شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
اور جامعہ نظامیہ
رشحہ قلم: حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی شرفی ،ڈائرکٹر آئی ہرک
شیخ الاسلام حضرت مولانا مولوی حاجی حافظ محمد انوار اللہ فاروقی نوراللہ مرقدہ المخاطب بہ خان بہادر نواب فضیلت جنگ صدر الصدور صوبہ جات دکن ومعین المہام سرکار عالی صیغہ امور مذہبی نے بمقام ناندیڑھ بتاریخ ۴؍ ربیع الثانی سنہ۱۲۶۴ھ م ۱۸۴۸ء اس دنیائے رنگ وبو میں آنکھ کھولی۔ والد ماجد کا اسم گرامی قاضی ابو محمد شجاع الدین تھا جو قندھار کے قاضی گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور جن کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
حضرت شیخ الاسلام کی ابتدائی تعلیم وتربیت والد بزرگوارکی نگرانی میں ہوئی حضرت حافظ امجد علی نے خاص توجہ سے قرآن مجید حفظ کروایا بعد ازاں فقہ‘ تفسیر و حدیث شریف اس دور کے جید علماء سے پڑھی متداولہ علوم کی تحصیل و تکمیل کے بعد سلوک کی تعلیم اپنے والد گرامی سے پائی اور جملہ سلاسل طریقت میں بیعت کی اور خرقہ خلافت پایا۔ محتسب بنولہ مولوی حاجی محمد امیر الدین مرحوم کی صاحبزادی سے عقد نکاح کیا اور ۲۱سال کی عمر میں محکمہ مال گزاری میں ’’خلاصہ نویس‘‘ کی حیثیت سے مامور ہوئے بمشکل اٹھارہ ماہ اس خدمت کی انجام دہی کے بعد کنارہ کشی اختیار کی۔ والد ماجد کے انتقال ہو جانے اور ترک ملازمت کے باعث معاشی مسائل پیدا ہوگئے لیکن آپ نے متوکلانہ زندگی بسر کی اور درس وتدریس کے مبارک مشغلہ کو اختیار کیا۔ مدرسہ نظامیہ کے قیام کے دو سال بعد آپ نے حرمین شریفین کا عزم کیا اور توکلت علی اللہ کہتے ہوئے رخت سفر باندھا۔ اس مبارک سفر میں آپ نے ایک مرد حق آگاہ شیخ طریقت حضرت حافظ حاجی امداد اللہ شاہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے دوبارہ بیعت کی اور منازل سلوک طے کرکے نعمت خلافت پائی اور حیدرآباد مراجعت کی۔
حجاز مقدس سے واپسی کے بعد حضرت غفران مکان آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں بہادر کی تعلیم وتربیت کے لئے تقرر عمل میں آیا۔ شاہی اتالیق ہوجانیکے باوجود حضرت شیخ الاسلام نے ملی خدمات کے سلسلے کو منقطع نہ فرمایا بلکہ درس وتدریس کے سلسلے کو جاری رکھا اور ساتھ ہی تصنیف و تالیف کی طرف توجہ کی۔ دربار شاہی سے خطاب و منصب کی عطائی کے بعد سنہ ۱۳۰۱ھ میں دوبارہ حج و زیارت روضہ اطہر کے لئے سفر حجاز کیا۔ حضرت شیخ الاسلام کی اہلیہ محترمہ نے سنہ ۱۳۰۴ھ میں وفات پائی اس کے بعد پھر آپ حرمین شریفین کے لئے سامان سفر تیار کیا اس دفعہ تین سال تک مدینہ طیبہ میں قیام کی سعادت پائی۔ اس دوران مدینہ منورہ کے کتب خانوں سے علمی نوادرات کی نقلیں تیار کیں اور تصنیف وتالیف کے مشغلہ کو جاری رکھا۔ وہیں پر آپ کی ہمشیرہ اور فرزند دلبند نے انتقال کیا۔ ان حادثات سے قبل ہی آپ علیل ہوگئے تھے۔ دن بہ دن حالت گرتی جارہی تھی یہ دیکھ کر آپ کے ساتھیوں اور چاہنے والوں نے حیدرآباد واپس ہونے کے لئے اصرار کیا۔ آپ نے اس بارے میں استخارہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور اجازت ملنے پر کعبۃ اللہ پہنچے چوں کہ ایام حج تھے لہذا اس فریضہ کی ادائیگی کے بعد حیدرآباد واپس لوٹے۔
نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس نے آپ کی مراجعت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے فرزند نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کی تعلیم پر آپ کو مقرر کیا۔ کم وبیش ۲۱سال آپ نے آصف جاہ سابع کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا اسی دوران حضرت شیخ الاسلا م نے بلاد اسلامیہ مقامات مقدسہ اور پیران سلسلہ کے مزارات کی زیارت کے لئے جماعت کثیر کے ساتھ سفر کیا۔
آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خاں نے اپنی تخت نشینی کے بعد استاد محترم حضرت شیخ الاسلام کو ناظم امور مذہبی و صدر الصدور صوبہ جات دکن کے عہدہ جلیلہ پر فائز کیا بعد ازاں وزارت مذہبی کے فرائض آپ کے تفویض کئے۔ پھر اپنے دونوں شہزادوں کی تعلیم بھی آپ سے متعلق کردی سنہ ۱۳۳۵ھ میں جشن سالگرہ کے موقع پر ’’فضیلت جنگ ‘‘کے خطاب سے سرفراز کیا۔ اسی سال اعلی حضرت آصف جاہ سابع کے ساتھ ورنگل کا سفرکیا۔ اثناء سفر جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ایک دن کے لئے حیدرآباد آئے تھے اور واپسی کے سفر میں ریل کے ایک واقعہ میں اندرونی چوٹ کے باعث علیل ہوگئے جس کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔
اوائل سنہ ۱۳۳۶ھ میں حضرت شیخ الاسلام دوبارہ علیل ہوئے ڈاکٹر عبدالحسین کے مشورہ پر عمل جراحی کی گئی تاہم افاقہ کی کوئی صورت نہ نکلی آخر ۲۹؍جمادی الاول سنہ ۱۳۳۶ھ کو جب کہ جمادی الآخر کا ہلال نمودار ہوچکاتھا۔ علم وعرفان کا یہ آفتاب اہل دنیا کی نظروں سے غائب ہوا۔ جامعہ نظامیہ میں آخری آرامگاہ بنی۔ حضرت شیخ الاسلا م کو دو فرزند تھے جنہوں نے صغر سنی ہی میں علی الترتیب حیدرآباد اور مدینہ منورہ میں وفات پائی علاوہ ازیں تین صاحبزادیاں تھیں۔ ہلکے سرخ وسفید رنگت‘ کتابی چہرہ بڑی آنکھوں اور گھنی ڈاڑھی‘ قد بالا‘ کشادہ سینہ اور ورزشی و مضبوط جسم کے مالک شیخ الاسلام وجاہت وجاذبیت کا اعلی نمونہ تھے آپ کو دیکھنے والا آپ کی غیر معمولی شخصیت اور علمی جلالت سے مرعوب ومتاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔
حضرت شیخ الاسلام کی زندگی بڑی سیدھی سادی اور شریعت مطہرہ کی پابندی کے لحاظ سے قابل تقلید نمونہ تھی۔ غذا بہت ہی سادہ تھی۔ لباس بھی تکلفات سے بری رہا کرتا جبہ وعمامہ پہنا کرتے نماز کے وقت خوب اہتمام و زینت فرماتے تھے آپ کے پاس مختلف ادوار میں مختلف سواریاں رہیں رات میں بارہ بجے سے تین بجے تک استراحت فرماہوتے مابقی سارا وقت علمی مشاغل‘ درس وتدریس‘ عبادت و ریاضت‘ ذکر و مراقبہ میں گزرتا سرکاری خدمات اور مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں کسی بھی وقت تعطل یا فرق نہیں آسکا دن میں دو تا تین گھنٹے قیلولہ کیا کرتے تھے۔ خانگی زندگی اسلامی سادگی کا اعلی نمونہ تھی۔ حضرت شیخ الاسلام کو مطالعہ کا بہت شوق تھا آپ نے زندگی بھر نہایت ہی اعلی پائے کی قدیم وجدید کتابیں جمع کیں آپ کے کتب خانہ میں کئی ہزار بیش قیمت اور نایاب و کمیاب کتابوں کا ذخیرہ جمع تھا آپ نے جامعہ نظامیہ کے لئے وقف کردیا۔
حسن خلق‘ جود سخا‘ حلم وتواضع‘ مہمان نوازی‘ غرباء پروری‘ ایثار وقربانی ‘ جذبہ ہمدردی‘ بے ریا معمولات اور سادگی میں آپ نمونہ اسلاف تھے۔ عبادات و ریاضتوں میں اپنے عہد میں یکتا تھے سخت مجاہدات کے عادی فرائض دین کی ادائیگی میں بے حدمخلص اور سخت مشقت کرنے والے متدین بزرگ تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مجاہدہ نفس کے سلسلے میں بڑے بلند مرتبہ صوفی تھے۔ باطنی صفائی اور تزکیہ قلب کی دولت سے مالا مال تھے۔ آپ کا فیضان تا حیات جاری رہا۔ ہزاروں لوگوں نے علمی استفادہ کیا ہزاروں کی مالی امداد فرمایا کرتے۔ آپ کی صحبت کا فیض ہر کس وناکس کے لئے عام تھا۔
حضرت شیخ الاسلام علوم دین کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں ہمیشہ دامے درمے سخنے قلمے قدمے مصروف جہد رہے اپنی ذات سے اور اپنے سرکاری رسوخ سے اس مبارک کام کے لئے ممکنہ اعانت کرتے اور کرواتے رہے۔ حضرت فضیلت جنگ کی کوششوں سے ایسے بیسیوں مدارس اور دینی ادارے ہیں جو قائم ہوئے یا ان کی ممکنہ امداد ہوئی۔ اصلاح معاشرہ کے ضمن میں حضرت شیخ الاسلام کی خدمات کو اہلیان دکن صدیوں تک فراموش نہیں کر سکتے۔ درس وتدریس‘ تصنیف وتالیف حضرت کا سب سے مبارک مشغلہ تھا۔ مدینہ منورہ کے قیام کے زمانے میں مرتب کردہ کتاب مستطاب انوار احمدی و نیز کتاب العقل‘ حقیقۃ الفقہ(دو حصے) مقاصد الاسلام(گیارہ حصے)‘ افادۃ الافہام‘ انوارالحق‘ ان کے علاوہ دیگر کئی کتابیں مولانا کی یادگار ہیں۔
(اخذ واستفادہ مطلع الانوار)
انجمن اشاعت العلوم‘ دائرۃ المعارف النظامیہ‘ کتب خانہ آصفیہ‘ جامعہ نظامیہ وغیرہ حضرت شیخ الاسلام کے دینی‘ اصلاحی‘ دعوتی‘ تبلیغی‘ علمی اور اشاعتی جذبہ عمل کے آئینہ دار ہیں۔ بالخصوص جامعہ نظامیہ حضرت شیخ الاسلام کی وہ عظیم الشان یادگار ہے جس کا فیضان علمی گزشتہ ۱۳۶سال سے جاری وساری ہے۔
جامعہ نظامیہ نے ہجری تقویم کے لحاظ سے ۱۳۶ سال پورے کرلئے ہیں یہ عظیم دینی درسگاہ حیدرآباد کے قدیم محلہ شبلی گنج میں واقع ہے ابتداء میں یہ مدرسہ نظامیہ کہلا تا تھا جس کا قیام ۱۹؍ ذی الحجہ۱۲۹۲ھ کو عمل میں آیا۔
مدرسہ نظامیہ کی تاسیس حیدرآباد میں مذہبی درسگاہ کی شدید ضرورت کے زیر اثر ہوئی۔ مدرسہ نظامیہ اہل سنت وجماعت کے طریقہ پر علوم دینیہ کی تعلیم اور حنفی مسلک کے طلبہ کو ترجیح کے باوصف مذاہب اربعہ میں مابقی تین طریقوں کے مقلدین کو تعلیم کی اجازت وسہولت‘ ایسی جماعت کا تیار کرنا جو اشاعت علوم دین‘ اسلامی احکام کی تبلیغ‘ تعلیم علوم دین کے علاوہ عامۃ المسلمین کی مذہبی ضروریات کی تکمیل میں رہبری کرسکے۔ عامۃ المسلمین کے لئے بقدر ضرورت دینی تعلیم کا نظم‘ اہل خدمات شرعیہ کی تعلیم کا خصوصی انتظام‘ تبلیغ و اشاعت دین کے لئے تقریر وتحریر‘ تصنیف وتالیف ہر شعبہ میں ترغیبی مہم کے مقاصد رکھتا ہے۔
مدرسہ نظامیہ کے اولین سرپرستوں میں آصف جاہ سادس اور آصف جاہ سابع شامل رہے۔ مدرسہ نظامیہ پہلے جامع مسجد افضل گنج میں قائم تھا بعد میں چنپا دروازہ گھانسی بازار منتقل ہوا۔ کچھ عرصہ شاہ گنج میں رہا بعد ازاں شبلی گنج میں موجودہ عمارت میں منتقل ہوگیا۔ مدرسہ نے معنوی خدمت کے سلسلے میں بہت شہرت پائی دور دور سے تشنگان علوم دین آنے لگے ایک وقت ایسا بھی تھا کہ طلبہ کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہوگئی تھی۔
۱۹؍ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ م ۱۹۳۵ء کے دن ۶۲ویں یوم تاسیس کے موقع پر ابنائے قدیم اور علماء کرام کی تحریک پر مدرسہ نظامیہ کو جامعہ نظامیہ سے موسوم کیا گیا۔
مدرسہ کے نصاب میں تفسیر ‘ حدیث‘ منطق‘ فلسفہ ‘ فقہ‘ اصول فقہ‘ اصول حدیث‘ مناظرہ‘ معانی‘ بلاغت‘ ہیئت‘ ہندسہ‘ صرف‘ نحو اور کلام کی ۷۲ کتابیں شامل ہیں جسے دو حصوں میں منقسم کرکے ’’تحصیلی ‘‘ اور ’’ضروری‘‘ کے نام دئے گئے۔ تحصیلی میں پورا نصاب اور ضروری میں ایک ثلث سے زائد نصاب کم کر کے تعلیم دی جانے لگی۔ ’’درس نظامی‘‘ سے موسوم نصاب کی تعلیم کے حصول کے بعد فارغین جامعہ نظامیہ گزشتہ کئی دہوں سے اندرون وبیرون ملک مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی اور دینی خدمات کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
مدرسہ نظامیہ کی غیر معمولی خدمات اور علوم دین کے سلسلے میں تاریخ ساز سرگرمیوں کے باعث نہ صرف حیدرآباد اسٹیٹ بلکہ پورے ملک سے مذہبی مسائل کے سلسلے میں لوگ رجوع ہونے لگے اور کثرت سے استفتاء آنے لگے تو رمضان المبارک سنہ ۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء میں دارالافتاء قائم کیا گیا۔ جو تا حال قائم ہے اور ملت اسلامیہ کی ٹھوس خدمت انجام دے رہا ہے۔
جامعہ نظامیہ جب مدرسہ کہلاتا تھا اس وقت بھی اس کی حیثیت اقامتی درسگاہ کی تھی اور آج بھی ایک عالیشان اقامت خانہ موجود ہے‘ جہاں سینکڑوں طلبہ کے خورد ونوش کا مناسب انتظام موجود ہے۔ طلبہ کے لئے تمام رہائشی سہولتوں کے ساتھ سالانہ مفت لباس کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ جامعہ نظامیہ اس وقت پانچ علحدہ عمارتوں پر مشتمل ایک وسیع و محصور کامپلکس میں قائم ہے جس کے احاطہ میں ایک دیدہ زیب مسجد واقع ہے جس کے روبرو ایک خوشنما مقبرہ ہے جس میں حضرت شیخ الاسلام فضیلت جنگ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ مطبخ و طعام خانہ عقبی حصہ میں ہیں جب کہ جامعہ نظامیہ میں زائد از پچیس ہزار مطبوعات اور کم وبیش دو ہزار مخطوطات موجود ہیں۔
جامعہ نظامیہ میں ابتداء سے تکمیل تک جملہ سولہ سالہ کورس ہے شعبہ حفظ بالکل علحدہ ہے تحتانی وسطانی درجات میں آٹھ سالہ نصاب کی تکمیل کے بعد مولوی کے لئے دو سال‘ مولوی عالم کے لئے دوسال‘ مولوی فاضل کے لئے دو سال اور مولوی کامل کے لئے دو سال اس طرح اعلی تحصیلی نصاب کی تکمیل کے لئے آٹھ سال کی مدت رکھی گئی ہے۔ گزشتہ۱۳۶ سال کے دوران حیدرآباد کی اہم دینی علمی اور سماجی شخصیات جامعہ نظامیہ سے کسی نہ کسی حیثیت سے متعلق رہی ہیں زیادہ تر مجلس مشاورت اور مجلس انتظامی کے ارکان کے طور پر بہترین اور اعلی صلاحتیوں کے حامل لوگ بہ نظر سعادت وابستہ رہے ہیں۔
جامعہ نظامیہ انشاء اللہ تعالی اپنی اعلی تعلیمی کارگردگی کے ذریعہ حضرت شیخ الاسلام مولاناحاجی حافظ محمد انواراللہ فاروقی خان بہادر فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کے فیضان علم و عرفان کو پھیلاتا رہے گا۔
٭٭٭٭