حرف چبانا

حرف چبانا

افسوس!آج کل دینی مُعَامَلات میں سُستی کادَور دورہ ہے،عُمُوماً تراویح میں قراٰنِ مجید ایک بار بھی صحیح معنوں میں خَتْم نہیں ہو پاتا ۔قراٰنِ پاک ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے، مگر حال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تو لوگ اُس کے ساتھ تراویح پڑھنے کیلئے تیّار ہی نہیں ہوتے۔اب وُہی حافِظ پسند کیا جاتا ہے جو تَراویح سے جلد فار ِغ کردے۔ یاد رکھیئے ! تر اویح کے علا وہ بھی تِلاوت میں حَرْ ف چبا جا نا حرام ہے۔ اگرجلدی جلدی پڑھنے میں حافِظ صاحِب پورے قراٰنِ مجیدمیں سے صِرْف ایک حَرْف بھی چبا گئے تو خَتمِ قرٰان کی سنّت ادا نہ ہو گی۔لہٰذاکسی آیت میں کوئی حَرْف ”چَب” گیا یا اپنے ”مَخْرَج” سے نہ نکلا تو لوگوں سے شرمائے بِغیرپلٹ پڑیئے اور دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے ۔ ایک افسو س ناک اَمْریہ بھی ہے کہ حُفّا ظ کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جسے تر تیل کے ساتھ پڑھنا ہی نہیں آتا! تیزی سے نہ پڑ ھیں تو بے چارے بھو ل جا تے ہیں ! ایسوں کی خد مت 
ہمدردانہ مَدَ نی مشورہ ہے، لوگوں سے نہ شر ما ئیں،خدا کی قسم! اللہ عزوجل کی ناراضگی بَہُت بھاری پڑے گی لہٰذا بلا تاخیر تجوید کے ساتھ پڑھانے والے کسی قا ری صاحِب کی مدد سے از اِبتِداء تا اِنتِہااپنا حفِظ دُرُست فر ما لیں۔ مَدولین ۱؎ کا خیال رکھنا لا زِمی ہے نیز مَد،غُنَّہ، اظہار ،اِخفا وغیرہ کی بھی رعایت فرمائیں۔ صاحبِ بہارِشریعت حضرت صدرُ الشَّریعہ بدرُ الطَّریقہ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرما تے ہیں،”فر ضو ں میں ٹھہر ٹھہر کر قِرا ء َت کرے اور تراویح میں مُتَوَ سِّط (یعنی درمیا نہ ) انداز پر اور رات کے نوافِل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے، مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم ”مَدّ” کا جو دَرَجہ قا رِیوں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے ۔اس لئے کہ تَرتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر) قراٰن پڑھنے کا حُکُم ہے ۔ ”     (الدُّرُّ المُخْتارو رَدُّالْمُحْتارج۲ص ۲ ۶ ۲)
     پارہ ۲۹ سورۃُاْلمُزَّمِّل کی چو تھی آیت میں ارشا د ِرباّنی ہے:
وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾
ترجَمہ کنزالایمان: اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
    میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کمالین علی حاشیہ جلا لین کے
؎۱ واؤ اور الف ساکن اور قبل کی حرکت موافق ہوتو اس کو مد اور واؤ اور ی ساکن ماقبل مفتوح کو لین کہتے ہیں(نصاب التجوید ص ۱۹المدینۃ العلمیۃ)(یعنی واؤ کے پہلے پیش  اور ی کے پہلے زیر اور الف کے پہلے زبر۔)
حوالے سے ” ترتیل ” کی وضاحت کرتے ہوئے نَقل کرتے ہیں: ”یعنی قراٰنِ مجید اِس طرح آہِستہ اور ٹھہر کر پڑھو کہ سننے والا اِس کی آیات و الفاظ گن سکے۔”  ( فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ج ۶ص۲۷۶) نیزفرض نَماز میں اس طرح تِلاوت کرے کہ جدا جدا ہر حرف سمجھ آئے، تروایح میں مُتَوَ سِّط طریقے پر اور رات کے نوافل میں اتنی تیز پڑھ سکتا ہے جسے وہ سمجھ سکے ۔  (دُرِّمُختَار ج۱ ص ۸۰) مدارک التنزیل میں ہے: قراٰن کو آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو ، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ حروف جدا جدا ، وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے” ترتیلا” اس مسئلہ میں تاکید پیدا کر رہا ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔
 ( تفسیر مدارک التنزیل ج ۴ ص ۲۰۳، فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ج ۶ص۸ ۲۷،۲۷۹)
Exit mobile version