفراز ہوئے اور تقریباً (۳۶) سال تک آپ نے اس خدمت جلیلہ کو بطریق احسن انجام دے کر ۹ شوال ۱۲۶۰؁ھ روز سہ شنبہ انتقال فرمایا۔ آپ کی تجہیز و تکفین کے اخراجات کے لیے اعلیٰ حضرت نواب میر فرخندہ علی خاں بہادر ناصر جنگ ناصر الدولہ آصف جاہ رابع غفران منزل نے مبلغ ایک ہزار روپئے اپنے جیب خاص سے مرحمت فرمائے۔
آپ کے انتقال کی تاریخ۔ تاریخ ’’دبدبۂ نظام‘‘ کے باب چہارم میں اس طرح درج ہے۔ 
’’قاضی عادل مُرد‘‘
۱۲۶۰ھ
آپ کو چونہ کوئی اولاد نرینہ نہ تھی اس لیے خدمت قضاۃ بلدۂ فرخندہ بنیاد پر آپ کے داماد قاضی مولوی میر دلاور علی صاحب شریعت پناہ حسب الحکم سرکار مامور و کارگذار رہے۔
اب ہم اس تذکرہ کا آغاز قاضی میر دلاور علی صاحب مرحوم سے کرتے ہیں جن کے وارث و چشم و چراغ ہمارے معزز و ممتاز صاحب تذکرہ ہیں جن کا نام نامی زیب دہ عنوان ہے۔
قاضی مولوی میر دلاور علی صاحب مرحوم
آپ میر محمد عظیم صاحب کے فرزند، میر محمد عوض صاحب کے پوتے اور قاضی ذوالفقار خاں مرحوم کے داماد تھے۔ آپ کی شادی دختر نیک اختر قاضی ذوالفقار خاں مرحوم سے ۱۲۵۴ھ؁ میں ہوئی اور آپ بعد وفات اپنے خسر مرحوم کے ان کے قائم مقام قرار پائے اور تقریباً (۵۱) سال تک اپنی مفوضہ خدمت کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے کر بالآخر ۲۲ جمادی الآخر ۱۳۱۱ھ؁ روز دوشنبہ بوقت مغرب انتقال فرمایا۔ آپ کی تجہیز و تکفین دوسرے روز عمل میں آئی۔
آپ کو نامدار النساء بیگم صاحبہ مرحومہ صبیۂ قاضی ذوالفقار خاں مرحوم کے بطن سے (۴) اولادیں ہویں۔ تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی۔
(۱) مولوی قاضی میر سکندر علی خاں مرحوم (۲) مولوی میر مظفر علی مرحوم (۳) مولوی میر اکبر علی مرحوم اور صاحبزادی رحیم النساء بیگم عرف حاجی بیگم صاحبہ جن کی شادی والد کے حین حیات ہی میں نواب اعظم جنگ مرحوم خلف شیر افگن جنگ نبیرۂ سالار الدولہ سالار الملک سے ہوئی۔ آپ نہایت نیک نفس، ہردلعزیز، خوش اخلاق، ملنسار، صاحب زہد و ورع اور بڑی خوبیوں کے حامل قاضی تھے۔
قاضی میر سکندر علی صاحب مرحوم
آپ قاضی میر دلاور علی مرحوم کے خلف اکبر میر محمد عظیم کے پوتے اور قاضی ذوالفقار خاں مرحوم کے نواسے تھے۔ ابتداً آپ اپنے والد مرحوم کے حین حیات میں بحیثیت نائب خدمت قضاء ت ۱۲۸۹ھ؁ تک انجام دیت رہے۔ من بعد استعفیٰ پیش فرماکر خدمت مددگاری مال ضلع گلبرگہ شریف پر مامور و کارگذار ہوئے۔ آپ کی خالی شدہ خدمت نیابت پر مسیح الدین خاں المخاطب محبوب نواز الدولہ بہادر کا تقرر عمل میں آیا۔ ۱۳۱۱ھ؁ میں جب آپ کے والد بزرگوار نے انتقال فرمایا تو حسب فرمان خسروی آپ اپنے والد کے قائم مقام یعنی شریعت پناہ بلدہ قرار پائے۔
آپ کی شادی ۲۹ رجب المرجب ۱۳۰۲ھ؁ کو نواب مولوی حافظ ضیاء الدین خاں مرحوم کی صاحبزادی افضل النساء بیگم صاحبہ سے ہوئی جن کے بطن سے آپ کو تین صاحبزادے ہوئے۔ صاحبزادہ (۱) مولوی قاضی میر محمد انور علی صاحب (۲) مولوی میر محمد محبوب علی صاحب اور (۳) مولوی میر محمد یٰسین علی صاحب عرف میر اکرم علی صاحب مرحوم۔
آپ اپنے والد مرحوم کی طرح ہر دلعزیز، رحم دل، مردم شناس، حق گو، راستباز، خلیق، ہمدرد، حق آگاہ، متقی، ملنسار، نیک خصلت، خجستہ طبیعت، ہمدرد قوم و ملت شریعت پناہ بلدہ تھے۔ افسوس کہ ایسی جامع حسنات و حمیدہ صفات ہستی نے ۱۷؍ ذی الحجۃ الحرام ۱۳۱۳؁ھ کو اس دنیائے ناپائدار سے دار بقا کی راہ لی۔ 
قاضی میر محمد انور علی صاحب
آپ قاضی میر سکندر علی صاحب مرحوم کے خلف الصدق قاضی میر دلاور علی صاحب مرحوم کے نبیرہ اور نواب مولوی حافظ محمد ضیاء الدین خاں مرحوم کے نواسے ہیں۔ آپ ۲۶؍رجب المرجب ۱۳۰۳؁ھ روز یکشنبہ پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کے زیر نگرانی قابل اور لائق اساتذہ مثلاً قاضی شریف الدین صاحب مرحوم مصحح دائرۃ المعارف النظامیہ مولوی رکن الدین صاحب مرحوم مفتی دارالافتاء مدرسۂ نظامیہ اور نواب فضیلت جنگ بہادر مرحوم سے نہایت اعلیٰ پیمانہ پر حاصل فرمائی۔ آپ مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل ہیں اور نان جوڈیشل بھی بدرجہ اعلیٰ آپ نے کامیاب فرمایا۔ سیاق و سباق سے ماہر علم الکلام ، حدیث، صرف و نحو، معانی و منطق اور تاریخ و سیر پر اچھا عبور رکھتے ہیں۔ فن نسق و نستعلیق میں بھی کافی دستگاہ حاصل ہے۔ اساتذہ کے تحریری نمونوں کو جمع کرنے کا آپ کو بیحد شوق ہے۔ آپ کے قلم میں خدا داد قوت ہے۔ آپ کی طرز تحریر اساتذہ کی تحریر کے ہم پلہ ہے۔ خوشنویسان حیدرآباد دکن میں کوئی آپ کے مقابل ٹہیرنہیں سکتا۔
جاگیرات و خدمات
آپ کے جاگیرات تعلقہ میدک اور باغات میں ہیں۔ آپ کے جاگیرات ہیں۔ (۲) مواضع ہیں۔ ایک موضع بھوم پلی اور موضع لنگم پلی۔ جاگیرات کی آمدنی تخمیناً پندرہ ہزار روپئے سالانہ ہے۔ علاوہ اس کے خدمات قضاء ت کی تنخواہ (صماء) روپیہ ماہانہ بھی آپ کو ملتی ہے۔ حق نکاحانہ سے بھی آپ کو سالانہ ساڑھے تین ہزار روپئے کی آمدنی ہے۔ اعلیٰ حضرت قدر قدرت حضور پر نور خلد اللہ ملکہ و سلطنت و علیا حضرتہ ملکہ دکن مدظلہا (والدۂ ماجدۂ شاہزادگان والاشان) کے نکاح خوانی کا شرف آپ کو حاصل رہا ہے۔ امرائے عظام کی تقاریب میں آپ مدعو کئے جاتے ہیں۔ آپ کی جانب سے حدود بلدہ میں گیارہ نائبین کار گزار ہیں۔
اخلاق حمیدہ
آپ نہایت سادگی پسند اور خاموش زندگی بسر فرماتے ہیں۔ نہایت خلیق، ملنسار، متین واقع ہوئے ہیں۔ ہر کسی سے بکشادہ پیشانی پیش آتے ہیں۔ اہل علم و فن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مردم شناسی میں اپنی آپ نظیر ہیں۔ الحاصل یہ کہ بمصداق الولد سر لابیہ  آپ اپنے والد مرحوم کے قدم بہ قدم ہیں۔ آپ کا مشغلہ علاوہ کاروبار خدمت قضاء ۃ و جاگیر کے مطالعہ کتب دینی و فنی ہے۔
شادی اور اولاد
آپ کی شادی ۲۹ ربیع الثانی ۱۳۲۸؁ھ کو نواب عباس علی خاں بہادر رئیس کرنول کی صاحبزادی نوابہ احمد النساء بیگم صاحبہ مرحومہ سے ہوئی جن کے بطن سے آپ کو دو صاحبزادیاں ہیں (۱) نوابہ فرحت النسا بیگم صاحبہ اور (۲) نوابہ فاطمۃ النساء بیگم صاحبہ۔ اول الذکر صاحبزادی کی شادی غرّہ  رجب المرجب ۱۳۴۷؁ھ کو نواب میر غالب علی خاں مرحوم تحصیلدار سے اور ثانی کی شادی ۲۶؍شعبان المعظم ۱۳۴۹؁ھ کو مولوی مرزا نظام علی بیگ صاحب فرزند نواب عثمان یار الدولہ بہادر سے ہوئی۔
محل اول کے انتقال کی وجہ آپ کی دوسری شادی بتاریخ ۲۰؍ربیع الثانی ۱۳۳۶؁ھ نواب احمد الدین خاں صاحب (تعلقہ دار پائیگاہ نواب سر آسمان جاہ مرحوم و مغفور) کی صاحبزادی نوابہ یاقوت النساء بیگم صاحبہ مرحومہ سے ہوئی جن کے بطن سے ایک صاحبزادہ میر مکرم علی اور ایک صاحبزادی معین النساء بیگم صاحبہ ہیں اس صاحبہ کی شادی برادر عم زاد میر محمد واجد علی صاحب فرزند مولوی میر محمد محبوب علی صاحب غرہ جمادی الاول ۱۳۵۴؁ھ کو ہوئی۔
آپ کے چاہیتے فرزند میر محمد مکرم علی عرف بیدار بادشاہ ہیں جو ۲۹؍ شعبان المعظم ۱۳۳۷؁ھ کو پیدا ہوئے۔ اپنے والد ماجد کے زیر نگرانی قابل اور لائق اساتذہ سے اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کی تحصیل اعلیٰ پیمانہ پر کررہے ہیں۔ آل سینٹس ہال اسکول مدرسہ عالیہ اور سٹی کالج میں بھی شریک ہوکر آپ نے کچھ عرصہ تک تحصیل علم کیا۔ آپ الولد سر لابیہ کے مصداق ہیں۔ رفتار و گفتار میں باپ ہی باپ ہیں۔ چہرہ سے ذکاوت و ذہانت ہویدا ہیں۔ آپ اپنے بزرگوں کا ادب کرتے ہیں اور ہم سنوں سے بمحبت پیش آتے ہیں۔ مثل اپنے والد کے آپ میں غرور نام کو نہیں۔ آپ نہایت ہردلعزیز اور علم کے بیحد شوقین ہیں۔ امید ہے کہ آپ کا یہ شوق آئندہ چل کر مفید نتائج کرے۔ صاحب تذکرہ اپنے اس لائق و فائق فرزند پر جس قدر بھی ناز کریں کم ہے۔ ممدوح کی شادی خواہر عم زاد نامدار النساء بیگم صبیہ مرضیہ میر محبوب علی صاحب سے عزہ ربیع الاول ۱۳۵۴ھ کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ ہوئی۔ تقریب عروسی میں امراء ، عمائدین جاگیرداران و حکام اور دیگر ممتاز افراد شریک تھے۔ 
نوٹ: اس وقت آپ کے نبسہ مولانا قاضی محمد قادر علی فاضل جامعہ نظامیہ ،نائب صدر قاضی کی حیثیت سے1984ء اور صدر قاضی کی حیثیت سے 1999ء   سے تاحال خدمات قضاء ت شریعت پناہ بلدہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ مولانا موصوف نے راقم کی درخواست پر سیاہجات دکن (ماڈل نکاح نامہ) سے متعلق قدیم تاریخی ریکارڈ اپنے دفتر سے فراہم کیا جو آپ کے شکریہ کے ساتھ اس کتاب میں شریک کیے جارہے ہیں۔ (۲۶)
حضرت مولانا حافظ سید محمد حسین نقشبندی قادری ؒ
مولانا حافظ و قاری سید محمد حسین نقشبندی قادری ؒ کے جد اعلیٰ حضرت حافظ سید شاہ منجن غوری چشتی نقشبندی قادری سہروردیؒ جو کہ مغل بادشاہ شہاب الدین محمد غوری کے دور میں افغانستان کے ایک مقام غیور میں پیدا ہوئے۔
مولانا حافظ و قاری سید محمد حسین نقشبندی قادری کے والد بزرگوار حضرت حافظ سید شاہ دوست محمد صاحب چشتی و قادری صوفی منش بزرگ تھے۔مولانا حافظ و قاری سید محمد حسین کی ولادت 7 ستمبر 1896ء میں الٰہ آباد میں ہوئی۔ آپ نجیب الطرفین ہیں۔کمسنی میں آپ نے الٰہ آباد سے حیدرآباد کا رخ کیا اور اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا۔ آپ کی خداداد ذہانت اور عبادت میں ذوق اور  ادب و احترام کی وجہ سے آپ کے اساتذہ آپ کو بہت چاہتے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کے اولین شاگردوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ 
حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے عیدین اور جمعہ کے موقع پر خطابت اور امامت کے لیے بطور خاص آپ کا تقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ حضور نظام آصف سابع آپ کی اقتدا میں جمعہ و عیدین ادا کیا کرتے تھے۔ اس وقت تک مسجد جودی کنگ کوٹھی کی تعمیر عمل میں نہیں آئی تھی۔ شامیانوں میں نماز ادا کی جاتی تھی۔ آپ نے 40 سال تک شاہانہ اعزازکے ساتھ امامت و خطابت فرمائی ۔ نیز جامعہ نظامیہ اور سرکاری عالی کی محکمہ تعلیمات کے تحت مختلف مدارس میں تدریسی خدمت بھی انجام دی۔ آپ عربی، فارسی اور اردو کے جید عالم تھے۔ سادہ لباس ، سادہ غذا، سادہ زندگی کو ترجیح دیتے تھے۔ آپ حافظ قرآن اور خوش الحان قاری بھی تھے اور افراد خاندان میں ’’حافظ صاحب‘‘ سے معروف و مشہور تھے۔ دو مرتبہ آپ نے حج و زیارت نبوی ﷺ کی سعادت حاصل کی۔ اعلیٰ حضرت حضور نظام نے اپنے صرف خاص سے آپ کو مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے روانہ فرمایا۔ آپ نے اتباع نبوی میں نکاح فرمایا۔ آپ کے 2 فرزند مولانا سید مشتاق حسین قادری مرحوم اور مولانا سید شاہ مختار حسین قادری صاحب اور 5 دختر ہیں۔ اپنے تلامذہ اور فرزندوں کو ہمیشہ اللہ پر اعتماد اور دین کی درد مندی کا درس دیا کرتے تھے۔ 85 سال کی عمر میں آپ کا وصال بتاریخ 8 اکتوبر 1966ء مطابق 22 جمادی الثانی 1386ھ جو خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یوم وصال ہے، کو ہوا۔ اعلیٰ حضرت آصف سابع خطہ صالحین میں آپ کی تدفین چاہتے تھے لیکن آپ کی وصیت کے مطابق تجہیز و تکفین میں جلدی کرکے نماز عشاء کے بعد دریچہ بواہیر تکیہ حمدو میاں روبرو مسجد معراج النساء تدفین عمل میں آئی۔ آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزداہ مولانا سید مشاق حسین قادری مرحوم مسجد جودی میں خطابت و امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔محکمہ تعلیمات میں بھی آپ برسر خدمت رہے۔ بعمر 80 سال 10 دسمبر 2002 ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ دریجہ بواہیر تکیہ حمدو میاں میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کو چار دختران اور چار فرزند جن میں سید منور حسین، سید انور حسین، سید منظور حسین، سید حامد حسین جو اپنے والد کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 
مولانا حافظ سید محمد حسین صاحب کے دوسرے فرزند مولانا سید شاہ مختار حسین قادری نقشبندی جو اعلیٰ تعلیمیافتہ اور تدریسی میدان میں نمایاں خدمات کے پیش نظر آپ کو حکومت کی جانب سے کئی اعزازات عطا کئے گئے۔ 25 سال کے عرصہ سے آپ درگاہ شریف حضرت جہانگیر پیراں رحمۃ اللہ علیہ میں بحیثیت سجادہ نشین ومتولی خانقاہ نورانی قادری باغ میں ہر ماہ ہلالی کی 29 تاریخ کو مجلس غوثیہ کے ذریعہ تعلیمات اولیاء و صوفیہ اکرام اور خاص و عام لنگر کا اہتمام جاری رکھے ہوئے ہیں جہاں قومی قائدین، علماء و مشائخین بطور مہمان خصوصی شرکت کرکے آپ کی مذہبی، دینی، خانقاہی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آپ کے چار صاحبزادے سید اعجاز حسین، سید اکرام حسین (نامزد سجادہ نشین و متولی)، سید افتخار حسین اور سید امتیاز حسین ہیں۔(۲۷) 
٭%٭%٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) بشکریہ روزنامہ منصف حیدرآباد، ۱۵؍اکٹوبر1998؁ء
(۲) بشکریہ ادبیات آصف سابع ؍ مضمون ، ڈاکٹر طیب انصاری مرحوم
(۳) مولانا ابو الخیر کنج نشین،تاریخ نظامیہ صفحہ 281 ، حیدرآباد دکن
(۴) زجاجۃ المصابیح۔ جزء اول، ص:۲، حضرت محدث دکن علیہ الرحمۃ والرضوان، مطبوعہ:۱۳۷۱ھ، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس حیدرآباد۔
(۵)تذکرہ حضرت محدث دکنؒ ،مولانا ڈاکٹر محمد عبدالستارخاں نقشبندی۔ ص ۹۔مطبوعہ اسپیڈ پرنٹس، حیدرآباد۔
(۶) حضرت مولانا خواجہ شریف، نور المصابیح جلد دہم،عرض مترجم، مطبوعہ: ۲۰۰۱ء
(۷) حضرت مولانا محمد خواجہ شریف مدظلہ ، امام اعظم امام المحدثین۔ ص:۱۰۹، مطبوعہ مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ، جولائی:۲۰۰۴ء
(۸) حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، زجاجۃ المصابیح جلد:۱، الطبعۃ الاولی۔ ص :۱۲۷، مطبوعہ:۱۳۷۱ھ
 (۹) حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، زجاجۃ المصابیح جلد:۱، ص :۲۳۶، مطبوعہ:۱۳۷۱ھ
(۱۰) حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، زجاجۃ المصابیح جلد:۱،ص :۱۲۷، مطبوعہ:۱۳۷۱ھ
(۱۱) حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، زجاجۃ المصابیح جلد:۱، ص :۱۷، مطبوعہ:۱۳۸۰ھ
(۱۲) حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، زجاجۃ المصابیح جلد : ۵، ص:۱۳، مطبوعہ:1380ھ
(۱۳)حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، زجاجۃ المصابیح جلد : ۵، ص:145، مطبوعہ 1380ھ
(۱۴) حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، زجاجۃ المصابیح جلد (۱) ص: 486، مطبوعہ: 1371ھ۔
(۱۵) مولانا ڈاکٹر محمد عبدالستار خان نقشبندی، تذکرہ حضرت محدث دکنؒ، ص:۱۲، مطبوعہ: اسپیڈ پرنٹس حیدرآباد
(۱۶) مولانا ڈاکٹر محمد عبدالستار خان نقشبندی، تذکرہ حضرت محدث دکنؒ ، ص:157، مطبوعہ اسپیڈ پرنٹس حیدرآباد
(۱۷) حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ: زجاجۃ المصابیح، جلد اول، 
مطبوعہ:  1371ھ 
(۱۸) حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، زجاجۃ المصابیح جلد اول، مطبوعہ: 1371ھ، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس، حیدرآباد
(۱۹)  مولانا ڈاکٹر محمد عبدالستار خانصاحب نقشبندی، تذکرہ حضرت محدث دکنؒ  ص،۱۱ مطبوعہ:  اسپیڈ پرنٹس حیدرآباد
(۲۰) بشکریہ مولانا ڈاکٹر حافظ سید بدیع الدین صابری (کامل الحدیث جامعہ نظامیہ)، اسوسی ایٹ پر وفیسر عربک عثمانیہ یونیورسٹی
(۲۱) شاہ محمد فصیح الدین نظامی،اسلامی افکار ‘ شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ نمبر،ص 30، 1994ء)
(۲۲)  سلوک نقشبندیہ، ص۳۶ تا ۵۰، مرتبہ مولانا نیاز محمود خانصاحب
(۲۳)زینت ساجدہ؍حیدرآباد کے ادیب، جلد دوم ص، 90، آندھراپردیش ساہتیہ اکادمی حیدرآباد 1962ء
(۲۴) شمائل رسول، مطبع مفید عام آگرہ، ۱۳۱۸ھ
(۲۵) مضمون بشکریہ :ڈاکٹر سید دستگیر پاشاہ قادری(ورنگل)
(۲۶)  یادگار سلور جوبلی ، جلد جاگیرداران حصہ دوم صفحہ 231 تا 239  مرتبہ : صمصام شیرازی ۔ مطبوعہ: 1362ھ ، بشکریہ : جناب سید عبدالمغنی ارشد فرزند حضرت مولانا سید خواجہ صاحبؒ سابق منتظم شعبہ تدریس جامعہ نظامیہ حیدرآباد۔
(۲۷)بشکریہ : سید منور حسین صاحب فرزند سید مشتاق حسین مرحوم ابن حضرت حافظ سید محمد حسین نقشبندی صاحب خطیب مسجد جودی کنگ کوٹھی۔
٭٭٭
ماہر السنہ و علوم شرقیہ عالمی مستشرق پروفیسر مارگولیتھ (آکسفورڈ یونیورسٹی لندن) کی حیدرآباد میں حضرت علامہ سید ابراہیم ادیب رضویؒ سے 1917ء میںملاقات کے بعد لندن سے روانہ کردہ توصیفی خطوط بزبان عربی و انگریزی
عکس سند
 زجاجۃ المصابیح:
 عطا کردہ حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ۔ برائے مولانا پروفیسر عبدالستار خاں نقشبندی مدظلہ 
سابق صدر شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد (حال مقیم امریکہ)
ایک خوبصورت تحریر بدست حضرت مفتی سید احمد علی قادری صوفی صفیؔ
Exit mobile version