اَہلِ مَحَبَّت کا دُرُود میں خود سُنتا ہوں

اَہلِ مَحَبَّت کا دُرُود میں  خود سُنتا ہوں 

سرکارِ مدینہ ،راحتِ قلب وسینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : ’’اَسْمَعُ صَلٰوۃَ اَھْلِ مَحَبَّتِیْ وَاَعْرِفُھُمْ ،یعنی اہلِ مَحَبَّت کادُرُود میں  خُود سنتا ہو ں  اور ا نہیں   پہچانتا ہوں  ،وَتُعْرَضُ عَلَیَّ صَلٰوۃُ غَیْرِھِمْ عَرْضًا ،جبکہ دوسروں  کا دُرُود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ (مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات، ص ۱۵۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں  بھی چاہیے کہ آقائے دوجہان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ بابَرَکات پر بے حد دُرُود اور لاکھوں  سلام پڑھا کریں  یقینا صِدق و اِخلاص کے ساتھ پڑھا ہوادُرُود شریف حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نہ صرف سَماعت فرماتے ہیں  بلکہ اپنے ان سچے عاشِقوں  کوجوابِ سلام بھی عطا فرماتے ہیں۔ جیساکہ 

رَوضۂ اَقدس سے جوابِ سلام

حضرتِ شیخ ابونَصر عبدُالواحد صُوفی کَرخیعَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں  : ’’میں  حج سے فارِغ ہوکر مَدینہ منوَّرہ رَوضہ اَنور پر حاضِر ہوا، حُجرہ شریفہ کے
 پاس بیٹھا ہواتھا کہ اتنے میں  حضرتِ شیخ ابوبکردیار بِکری وہاں  حاضِر ہوئے اور (حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ) مواجہہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا : ’’اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَارَسُولَ اللّٰہ‘‘تو میں  نے اور تمام حاضِرین نے سُنا کہ رَوضہ شریفہ کے اَندر سے آواز آئی :وَعَلَیْکَ السَّلامُ یَا اَبَابَکْرٍ،اے ابو بکر تجھ پر سلامتی ہو۔ (الحاوی للفتاوی،کتاب البعث،تنویر الحلک فی امکان رؤیۃ النبی والملک ،۲/۳۱۴)
وہ سلامت رہا قِیامت میں 
پڑھ لئے دل سے جس نے چار سلام
اس جوابِ سلام کے صدقے
تاقیامت ہوں  بے شمار سلام
   (ذوقِ نعت،ص۱۱۹)
بلکہبَعض خُوش نصیبوں  پر تو اس قَدر کرمِ خاص فرماتے ہیں  کہ ا نہیں   عَین بیداری کے عالَم میں  دَست بوسی کا شَرَف عطافرماتے ہیں  ۔ چُنانچہ علاَّمہ شہابُ الدِّین خفاجی مصریعَلیْہ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْقَوِیاپنی کتاب نسیم ُالرِیاض فی شَرح شفاءِ القاضی عیاض میں  فرماتے ہیں  : ’’حضرت شیخ احمدرَفاعی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی کا معمول تھا کہ آپ  رَحمۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  ہر سال حاجیوں  کے ذَرِیعے بارگاہِ رسالت ماٰب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں  اپنا سلام بھجوایا کرتے تھے ۔ لیکن جب بذاتِ خُود ا نہیں   مَدینہ طیبہ زَادَھَااللّٰہُ شَرَفاًوَّتَعْظِیْماً  کی حاضِری کا شَرَف

 نصیب ہوا ۔ تورَوضہ اَنور کے سامنے کھڑے ہوکرچند اَشعار پیش کئے ۔ چُنانچہ فرماتے ہیں  :

فِیْ حَالَۃِ الْبُعْدِ رُوْحِیْ کُنْتُ اُرْسِلُھَا
تُقَبِّلُ اْلاَرْضَ عَنِّیْ فَھِیَ نَائِبَتِیْ
ترجمہ: دُوری کی حالت میں  اپنی رُوح کو اپنا نائب بنا کربھیجا کرتا تھا تاکہ وہ میری طرف سے اس اَرضِ مُقَّدس کو بوسہ دے ۔
وَھٰذِہٖ نَوْبَۃُ اْلاَشْبَاحِ قَدْ حَضَرَتْ
فَامْدُدْ یَدَیْکَ لِکَیْ تَحْظٰی بِھَا شَفَتَی
ترجمہ :اور اب جسم کی باری ہے جو کہ حاضِردَربار ہے۔پس یارسُول اپنا دَست مُبارک بڑھائیے تاکہ میرے ہونٹوں  کوسَعادت مند ی نصیب ہو۔
کہا جاتاہے کہ رَوضہ اَنور سے دَستِ مُبارک ظاہر ہوا اور شیخ احمدرَفاعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی نے اسے چُوم لیا ۔ (نسیم الریاض،القسم الثانی ،الباب الثال فی تعظیم امرہ، فصل ومن اعظامہ …الخ،۴/۵۴۳) 
تیرے روضے کی جالیوں  کے پاس ساتھ رَحم و کرم کی لیکر آس
کتنے دُکھیارے روز آ آ کے شاہِ ذیشاں  سلام کہتے ہیں 
(ذوقِ نعت،۵۸۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حاضریٔ بارگاہ کے آداب 

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! کس قَدرخُوش بَخت ہیں  وہ لوگ ج نہیں   مَدینہ منوَّرہ زَادَھَااللّٰہُ شَرَفاًوَّتَعْظِیْماً میں  رَوضہ رسول کے رُوبرو سلام پیش کرنے کی سَعادت نصیب ہوتی ہے ۔ اللّٰہ تبارک وتعالٰیہماری زِندگی میں  بھی وہ مُبارک لمحات لائے اور ہم بھی سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دَربار ِگوہر بار میں  حاضِر ہوکر بَصد اِحتِرام سلام عرض کریں  ۔ صَدرُالشَّریعہ، بَدْرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیْہ رحمۃُ اللّٰہِ الْقویروضہ ٔرسول پر حاضِری کے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :’’ حاضریٔ مسجدِ (نَبَوی علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃ وَالسَّلام) سے پہلے تمام ضَروریات سے جن کا لگاؤ دل بٹنے کا باعث ہو، نہایت جلد فارِغ ہو ان کے سِوا کسی بیکار بات میں  مشغول نہ ہو معاً وضو و مسواک کرو اورغُسل بہتر، سفید پاکیزہ کپڑے پہنو اور نئے بہتر، سُر مہ اورخُوشبو لگاؤ اور مُشک اَفضل ۔ اب فوراً آستانۂ اَقدس کی طرف نہایت خُشوع و خُضو ع سے متوجِّہ ہو، رونا نہ آئے تو رونے کا مُنہ بناؤ اور دل کو بزور رونے پر لاؤ اور اپنی سنگ دلی سے رسُولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف اِلتجا کرو ۔ اب دَرِ مسجد پر حاضر ہو، صلوٰۃ و سلام عرض کرکے تھوڑا ٹھہرو جیسے سرکار سے حاضِری کی اجازت مانگتے ہو، بِسْمِ اﷲ کہہ کر سیدھا پاؤں  پہلے رکھ کر ہمہ تن اَدب ہو کر داخل ہو۔ اس وَقت جو اَدب

 وتَعْظِیم فرض ہے ہر مسلمان کا دل جانتا ہے آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں (اور) دل سب، خیالِ غیر سے پاک کرو، مسجدِ اَقدس کے نَقْش و نگار نہ دیکھو۔ اگر کوئی ایسا سامنے آئے جس سے سلام کلام ضَرور ہو تو جہاں  تک بنے کترا جاؤ، وَرنہ ضرورت سے زیادہ نہ بڑھوپھر بھی دل سرکار ہی کی طرف ہو۔‘‘ (بہارِ شریعت، ۱/۱۲۲۳)

مزید فرماتے ہیں  :’’ (کہ جب رَوضۂ اَنور کے قریب پہنچے تو) اب اَدب و شوق میں  ڈوبے ہوئے گردن جھُکائے، آنکھیں  نیچی کئے ، آنسو بہاتے، لرزتے کانپتے ، گناہوں  کی نَدامت سے پسینہ پسینہ ہوتے، سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فَضل و کَرَم کی اُمید رکھتے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قَدَمینِ شَرِیفَین کی طرف سے سنہر ی جالیوں  کے رُوبَرُو مواجَھہ شریف میں  حاضِرہوں  کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  اپنے مزارِ پُر اَنوار میں  رُو بَقبلہ جلوہ اَفروز ہیں  ، مُبارَک قدموں  کی طرف سے آپ حاضِر ہوں  گے تو سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نِگاہِ بے کس پناہ براہِ راست آپ کی طرف ہوگی اور یہ بات بے حد ذَوق اَفزا ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے لئے سَعادتِ دارَین کا سبب بھی ہے ۔ ‘‘ (بہارِ شریعت، ۱/۱۲۲۴،ملخصاً)
قبلہ کو پیٹھ کئے کم اَز کم چار ہاتھ (یعنی دو گز)دُور نَماز کی طرح ہاتھ باندھ کر سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرۂ اَنور کی طرف رُخ کر کے کھڑے

 ہوں  کہ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘وغیرہ میں  یہی ادب لکھا ہے کہ یَقِفُ کَمَا یَقِفُ فِی الصَّلٰوۃ ،یعنی سر کارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دَربار میں  اِس طرح کھڑا ہو جس طرح نَماز میں  کھڑا ہوتا ہے ۔ یاد رکھیں  ! سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے مزارِ پُر اَنوار میں  عین حیاتِ ظاہری کی طرح زِندہ ہیں  اور آپ کو بھی دیکھ رہے ہیں  بلکہ آپ کے دِل میں  جو خَیالات آرہے ہیں  اُن پر بھی مُطَّلع ہیں  ۔ خبردار! جالی مُبارَک کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچیں  کہ یہ خِلافِ اَدَب ہے کہ ہمارے ہاتھ اِس قابِل ہی  نہیں   کہ جالی مُبارَک کو چھو سکیں ، لہٰذا چار ہاتھ (یعنی دو گز) دُور ہی رہیں  ، یہ کیا کم شَرَف ہے کہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کو اپنے مواجَھَہ اَقدس کے قریب بُلایا اور سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نِگاہِ کَرَم اب خُصُوصِیَّت کے ساتھ آپ کی طرف ہے ۔ (بہارِ شریعت ،۱/۱۲۲۴-۱۲۲۵،ملخصاً)

اب اَدب اور شوق کے ساتھ دَرد بھری آواز میں  مگر آواز اتنی بُلند اور سخت نہ ہو کہ سارے اَعمال ہی ضائع ہوجائیں ، نہ بالکل ہی پَست کہ یہ بھی سُنَّتکے خِلاف ہے۔بلکہ مُعتَدِل آوازمیں  اِن الفاظ کے ساتھ سلام عرض کریں :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَ خَلْقِ اللّٰہِ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاشَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی اٰلِکَ وَاَصْحَابِکَ وَاُمَّتِکَ اَجْمَعِیْنَ ،

(یعنی) اے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ پر سلام اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت اوربَرَکتیں  ۔ اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ پر سلام ۔ اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کی تمام مخلوق سے بہتر، آپ پر سلام۔ اے گُناہ گاروں  کی شَفاعت کرنے والے آپ پر سلام، آپ پر، آپ کی آل و اَصحاب پر اور آپ کی تمام اُمَّت پر سلام ۔

محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں  سے
اور مجھ سے بھی سرزَد نہ کبھی بے اَدَبی ہو
  (وسائل بخشش،ص۱۹۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
امام قسطلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیْ نقل فرماتے ہیں  :’’جوکوئی حُضورِاکرم ، نورِ مُجسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبرِمُعَظَّم کے رُوبَرُو کھڑا ہوکر یہ آیتِ شریفہ پڑھے : اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ (پ ۲۲،الاحزاب :۵۶) پھر ستَّر مرتبہ یہ عرض کرے : ’’ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ یَامُحَمَّد‘‘فِرِشتہ اِس کے جَواب میں  یوں  کہتا ہے: اے فُلاں  ! تجھ پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت  ہو ۔ اور اُس کی کوئی حاجَت باقی  نہیں   رہتی۔‘‘ (المواہب اللدنیۃ،المقصد العاشر،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف …الخ، ۳/۴۱۲)
جہاں  تک زبان ساتھ دے، دِل جَمعی ہو مختلف اَلقاب کے ساتھ سلام عرض کرتے رہیں  ، اگر اَلقاب یاد نہ ہوں  تو  اَلصَّلٰوۃُوَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ 

اللّٰہکی تکرار کرتے رہیں  ، جن جن لوگوں  نے آپ کو سلام کے لئے کہا ہے اُن کا بھی سلام عرض کریں ۔ یہاں  خُوب دُعائیں  مانگیں  اور باربار اِس طرح شَفاعت کی بھیک مانگیں :اَسْءَلُکَ الشَّفَاعَۃَ یَارَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یعنی یَارَسُولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں  آپ کی شَفاعت کا طلبگار ہوں  ۔(بہارِ شریعت ،۱/۱۲۲۵-۱۲۲۶،ملخصا)

سرکار عَلَیْہِ الصلٰوۃُوَالسَّلام نے
حوصلہ اَفزا ئی فرمائی

مَدینہ مُنوَّرہ  ۱۴۰۵  ؁ھ کی حاضِری میں  شیخِ طریقت، امیرِاَہلسنَّت دَامَت بَرَکاتُہم العالیہکو آپ کے ایک پیر بھائی مرحوم حاجی اسمٰعیل نے ایک واقعہ سُنایا کہ ایک پچاسی سالہ بُڑھیا حج کے لئے آئی تھی، مَدینہ مُنَوَّرہ میں  سنہری جالیوں  کے سامنے صلوٰۃ وسلام کے لئے حاضِر ہوئی اور اپنے ٹوٹے پھوٹے اَلفاظ میں  صلوٰۃ وسلام عرض کرنا شُروع کیا ناگاہ ایک خاتون پر نظر پڑی جوایک کتاب میں  سے دیکھ دیکھ کر بڑے ہی عُمدہ اَلقاب کے ساتھ صلوٰۃ وسلام عرض کر رہی تھی، یہ دیکھ کر بے چاری اَن پڑھ بُڑھیا کا دِل ڈوبنے لگا، عرض کیا:یَارَسُوْلَ اللّٰہ    صَلَّی اللّٰہُ 

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں  تو پڑھی لکھی ہوں   نہیں   جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شایانِ شان اَلقاب کے ساتھ سلام عرض کروں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عَظْمَت وشان واقعی بہت بُلند وبالا ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  تو اُ نہیں   کا سلام قَبول فرماتے ہوں  گے جو بہترین اَنداز میں  سلام پیش کرتے ہوں  گے، ظاہِر ہے مجھ اَن پڑھ کا سلام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کہاں  پسند آئے گا۔ دِل بھر آیا، رو دھوکر چُپ ہورہی، رات کو جب سوئی تو قسمت اَنگڑائی لے کر جاگ اُٹھی، کیا دیکھتی ہے کہ سرہانے اُمَّت کے والی، سرکارِ عالی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے ہیں  ، لَب ہائے مُبارَکہ کوجُنبِش ہوئی،پُھول جھڑنے لگے، اَلفاظ کچھ یوں  ترتیب پائے:’’مایوس کیوں  ہوتی ہو؟ ہم نے تمہارا سلام سب سے پہلے قَبول فرمایا ہے۔‘‘

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ !ہمیں  رَوضۂ رسول کی بااَدب حاضری، سنہری جالیوں  کے رُوبَرو صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی سَعادت اور جلوۂ محبوب میں  اِیمان و عافِیَّت کے ساتھ شَہادت کی موت نصیب فرما ۔ 
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

شُما تَت کی تعریف

  دوسروں  کی تکلیف اور مصیبتوں  پر خوشی کا اظہار کرنے کوشُماتَت کہتے ہیں ۔(حدیقہ ندیہ ، ۱/ ۶۳۱)
Exit mobile version