الف: جن آیتوں میں شفاعت کی نفی ہے وہا ں یا تو دھونس کی شفاعت مراد ہے یاکفار کے لئے شفاعت یا بتوں کی شفاعت مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے جبراً شفاعت کوئی نہیں کرسکتا یا کافروں کی شفاعت نہیں یا بت شفیع نہیں ۔
ب:جہاں قرآن شریف میں شفاعت کاثبوت ہے وہاں اللہ کے پیاروں کی مومنوں کے لئے محبت والی شفاعت بالا ذن مراد ہے یعنی اللہ کے پیارے بندے مومنو ں کو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے محبو بیت کی بنا پر بخشوائیں گے ۔
”الف ”کی مثال یہ ہے :
(1) یَوْمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ ؕ
وہ قیامت کادن جس میں نہ خرید وفروخت ہے نہ دوستی نہ شفاعت ۔(پ3،البقرۃ:254)
(2) وَاتَّقُوۡا یَوْمًا لَّا تَجْزِیۡ نَفْسٌ عَنۡ نَّفْسٍ شَیْـًٔا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنۡفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ہُمْ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۱۲۳﴾
اور اس دن سے ڈرو کہ کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوگی اور نہ اس کو کچھ لے کر چھوڑدیں اور نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے اور نہ ان کی مدد ہو ۔(پ1،البقرۃ:123)
(3) فَمَا تَنۡفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیۡنَ ﴿ؕ۴۸﴾
پس نہ نفع دے گی ان کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ۔(پ29،المدثر:48)
(4) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ
کیا کافروں نے اللہ کے مقابل سفارشی بنارکھے ہیں۔(پ24،الزمر:43)
(5) مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنْ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ۱۸﴾
اور ظالموں کانہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے ۔(پ24،المؤمن:18)
(6) وَلَا یَمْلِکُ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنۡ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَ ہُمْ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۶﴾
شفاعت کا اختیار نہیں سواء ان کے جو حق کی گواہی دیں اورعلم رکھیں۔(پ25،الزخرف:86)
(۷) مَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِہٖمِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا شَفِیْعٍ
اللہ سے الگ ہو کر نہ تمہارا کوئی دوست ہے نہ سفارشی ۔(پ۲۱،السجدۃ:۴)
ان جیسی تمام آیتو ں میں کفارکی شفاعت،بتوں کی شفاعت،جبری شفاعت کا انکار ہے ۔ ان آیتو ں کو نبیوں ،ولیوں یامومنوں کی شفاعت سے کوئی تعلق نہیں۔
ب کی مثال یہ ہے :
(1) وَصَلِّ عَلَیۡہِمْ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ
اور آپ انہیں دعا دیں بے شک آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔(پ11،التوبۃ:103)
(2) مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہٖ
وہ کون ہے جو رب کے نزدیک اس کی بے اجازت شفاعت کرے ۔(پ3،البقرۃ:255)
(3) لَا یَمْلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحْمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۷﴾
یہ لوگ شفاعت کے مالک نہیں سواء ان کے جنہوں نے رب کے نزدیک عہدلے لیا ہے ۔(پ16،مریم:87)
(4) وَلَا یَشْفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی
یہ حضرات نہ شفاعت کریں گے مگر اس کی جس سے رب راضی ہو ا(مومن کی)۔(پ17،الانبیآء:28)
(5) لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہٗ قَوْلًا ﴿۱۰۹﴾
شفاعت نفع نہ دے گی مگر ان کو جس کے لئے رب نے اجازت دی اور اس کے کلام سے رب راضی ہوا ۔(پ16،طٰہٰ:109)
ان جیسی بہت سی آیتو ں میں مسلمانوں کی شفاعت مراد ہے جو اللہ کے پیارے بندے کریں گے تا کہ آیات میں تعارض نہ ہو۔
نوٹ ضروری : جس حدیث میں ارشاد ہے کہ سنت چھوڑنے والا شفاعت سے محروم ہے۔ اس سے بلندی درجات کی شفاعت مراد ہے یعنی اس کے درجے بلند نہ کرائے جائیں گے کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ گناہ کبیرہ والوں کے لئے شفاعت ہے یعنی بخشش کی شفاعت ، نیز بعض روایات میں ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے والے اپنے جانور اور مال کندھے پر لادے ہوئے حاضر بارگاہ نبوی ہوں گے اور شفاعت کی درخواست کریں گے مگر انہیں شفاعت سے منع کردیا جاوے گا ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جوزکوٰۃ کے منکر ہو کر کافر ہوگئے تھے اور کافر کی شفاعت نہیں جیسے خلافت صدیقی میں بعض لوگ زکوٰۃ کے منکر ہوگئے یا مراد ہے شفاعت نہ کرنا نہ کہ نہ کرسکنا ، اس کا بہت خیال چاہیے یہاں بہت دھوکا لگتا ہے ۔