شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کی تصنیف انوار احمدی کی تلخیص وتسیہل
رئیس القلم حضرت مولانا ارشد القادریؒ،
( ناظم جامعہ حضرت نظام الدین، نئی دہلی)
قارئین کرام:
حضرت مولانا ارشد القادریؒ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں علمی و قلمی دنیا میں آپ ’’رئیس القلم‘‘ سے یاد کئے جاتے ہیں، زلزلہ اور زیر و زبر آپ کی شاہ کار تصانیف شمار کی جاتی ہیں آج سے تقریبا20 سال پہلے آپ میلاد کمیٹی حیدرآباد کی دعوت پر خطاب کیلئے تشریف لائے تھے، اس وقت احقر کو رئیس القلم سے ملاقات، قریب سے دیکھنے اور تفصیلی گفت و شنید کا موقع ملا تھا اسی دوران جامعہ نظامیہ کے اساتذہ کرام کی دعوت پر آپ وہاں تشریف لائے اور اس کی زیارت کا شرف حاصل فرمایا۔جیسا کہ خود مولانا ارشد القادریؒ، انوار احمدی کی تلخیص و تسہیل (طبع اول 1989ء) کے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں۔
حیدرآباد کا ایک مبارک سفر
’’آج سے تقریباًآٹھ نو سال پہلے مکہ مسجد (حیدرآباد) میں شہر کی مختلف تنظیموں کی طرف سے ایک پنج روزہ تبلیغی پروگرام رکھا گیا تھا۔ جس میں ملک کے مختلف مشاہیر علمائے اہل سنت کے ساتھ دو دن کے لئے میں بھی مدعو تھا۔ اجلاس میں عاشقان رسول کا بے پناہ اژدہام اور ان کا مذہبی جوش و خروش دیکھ کر میری مسرتوں کی کوئی انتہا نہیں تھی‘‘۔ کچھ سطروں کے بعد لکھتے ہیں: اجلاس سے فراغت کے بعدکئی دن حیدرآباد میں قیام کرنے کا موقعہ ملا۔ ان ہی ایام میں جنوبی ہند کی مشہور درس گاہ جامعہ نظامیہ کے اساتذہ کی دعوت پر اس کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔
جامعہ کی پر شکوہ عمارتیں اس کا حسن انتظام دیکھ کر بہت زیادہ خوشی حاصل ہوئی۔ ایک بلند پایہ تعلیمی مرکز کو جن خوبیوں سے آراستہ ہونا چاہئے وہ ساری خوبیاں دامن کو کھینچتی تھیں کہ ہمیں دیکھو۔
جامعہ نظامیہ اپنے عظیم المرتبت بانی شیخ الاسلام مولانا حافظ شاہ انوار اللہ صاحب نوراللہ مرقدہ کی نسبت سے ایک باوقار دارالعلوم اور ایک عظیم مرکز علم و فن کی حیثیت سے سارے اقطار ہند میں جانا پہچانا جاتا ہے۔
جامعہ میں حاضری کے موقعہ پر وہاں کے اساتذہ نے ازراہ علمی قدردانی حضرت شیخ الاسلامؒ کی چند گرانقدر تصنیفات بھی مجھے عنایت فرمائیں۔ جن میں مقاصد الاسلام اور انوار احمدی خاص طور پر قابل ذکر ہیں‘‘۔
انوار احمدی کامطالعہ کرکے میں حضرت فاضل مصنف کے تبحرِ علمی، وسعتِ مطالعہ، ذہنی استحضار، قوت تحقیق، ذہانت و نکتہ رسی اور بالخصوص ان کے جذبہ حبِّ رسول اور حمایتِ مذہب اہلِ سنت کی قابلِ قدر خصوصیات سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔
کتاب کی خصوصیات
اس عنوان کے تحت مولانا اعتراف حقیقت کے گوہر لٹاتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
’’یہ گراں قدر کتاب فضائل رسول اور اختلافی مسائل پر اس درجہ اطمینان بخش معلومات فراہم کرتی ہے کہ اسے ایک بار پڑھ لینے کے بعد کوئی بھی انصاف پسند آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی بات بھی بغیر دلیل کے نہیں کہی گئی ہے۔ خاص طور پرجو نتائج سپردِ قلم فرمائے ہیں وہ بالکل نشتر کی طرح دلوں میں چبھ جاتے ہیں اور ان میں اتنی معقولیت ہوتی ہے کہ دل کے انکار کے باوجود دماغ کو ایمان لانا پڑتا ہے۔
حضرت شاہ امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی تقریظ
اس کتاب کی ایک خصوصیت اور بھی ہے جو ساری خصوصیات پر حاوی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ نے اس کتاب کی سطر سطر اور حرف حرف کی تصدیق فرمائی ہے جو اردو اور عربی زبان میں کتاب کے شروع میں درج ہے حضرت مہاجر مکیؒ نے اختلافی مسائل پر اس کتاب کے جملہ مشتملات کی تصدیق کرکے ان لوگوں کے لئے قبول حق کا کام آسان کردیا ہے جو انہیں اپنے بزرگوں کا بھی بزرگ مانتے ہیں۔ اس کتاب پر حضرت موصوف کی تقریظ اردو میں بھی ہے اور عربی میں بھی۔ اردو کی تقریظ کا یہ حصہ خاص طور پر پڑھنے کے قابل ہے۔ تحریر فرماتے ہیں۔
’’ان دنوں ایک عجیب وغریب کتاب لا جواب مسمی بانوار احمدی مصنفہ حضرت علامہء زماں و فرید دوراں، عالم و فاضل بے بدل، جامع علوم ظاہری و باطنی، عارف باللہ مولوی انوار اللہ حنفی و چشتی سلمہ اللہ تعالیٰ فقیر کی نظر سے گزری اوربلسانِ حق ترجمان مصنف علامہء، اول سے آخر تک سنی۔
اس کتاب کے ہر ہر مسئلے کی تحقیق محققانہ میں تائید ربانی پائی گئی کہ اس کا ایک ایک جملہ اور فقرہ امداد مذہب اور مشرب اہل حق کی تائیدکررہاہے اور حق کی طرف بلاتا ہے۔(انوار احمدی)
اس تقریظ میں ’’تحقیق محققانہ‘ تائید ربانی‘ امداد مذہب ‘اہل حق‘ اور دعوت حق‘‘کے گرانقدر الفاظ خاص طور پر محسوس کرنے کے قابل ہیں کہ یہ ایک ’’مرشد روشن ضمیر‘‘ کے الہامی کلمات ہیں۔ عربی زبان میں رقم کردہ تقریظ اگرچہ بہت مختصر ہے لیکن بیحد جامع اور ناقابل انکار حقائق پر مشتمل ہے۔ مصنف کی زبان سے کتاب کی سماعت کے بعد اپنے قلبی اثرات کا اظہار ان لفظوں میں فرماتے ہیں۔
وجدتہ موافقا للسنۃ السنیۃ فسمیتہ بالانوار الاحمدیۃ وانماھذا مذھبی وعلیہ مدار مشربی یقبلہ رب المقبولین وجعلہ ذخیرۃ لیوم الدین۔
(میں نے اس کتاب کو سنت کریمہ کے مطابق پایا اس لئے میں نے اس کتاب کا نام ’’انوار احمدی‘‘ رکھا اور یہی میرا مذہب ہے اور اس کے مشتملات پر ہی میرے مسلک و مشرب کا مدار ہے۔)
کتاب کے بارے میں چند معروضات
اس عنوان کے تحت مولانا ارشد القادری رقمطراز ہیں۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب اپنے فکر انگیز مضامین، اپنے ایمان افروز مواد اور پر نور حقائق کے اظہار میں اپنے جرأت مندانہ کردار کے لحاظ سے قطعا اس لائق تھی کہ ہر مسلمان اس کے مطالعہ سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا اور عشق و ایمان کی حرارت سے اپنے دل کے احساسات کو گرم رکھنے کے لئے اسے حرزجا ںبناتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور سخت افسوس ہوا کہ ان ساری خوبیوں کے باوجود اس کتاب کو وہ ہمہ گیر شہرت حاصل نہیں ہوسکی جس کی بجاطور پر وہ مستحق تھی‘‘۔
اس کے آگے چند وجوہات کاذکر کرتے ہوئے تلخیص و تسہیل کے مقاصد تحریر فرماتے ہیں۔
تلخیص و تسہیل کے مقاصد
’’ان ساری وجوہات کے باوجود کتاب کی علمی و دینی افادیت اپنی جگہ پر ہے اور سچ پوچھئے تو اسی افادیت کی کشش نے میرے اندر اس جذبہ شوق کی تحریک پیدا کی کہ میں اس کتاب کے حقائق و معارف اور اس کے مفاہیم و معانی کو آج کی زبان میں منتقل کروں۔ اور اس کے پھیلے ہوئے مباحث کو سمیٹ کر اتنا محتصر اور سہل کردوں کہ عامۃ المسلمین بھی اس سے بھر پور استفادہ کر سکیں۔ اس طرح جنوبی ہندکے افق سے چمکنے والی روشنی مشرق و مغرب کے آفاق پر سپیدئہ سحر بن کر نمودار ہو، اور شمال وجنوب کے علماء اہل سنت کے درمیان اجنبیت کی وہ دیوار ٹوٹ کر گرجائے جو کہ ایک عرصہ دراز سے حائل ہے اور مسلک حق کی حمایت میں جنوبی ہند کی ایک بے مثال علمی شخصیت کے مجاہدانہ کردار سے ہند و پاک کی ساری سنی دنیا واقف ہوجائے‘‘۔
آگے حسن التفات کے ساتھ توقعات سے پر امید ہو کر والہانہ جذبہ کو دعوت دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’میرے یہ پاکیزہ مقاصد اپنے اندر اہل حق کے لئے کوئی کشش رکھتے ہوں تو مجھے امید ہے کہ حسن التفات کے ساتھ میری ان حقیر کو ششوں کا خیر مقدم کیا جائے گا خصوصیت کے ساتھ میں جنوبی ہند کے اہلِ سنن سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ہی گھر کے ایک گنج گراں مایہ کو ہر طالب حق کے دامن تک پہنچانے کے لئے اس والہانہ جذبہ سے کام لیں گے جو حق کے علمبرداروں کا شیوہ ہے تاکہ منصب رسالت کے احترام کی بنیاد پر جنوب و شمال کے درمیان آواز کی ہم آہنگی کا ایک نیا دور شروع ہو۔
جلالتِ شانِ مصطفے کے رنگا رنگ جلوے
مولانا ارشد القادری صفحہ 56پر تحریر کرتے ہیں۔
’’اس عنوان کے ذیل میں حضرت مصنف کے قلم کی روانی چشمہ کو ثر کی لہراتی ہوئی موج بن گئی ہے۔ کہیں کہیں تو جذبہ عقیدت کے تلاطم کی ایسی والہانہ کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ جی چاہنے لگتا ہے کہ نوک قلم کو آنکھوں سے لگالیں، ہونٹوں سے چومیں اور دل میں اتارلیں۔ مومنین کے قلوب کو سرور میں ڈبودینے والی ایسی مرصع عبارتیں کہ والہانہ محبت کا نور سطر سطر سے ٹپک رہا ہے اور حقائق و معانی کی قدر و قیمت کا کیا پوچھنا کہ عشق و اخلاص کی خوشبو سے الفاظ کے دامن تک مہک اٹھے ہیں۔ حضرت مصنف کے احساسات کے آئینے میں ایمان کا نقطہ عروج دیکھنے کے قابل ہے۔‘‘
پچھلے اوراق میں بیان کردہ احادیث طیبات کا جائزہ لیتے ہوئے حضرت مصنف رقم طراز ہیں۔
’’ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو قدر و منزلت اور جو خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حق تعالیٰ کے نزدیک ہے اس کا کچھ حساب و شمار نہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ منشا اور سبب اس کا کیا ہے؟ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی تھے تو اتنا کافی تھا کہ مثل دوسرے رسول کے بعد ادا کرنے فرض منصبی یعنی تبلیغ رسالت کے مستحق تحسین ہوتے لیکن اس کے کیا معنی کہ ہنوز عالم ہستی کا نام تک کسی کی زبان پر نہیں آیاتھا کہ لسان غیب سے آپ کی عظمت و نام آوری کے چرچے ہونے لگے‘‘۔
درود و سلام کی نورانی بحث
شیخ الاسلام کی بارگاہِ ذی وقار میں عشق و وفا کی سوغات نذر کرتے ہوئے مولانا ارشد القادریؒ تحریر کرتے ہیں۔
’’اس عنوان کے تحت مصنف نے صفحہء قرطاس پر علم و حکمت اور عشق و عرفان کے ایسے قیمتی جواہرات بکھیرے ہیں کہ ان کی جگمگاہٹ سے آنکھیں خیرہ ہونے لگتی ہیں۔ درود سلام بارگاہ رسالت میں تقرب کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہے اس لئے مصنف کتاب نے اس بحث کو علمی نوادرات اور عقیدہ و اخلاص کے محرکات سے اتنا آراستہ کیا ہے کہ اس کے بے لاگ مطالعہ کے بعد دلوں کو والہانہ محبت کی وارفتگی سے بچالینا مشکل ہے الاآنکہ کسی کے دل ہی پر سیہ بختی کی مہر لگ گئی ہو۔ حضرت مصنف نے درودو سلام کے سلسلے میں بحث کے اتنے نئے نئے گوشے پیدا کئے کہ ان کے ذہنی تجسس اور فکر کی نکتہ آفرینی پر حیرت ہوتی ہے۔‘‘
درود شریف کے فوائد و برکات اور فضائل و مناقب پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت رقمطراز ہیں۔
درود شریف کی برکت سے فقر تنگدستی دور ہوتی ہے، پردئہ غیب سے رزق کے بہت سے دروازے کھلتے ہیں۔ درود و شریف کا ورد رکھنے والا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ درود و سلام ایک مرشد کی طرح قلوب کا تزکیہ کرتا ہے۔ اور ورد رکھنے والے کو گناہوں کی آلودگی اور نفس کی شرارت سے محفوظ رکھتا ہے۔
فاضل مصنف کی ایک ایمان افروز عبارت
قیام تعظیمی کے ثبوت میں یہ ساری حدیثیں پیش کرنے کے بعد حضرت مصنف نتیجے کے طور پر تحریر فرماتے ہیں۔
’’اس تقریر سے کئی قیام شرعاً ثابت ہوگئے۔ اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام عرض کرتے وقت کھڑے رہنے میں تشبیہ بالعبادۃ ہے اور وہ جائز نہیں۔ بلکہ جب جنازہ وغیرہ کے واسطے عموماً قیام ضروری ہوا تو نبی پاک کے لئے بطریق اولیٰ ضرور ہوگا‘‘۔
قرآن میں منصب رسالت کی تعظیم کا حکم
فکر انگیز اور بصیرت افروز دلائل کے ساتھ قیام تعظیمی کے جواز کی بحث مکمل کرلینے کے بعد فاضل مصنف نے رسالت کی تعظیم و ادب کے موضوع پر عشق و عقیدت اور ایمان و عرفان کے جو گل بوٹے کھلائے ہیں ان کی خوشبو سے اپنی مشام جان کو معطر کیجئے۔
عام صحابہ کا شیوہ ادب
حضرت شیخ الاسلامؒ کے اسلوب نگارش، انشاء پردازی، ادبی وفنی خوبیوں کو دل کی اتھاہ گہرائی سے خراج فکر و نظر پیش کرتے ہوئے علامہؒ رقم کرتے ہیں۔
’’صحابہ کرام کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیسی والہانہ عقیدت و محبت تھی اس کے ثبوت میںمصنف کتاب نے کفار قریش کے ایک نمائندے کی زبانی جو ولولہ انگیز شہادت پیش کی ہے، وہ اہل ایمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور جذبہ شوق کی امنگوں کیلئے ایک نوید جانفرا ہے‘‘۔
راویانِ حدیث بیان کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر صنادید قریش نے عروہ نام کے ایک جہاندیدہ شخص کو حالات کاجائزہ لینے کے لئے اپنا نمائندہ بنا کر وادی حدیبیہ میں بھیجا۔ اس نے ہر رخ سے حضور کے لشکر کا جائزہ لیا، قدم قدم پر صحابہ کرام کی جاں نثاری اور والہانہ جذبہ وارفتگی کے بھی اس نے مناظر دیکھے۔ جب وہ واپس لوٹ کر مکہ گیا تو صنا دیدِ قریش کے سامنے جن الفاظ میں اس نے اپنے تاثرات کااظہار کیاوہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس نے کہا:
’’اے میری قوم! قسم ہے کعبہ کے پروردگار کی کہ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے بادشاہوں کے دربار دیکھے ہیں۔ قیصر و کسریٰ جیسے سطوت و جبروت والے سلاطین کی پیش گاہوں میں بھی گیا ہوں لیکن جس والہانہ محبت کے ساتھ محمدا کے اصحاب محمدا کی تعظیم کرتے ہیں اس کی مثال میں نے کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں دیکھی۔ میںنے دیکھا کہ جب وہ اپنی ناک صاف کرتے ہیں تو ان کے اصحاب اسے اپنی ہتھیلیوں پر لے لیتے ہیں اور اپنے جسم اور منہ پر ملتے ہیں اور جب وہ کسی کا م کا حکم دیتے ہیں تو اس کی تعمیل کے لئے ہر شخص ایک دوسرے پر سبقت کرتا ہے اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو اعضائے وضو سے جو پانی ٹپکتا ہے اسے حاصل کرنے کے لئے صحابہ اس طرح ایک دوسرے پر گرتے ہیں کہ جیسے جنگ وجدال کی نوبت آجائے گی۔ اور صحابہ کے دلوں پر محمد(ﷺ) کی ایسی ہیبت چھائی رہتی ہے کہ کوئی آنکھ بھر کر انہیں نہیں دیکھ سکتا‘‘۔
پوری کتاب کی تلخیص و تسہیل میں مولانا نے جس رنگ میں حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت اور آپ کے ادبی اسلوب کو خراج عقیدت پیش کیا ہے گویا اس کے وہ موجد بھی تھے اور خاتم بھی الغرض آخر میں مولانا کے پیش لفظ کے دعائیہ کلمات پر ہی اس مختصر سے جائزہ کو ختم کیا جاتا ہے۔
’’میں صمیم قلب کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ نئی ترتیب وتہذیب کے ساتھ اس کتاب مستطاب کی اشاعت سے میرا جو دینی مدعا ہے خدائے قدیر اسے پورا فرمائے اور میری اس خدمت کو قبول کرے، اور حضرت شیخ کی اس گرا نمایہ کتاب کے ذریعہ ان لوگوں پر اپنی ہدایت وتوفیق کا دروازہ کھولے جو فکری گمراہیوں میں مبتلا ہیں‘‘۔
٭٭٭