جنَّت کُشادہ ہوجاتی ہے
حضرتِ سَیِّدُنا عبد العزیز دَبَّاغ عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہ الوہَّاب فرماتے ہیں : ’’اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ نبیِّ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودِ پاک تمام اَعمال سے اَفضل ہے اور یہ اُن مَلائکہ کا ذِکْر ہے جو اَطرافِ جنَّت میں رہتے ہیں اور جب وہ حُضُور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ گِرامی پر دُرُودِ پاک پڑھتے ہیں تو اُس کی بَرَکت سے جنَّت کُشادہ ہوجاتی ہے۔‘‘ (الابریز ،باب فی الجنۃ وترتیبہا وعددہا،ص۳۳۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
وَسوَسہ: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے ذِہن میں یہ وَسوسہ پیدا ہوسکتاہے کہ ہمیں صرف دُرُودِ ابراہیمی ہی پڑھنا چاہئے کیونکہ احادیثِ مُبارکہ میں بھی اسی کے فَضائل بیان ہوئے ہیں ۔
جَوابِ وَسوَسہ:بے شک اَحادیثِ مُبارَکہ میں دُرُودِ اِبراہیمی کے فَضائل بیان ہوئے ہیں اوروہی اَفْضل ہے البتہ اِس سے دوسرے دُرُودِ پاک پڑھنے کی مُمانَعَت لازِم نہیں آتی بلکہ اَحادیث مُبارَکہ میں دوسرے دُرُودوں کے مُتَعَلِّق بھی فضائل آئے ہیں ۔ چنانچہ
اُونٹ کی گواہی
حضرت سَیِّدُنا زید بن ثابت رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُ سے مروی حدیثِ پاک کا مَفہوم ہے کہ ایک اَعرابی اپنے اُونٹ کی نکیل تھامے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضِر ہوا اور سلام عَرْض کیا:آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’صبح صبح کیسے آنا ہو ا؟ ‘‘اِسی اَثنا میں اُونٹ بَلْبلایا (یعنی آواز نکالی) پھر ایک دوسراشخص آیا گویا کوئی مُحافِظ ہو اور عَرْض کی: ’’یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اِس اَعرابی نے یہ اُونٹ چُرایا ہے۔‘ ‘ اُونٹ دوبارہ غم سے بَلْبلایا تو رسولِ اَکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِس کی فریادسننے لگے،جب اُونٹ خاموش ہوا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مُحافِظ کی طرف مُتَوَجِّہ ہوکر فرمایا: ’’اُونٹ نے تیرے جھوٹے ہونے کی گواہی دی ہے۔‘‘ اس پر وہ شخص چلاگیا ،پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَعرابی سے اِسْتِفْسَار فرمایا:تم نے میرے پاس آنے سے پہلے کیا پڑھا تھا ؟‘‘ اُس نے عَرْض کی: ’’میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان! میں نے یہ پڑھاتھا:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍٍ حَتّٰی لَا تَبْقٰی صَلٰوۃٌ
اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر بے حد دُرُود بھیج۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ حَتّٰی لَا تَبْقٰی بَرَکَۃٌ
اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوبیشمار بَرکتیں عطافرما۔
اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ عَلٰی مُحَمَّدٍ حَتٰی لَایَبْقٰی سَلَام
اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر بے اِنتہا سلامَتی فرما۔
اَللّٰھُمَّ وَارْحَمْ مُحَمَّدًا حَتٰی لَا تَبْقٰی رَحْمَۃٌ
اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر بے حد رَحمتیں نازِل فرما ۔
تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشاد فرمایا : ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اِس مُعَامَلہ کو مجھ پر ظاہر فرما دیا ، اُونٹ نے اِس ( مُحافِظ) کے گناہ (جھوٹ) کو بیان کردیا اور فِرِشتوں نے آسمان کے کناروں کوڈھانپ لیا ۔ ‘‘(معجم کبیر،سلیمان بن زیدثابت عن ابیہ، ۵/ ۱۴۱،حدیث:۴۸۸۷مفہوماًو ملخصاً)
وہ ہی بھرتے ہیں جھولیاں سب کی ، وہ سمجھتے ہیں بولیاں سب کی
آؤ دربارِ مصطفی کو چلیں ،غم خوشی میں وہیں پہ ڈھلتے ہیں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!آپ نے دیکھا کہ اس اعرابی نے دُرُودِ اِبراہیمی کے علاوہ دُرُود ِپاک پڑھا تو اس کی بَرَکت سے اللّٰہ تعالیٰ نے اُس کی حفاظت فرمائی ، نیز مذکورہ حدیث ِپاک سے اس دُرُودشریف کی فضیلت بھی معلوم ہوئی اور ضمناً یہ بھی پتا چلا کہ دُرُودِ اِبراہیمی کے علاوہ دیگر دُرُود شریف بھی
پڑھ سکتے ہیں ۔ ہاں ! یہ ضَرور ہے کہ دُرُودِ اِبراہیمی پڑھنا اَفضل ہے جیسا کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خانعَلَیْہ رَحْمَۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں : ’’سب سے اَفضل دُرُود وہ ہے جو سب اَعمال سے اَفضل یعنی نماز میں مُقَرَّر کیا گیا ہے ۔‘‘ آگے چل کر فرماتے ہیں :’’اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے باوُضو بے وُضو ہر حال میں دُرُود جاری رکھے ا ور اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ ایک صیغہ ٔ خاص کا پابند نہ ہو بلکہ وقتًا فوقتًامختلف صیغوں سے عَرْض کرتا رہے تاکہ حُضُورِقَلْب میں فَرْق نہ ہو ۔‘‘ (فتاوی رضویہ،۶/۱۸۳ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُود کا وَبال
حضرتِ سیِّدُناشیخ ابوحَفْص رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اُستاد کے والد فرماتے ہیں : میں نے ایک شخص کو حَرَم شریف، بَیْتُ اللّٰہ، عَرَفَہ اورمِنٰی ہر جگہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپرکثرت سے دُرُود ِپاک پڑھتے دیکھا تو پوچھا : کہ ہر جگہ کے لیے ایک علیحدہ وِرْد ہے مگر تُوہے کہ صِرْف نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودِ پاک پڑھ رہا ہے ،اِس کی کیا وَجہ ہے؟ اُس نے کہا: میں اپنے والد کے ساتھ حج کرنے کے لیے خُراسان سے نکلا۔ جب ہم کُوفہ پہنچے تو میرے والد سخْت بیمار ہوگئے ا ور اِسی بیماری میں فَوت ہوگئے۔ میں نے اُن کامنہ ڈھانپ دیا،
کچھ دیر بعد دیکھا تو ان کا چہرہ گدھے کی شَکْل میں تبدیل ہوگیا تھا، جب میں نے یہ کَیْفِیَّت دیکھی تو بَہُت پریشان ہوااور اِسی حالت میں مجھے اُونگھ آگئی، کیادیکھتاہوں کہ ایک صاحِب میرے والد کے پاس تشریف لائے اُن کا چہرہ دیکھ کر مجھ سے کہنے لگے: ’’کیا اِسی وجہ سے تم غمگین ہو؟‘‘ پھرفرمایا:’’ تجھے مُبارک ہو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تیرے والد کی تکلیف دُور کردی ۔‘‘اس پر میں نے والد صاحِب کا چِہرہ دیکھا کہ چاند کی طرح روشن تھا۔ میں نے اُس ہستی سے پوچھا : ’’آپ کون ہیں ؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا:’’ میں تُمہارا نبی محمد مُصْطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہوں ۔ یہ سن کر میں نے دامنِ اَقْدَس تھام کر اَصْل حقیقت کے بارے میں پوچھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’تیرا والدسُود کھاتا تھااور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا حُکْم ہے کہ جو سود کھائے گااس کی شَکْل دنیا میں مرتے وَقْت یا آخرت میں گدھے کی طرح بنادے گا لیکن تیرے والد کی یہ عادت تھی کہ سونے سے پہلے ہر رات مجھ پر سو مرتبہ دُرُود بھیجتا تھا۔ جب وہ اِس تکلیف میں مُبْتَلا ہوا تو میری اُمَّت کے اَعمال مجھ پر پیش کرنے والا فِرِشتہ میرے پاس آیا اور مجھے تیرے والد کی حالت کے بارے میں بتایا، میں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّسے اِس کی سِفَارِش کی تو میری سِفَارِش اِس کے حق میں مقبول ہوگئی۔‘‘ وہ شخص کہتا ہے: پھر میں بیدار ہوگیا، والد صاحِب کا چِہْرہ دیکھا تو واقعی وہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ میں نے اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّکا شکْر ادا کیا۔ پھر والد صاحِب کی تَکْفِیْن و تَدْفِیْنکے بعد کچھ وَقْت قَبْر کے قریب بیٹھ گیا۔ اتنے میں غَیْب سے آواز آئی: کہ تیرے والد پر یہ عِنایت صرف رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودِ پاک پڑھنے کی بدولت کی گئی ہے۔اِس کے بعد میں نے قَسَم اٹھائی کہ کسی حالت میں دُرُود و سلام ترْک نہ کروں گا ۔ (القول البدیع، الباب الخامس فی الصلاۃ علیہ فی اوقات مخصوصۃ…الخ،ص۴۴۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں ہرگز اس خیال میں نہیں رہنا چاہئے کہ جتنے گُناہ کرنے ہیں کرلو ،خواہ ساری زِندگی سُود کی کمائی کھاتے رہو، حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تو رَحْمَۃُ لِّلْعَالَمِین ہیں آپ پر دُرُود پڑھنے کے سبب نَجات مل جائے گی اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مُعاف فرمادے گا ۔
یقینا حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رَحْمَۃُ لِّلْعَالَمِین، شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن ہیں لیکن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے ہم پر کچھ اَحکام نازل فرمائے ہیں جن کی پاسداری کرنا ہم پر فرض ہے ۔ سود قَطْعِی حرام اور جَہَنَّم میں لے جانے والا کام ہے ۔ اس کی حُرْمَت کا مُنکِر ، کافر اور جو حرام سمجھ کر اِس بیماری میں مُبْتَلا ہو ، وہ فاسق اور مردُودُ الشَّہَادَۃ ہے ۔ (یعنی اس کی گواہی قَبول نہیں کی جائے گی) (بہار شریعت، ج۲،
حصہ۱۱، ص۷۶۸) ہمیں کیا معلوم اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کا غَضَب کس گُناہ کے سبب نازِل ہوجائے، ہمیں ہر گناہ سے بچتے رہنا چاہیے ۔ سودی کاروبار اور سودی لین دین کی وجہ سے اگر اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہو گیا، اُس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمروٹھ گئے اور عذاب نے آلیا تو کیا کریں گے ؟
گرتو ناراض ہوامیری ہَلاکت ہوگی
ہائے میں نارِ جہنَّم میں جلوں گایارب!
(وسائلِ بخشش،ص۹۱)
سُود کی خَرابیاں
حضرتِ صدر ا لْافاضِل مولانا سیِّدمحمد نعیم ُالدِّین مُراد آبادی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْہَادِی خَزائنُ العرفان میں پارہ 3 ، سُوْرَۃُ الْبَقَرۃ آیت نمبر 275 کے تَحت سُود کی حُرمت اور سُود خوروں کی شامت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : سُود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں بعض ان میں سے یہ ہیں :(۱)سُود میں جو زِیادتی لی جاتی ہے وہ مُعاوَضۂ مالیہ میں ایک مقدارِ مال کا بغیر بدل وعِوض کے لینا ہے یہ صریح نااِنصافی ہے ۔(۲) سُود کا رواج تجارتوں کوخَراب کرتا ہے کہ سُود خوار کو بے محنت مال کا حاصل ہونا تِجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اورتِجارتوں کی کمی انسانی مُعاشرت کوضَرر پہنچاتی ہے ۔ (۳) سُود کے رواج سے باہمی مَوَدَّت کے سُلوک کونُقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سُود کا
عادی ہوا تو وہ کسی کو قرضِ حسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا ۔(۴) سُودسے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زِیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سُود خوار اپنے مدیون (مقروض)کی تباہی و بربادی کا خَواہش مند رہتا ہے اس کے علاوہ بھی سُود میں اور بڑے بڑے نُقصان ہیں اور شریعت کی مُمانَعَت عین حکمت ہے مُسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سُود خوار اور اس کے کار پرداز اورسُودی دستاویز کے کاتب اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب گُناہ میں برابر ہیں ۔
یاد رکھیے ! سودکا مال دُنیا وآخرت میں مَحض باعثِ وَبال ہے اور اس کا کھانا ایسا ہی ہے جیسے اپنی ماں سے زِنا کرنا۔ چنانچہ
سُود کے ستَّردَروازے
مَکِّی مَدَنی سلطان ،نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’ اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ بَابًا اَدْنَاہَا کَالَّذِیْ یَقَعُ عَلٰی اُمِّہٖ‘‘یعنی سُود کے ستَّر دروازے ہیں ، اِن میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی اَپنی ماں سے زِنا کرے ۔‘‘ (شعب الایمان،باب فی قبض الیدعلی الاموال، ۴/۳۹۴،حدیث:۵۵۲۰ )
میرے آقا اَعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مجدِّدِ دِین و مِلَّت مولانا شاہ امام احمدرضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰناِس حدیثِ پاک کو نَقْل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’تو جو شخص سُود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وسلَّم کا اِرشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں مُنہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قَبول ہے یا اَپنی ماں سے سَتَّر سَتَّر بار زنا کرنا ۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’سود لینا حرام قَطْعِی و کبیرہ و عظیمہ ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ۱۷/ ۳۰۷ )
اِس پُر فتن دور میں بعض اَفراد سُود کے بارے میں بَہُت کلام کرتے ہیں اور طرح طرح سے سُودی مُعَامَلات میں راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں کہ سُود کی اِتنی سَخْت رِوایات اور وعیدوں کی کیا حکمت ہے ؟ کبھی کہتے ہیں : ’’اگر سُودی کاروبار بند کردیں گے توبَینَ الاقوامی منڈی میں مُقَابَلہ کیسے کر سکیں گے ؟ ‘‘ کبھی کہتے ہیں : ’’دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے اور کبھی اِنتہائی کم شرْحِ سُود کی آڑ لے کر لوگوں کو اُکساتے ہیں ، طرح طرح کی بَد ترین راہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں ۔‘‘ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امامِ اَہلسنَّت، مُجدِّدِ دین و مِلَّت ، پروانۂ شَمْعِ رِسالت، مولانا شاہ اِمام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرََّحْمٰن فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں کافروں نے اِعتراض کیا تھا:’’ اِنَّـمَا الْبَـیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا (بیشک بَیْع بھی تو سود کی مِثْل ہے ۔) تم جو خرید و فَرُوخْت کو حلال اورسُود کو حرام کرتے ہو اِن میں کیا فرْق ہے ؟ بَیْع میں بھی تونَفْع لینا ہوتا ہے! یہ اِعتراض نَقْل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَبِّ الْعِزَّتْ نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فرمان نَقْل کیا :’’ وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(پ۳، البقرہ:۲۷۵) یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے حلال کیبَیْع اور حرام کیا
سُود۔ ‘‘اور پھر اِرشاد فرمایا : ’’تم ہوتے ہو کون؟ بندے ہو سرِبندگی خَم کرو۔ حُکْم سب کو دئیے جاتے ہیں حِکْمَتیں بتانے کے لئے سب نہیں ہوتے ۔ آج دُنیا بھر کے مَمالِک میں کسی کی مَجَال ہے کہ قانونِ مُلْکِی کی کسی دَفْعَہ پر حرْف گِیری کرے کہ یہ بیجا ہے ، یہ( ایسا) کیوں ہے ؟ (اسے ) یوں نہ چاہئے ، یوں ہونا چاہئے تھا ۔ جب جھوٹی فانی (اور) مَجازی سلطنتوں کے سامنے چُون وچرا کی مَجَال نہیں ہوتی تو اس مَلِکُ الْمُلُوک، بادشاہِ حقیقی، اَزَلی، اَبَدی کے حُضُور کیوں اور کس لئے، کا دم بھرنا کیسی سخْت نادانی ہے۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ، ۱۷/۳۵۹ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے ہمارے پیار ے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں سُود کی نُحوست سے بچتے ہوئے رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرما اور اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ اطہر پر زیادہ سے زیادہ دُرُودِ پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم