قضیہ حملیہ کی مختلف اعتبارات کی بناء پر چھ طرح سے تقسیم کی جاتی ہے۔
۱۔رابطہ کے مذکورہونے یانہ ہونے کے اعتبارسے۔
۲۔ایجاب وسلب کے اعتبار سے۔
۳۔حرف سلب کے موضوع ومحمول کا جز بننے یا نہ بننے کے اعتبارسے۔
۴۔موضوع کے کلی یاجزئی ہونے کے اعتبار سے۔
۵۔وجود موضوع کے اعتبار سے ۔
۶۔جہت کے مذکور ہونے یانہ ہونے کے اعتبارسے۔
رابطہ کے مذکورہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے قضیہ حملیہ کی تقسیم
اس اعتبار سے قضیہ حملیہ کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ثُنائیہ ۲۔ثُلاثیہ
۱۔ ثنائیہ:
وہ قضیہ حملیہ جس میں رابطہ محذوف ہو جیسے زَیْدٌ قَائِم۔
۲۔ ثلاثیہ:
وہ قضیہ حملیہ جس میں رابطہ مذکور ہو جیسے زَیْدٌ ھُوَ قَائِم۔
ایجاب وسلب کے اعتبارسے قضیہ حملیہ کی تقسیم
اس اعتبار سے قضیہ حملیہ کی دوقسمیں ہیں۔
۱۔موجبہ ۲۔سالبہ
۱۔موجبہ:
قضیہ حملیہ میں اگر کسی شے کے ثبوت کا حکم ہوتو اسے قضیہ حملیہ موجبہ کہتے ہیں۔ جیسے: اَلاِنْسَانُ حَیَوَانٌ۔
۲۔ سالبہ:
قضیہ حملیہ میں اگر کسی شے کی نفی کا حکم ہوتواسے قضیہ حملیہ سالبہ کہتے ہیں۔ جیسے أَلاِنْسَانُ لَیْسَ بِفَرَسٍ۔
حمل کابیان
تعریف:
دوایسی چیزیں جو مفہوم کے اعتبار سے متغائر ہوں ان کو وجود کے اعتبار سے ایک کردینے کا نام حمل ہے ۔ جیسے زَیدٌ کَاتِبٌ میں زید کا مفہوم اورہے اور کاتب کا مفہوم اور،مگر ان کو وجود کے اعتبار سے ایک کردیاگیاہے یعنی جو زید ہے وہی کاتب ہے اور جو کاتب ہے وہی زید ہے۔
حمل کی اقسام:
حمل کی دوقسمیں ہیں:
۱۔ حمل بِالْاِشْتِقَاقْ ۲۔ حمل بِالْمُوَاطَاۃ
۱۔ حمل بالاشتقاق:
وہ حمل جو”فی”،”ذو” یا”لام” کے واسطے سے ہو جیسے زَیْدٌ فِی الدَّارِ، اَلْمَالُ لِزَیْدٍ ،خَالِدٌ ذُوْمَالٍ اسے حمل بالاشتقاق کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ان حروف کے ذریعے حمل ہوتاہے وہاں کوئی مشتق محذوف ہوتاہے۔
۲۔حمل بالمواطاۃ:
وہ حمل جوبلاواسطہ ہو جیسے زَیْدٌ کَاتِبٌ۔
*****