زیارتِ سرکار کا وظیفہ

زیارتِ سرکار کا وظیفہ

حضرت سَیِّدُناابن عباس رَضِی اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُماسے روایت ہے کہنبیِّ رَحمت، شفیع اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’جو مومن جُمُعہ کی رات دو رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں  سُورَۃُ الْفَاتِحَہ کے بعد 25 مرتبہ ’’قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ پڑھے ، پھر یہ دُرُود ِپاک ’’صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِیِّ الاُمِّیْ‘‘ہزار مرتبہ پڑھے تو آنے والے جمعہ سے پہلے خَواب میں  میری زِیارت کرے گا اور جس نے میری زِیارت کی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے گُناہ مُعاف فرمادے گا ۔ ‘‘(القول البدیع ،الباب الثالث فی الصلاۃ علیہ فی اوقات مخصوصۃ،ص ۳۸۳ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مندرجہ بالا دُرُود شریف کے فَضائل میں  شیخ عبدالحق محدِّث دِہلوی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نقل کرتے ہیں  :’’جو شخص جُمُعہ کے دن ایک ہزار بار یہ دُرُود شریف پڑھے گا تو وہ سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خَواب میں  زِیارت کرے گا، یا جنَّت میں  اپنی منزل دیکھ لے گا ، اگر پہلی بار میں  مَقصد پورا نہ ہو، تو دوسرے جُمُعہ بھی اِس کو پڑھ لے ، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  پانچ جُمعوں  تک اس کو سرکار مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زِیارت
 ہوجائے گی ۔ ‘‘(تاریخِ مدینہ، ص۳۴۳) 
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضورِ پاک، صاحبِ لَولاکصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی مِعراج ،دیدارِ کبریاہے اور ایک عاشقِ رسول کی مِعراج دیدارِ مصطفٰے ہے ۔ کون ایسا بدنصیب ہوگا جس کے دل میں  پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دیدار کی تمنَّا نہ ہو، یقیناً ہر عاشقِ رسول کی یہی آرزو ہوگی کہ مجھے دیدارِ مصطفٰے نصیب ہوجائے ۔ 
کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں  میں 
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں  میں 
اُ نہیں   نہ دیکھا تو کِس کام کی ہیں  یہ آنکھی
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار، آنکھوں  میں 
  (سامانِ بخشش،ص۱۳۱)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُناشیخ ابُوالمَواہب شاذْلی عَلَیْہ رَحمۃُ اللّٰہِ الْقَوی فرماتے ہیں  : ’’جو شخص نبیِّ مکرم ، نورِ مُجَسَّمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی زِیارت کرنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ حُضُور سیدعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کثرت سے ذِکر کرتا رہے اور سادات و اولیاء سے مَحَبَّت رکھے وگرنہ خَواب (میں  زِیارت ) کا دَروازہ اِس پر بند ہے ، کیونکہ یہ نُفوسِ قُدسیہ تمام لوگوں  کے سردار ہیں  ، یہ جن سے ناراض ہوتے ہیں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
 وَسَلَّم بھی اُن سے ناراض ہوجاتے ہیں  ۔ ‘‘(افضل الصلوات علی سید السادات ،ص۱۲۷) 
اگر ہم بھی اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّاور اس کے رسول کی رضا چاہتے ہیں  اور حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زِیارت کے خَواہشمند ہیں  تو دُرُودِپاک کو اپنے صُبح و شام کا وَظیفہ بنالینا چاہیے،سچی لگن کے ساتھ اس میں  مگن رہیں  گے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ایک نہ ایک دن ضَرور ہم پر کرم ہوگا اور ہمیں  بھی زِیات نصیب ہوجائے گی ۔ 
میرے آقا ئے نعمت ، سرکارِ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن مختلف اَوقات میں  پڑھے جانے والے وَظائف اور دُعاؤں  کے مَدَنی گلدستے ’’اَلْوَظِیْفَۃُ الْکَرِیْمَہ‘‘میں  حصولِ زِیارتِ مُصْطفٰے کے لئے دُرُودِپاک کے چند مَخصوص صیغے ذِکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں  : (دُرُودِپاک ) خالص تَعْظِیمِ شانِ اَقدس کے لئے پڑھے ، اس  نِیَّت  کو بھی (دل میں  )جگہ نہ دے کہ مجھے زِیارت عطا ہو ، آگے اُن کا کرم بے حد و اِنتہا ہے ۔ مُنہ مَدینہ طیبہ کی طرف ہو اور دل حُضُور ِاَقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف ، دَستْ بستہ پڑھے  (اور) یہ تَصوُّر باندھے کہ رَوضۂ انور کے حُضُور حاضِر ہوں  اور یقین جانے کہ حُضُور انور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اسے دیکھ رہے ہیں  ،اس کی آواز سن رہے ہیں  ،اس کے دل کے خطروں  پر مُطَّلع ہیں  ۔  (الوظیفۃ الکریمہ، ص ۲۸)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دُرُودِپاک پڑھنے کی بَرَکت سے بعض عاشقانِ رسول کو خَواب میں  حُضُور سَیِّد عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے دِیدارِ پُر بہار سے تو مُسْتَفِیْض فرماتے ہی ہیں  مگر کچھ ایسے بھی عاشقانِ رسول ہوتے ہیں  کہ جن کی بے اِنتہا مَحَبَّت کو دیکھ کر دریائے رَحمت جوش میں  آجاتا ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمرَوضۂ انور سے باہر جلوہ گر ہوکر ان خوش نصیبوں  کو عَین حالتِ بیداری میں  شربتِ دِیدار سے نوازتے ہیں  ۔ چُنانچہ

اَعلٰی حَضْرت کا شوق دیدار

میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنَّت، مجدِّدِ دین ومِلَّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن جب دوسری مرتبہ زِیارتِ نبوِی کے لئے مَدینہ طیبہ زَادَھَااللّٰہُ شَرَفاًوَّتَعْظِیْماً حاضِر ہوئے ، شوقِ دیدار میں  رَوضہ شریف کے مُوَاجَہہ میں  دُرُود شریف پڑھتے رہے ، یقین کیاکہ ضرورسرکارِ ابد قرار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عزَّت اَفزائی فرمائیں  گے ، اور باِلمُوَاجَہ(رُوبرو) زِیارت سے مُشرَّف فرمائیں  گے ۔ لیکن پہلی شب ایسا نہ ہوا تو کچھ کبیدہ خاطِر (غمزَدہ) ہو کرایک غزل لکھی جس کا مَطْلَع یہ ہے ۔
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں 
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
(حدائق بخشش،ص۹۹)
اس غزل کے مَقْطَع میں  اسی کی طرف اشارہ کیا ، فرماتے ہیں  :

کوئی کیوں  پوچھے تیری بات رضا!

تجھ سے شیدا ہزار پھرتے ہیں (حدائق بخشش،ص۱۰۰)
  یہ غزل مُوَاجَہہ میں  عرض کر کے اِنتظار میں  مؤدَّب بیٹھے ہوئے تھے کہ آخر کار راحتُ الْعاشِقین مُراد الْمُشْتاقینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے عاشقِ حقیقی کے حال زار پر خاص کرم فرمایا،اِنتظار کی گھڑیاں  ختم ہوئیں  اور قسمت انگڑائی لے کر اُٹھ بیٹھی…نِقابِ رُخ اُٹھ گیا ۔ خُوش نصیب عاشق نے عَین بیداری میں  اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چشمانِ سر سے دیدار کرلیا۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، ۱/ ۹۲)
اب کہاں  جائے گا نقشہ تیرا میرے دل سے
تہہ میں  رکھا ہے اِسے دل نے گمانے نہ دیا
(سامانِ بخشش،ص۶۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ٍ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زِیارت کے لیے جتنے بھی دُرُودِپاک کے صیغے ہیں  جس پر چاہیں  عمل کریں ، لیکن اِس  نِیَّت  سے پڑھنا کہ میں  دُرُودِپاک پڑھوں  گا تو سرکار  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرے خَواب میں  تشریف لائیں  گے ، مناسب  نہیں   ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ عملِ خاص کوحُضُور اَقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تَعْظیم اورحُصُولِ ثواب کی  نِیَّت  سے کیا جائے آگے اُن کے کرم کی کوئی اِنتہا  نہیں   اگر وہ چاہیں  گے تو شربت دِیدار سے ضَرورمُسْتَفِیْض فرمائیں  گے ۔ 

اگربالفرض زِیارت میں  تاخیر ہوبھی جائے یا پھر کسی کو زِیارت ہوتی ہی  نہیں   تو اس میں  بھی دل برداشتہ ہونے کی ضرورت  نہیں   ، بلکہ اسی شوق ولگن کے ساتھ حُضُور   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہِ عالی میں  دُرُود وسلام کے گجرے نِچھاور کرتے رہنا چاہیے ،تاخیر میں  بھی ضَرورکوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ تاخیر کی وجہ سے دل برداشتہ ہونے والے اسلامی بھائی اس واقعہ سے درس حاصل کریں  ۔

حضرتِ سیِّدُنامالک بن دینا ر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں  : میں  متواتر چودہ (14) سال تک حج کی سَعادتِ عظمیٰ سے سرفراز ہوتارہااور ہر سال ایک دَرویش کو کعبۂ معظمہ زَادَھَااللّٰہُ شَرَفاًوَّتَعْظِیْماً کا دروازہ پکڑے دیکھا۔ جب وہ ’’لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک‘‘ کہتا تو غیب سے آواز سنائی دیتی لَالَبَّیْکَ ۔ میں  نے چودھویں (14)سال اس شخص سے پوچھا : اے دَرویش ! تو بہرا تو  نہیں   ؟ اُس نے جواب دیا : میں  سب کچھ سُن رہا ہوں  ۔ میں  نے کہا :پھر یہ تکلیف کیوں  اُٹھاتا ہے؟ اس نے کہا : یاشیخ ! میں  حلفیہ بیان کرتا ہوں  کہ اگر بجائے چودہ سال کے چودہ ہزار سال میری عُمر ہو اور بجائے سال بھر کے، ہر روز ہزار بار یہ جواب ’’لَالَبَّیْکَ‘‘ سُنائی دے تو پھر بھی اِس دروازے سے سر نہ اُٹھاؤں  گا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں  کہ ابھی ہم مصروفِ گُفتگُو تھے کہ اچانک آسمان سے ایک کاغذ اُس کے سینے پر گرا ۔ اُس نے وہ کاغذ میری طرف بڑھایا ، میں  نے پڑھا تو اس میں  لکھا تھا : ’’اے مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ! تو میرے بندے کو مجھ 

سے جُدا کرتا ہے کہ میں  نے اِس کے چودہ سال کے حج قَبول  نہیں   کیے ، ایسا  نہیں   بلکہ اِس مُدَّت میں  آنے والے تمام حاجیوں  کے حج بھی اِس کی پکار ہی کی بَرَکت سے قَبول کیے ہیں  تاکہ کوئی میری بارگاہ سے محروم نہ جائے۔‘‘(عاشقان رسول کی ۱۳۰حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں ،ص ۹۶)

جلوۂ یار ادھربھی کوئی پھیرا تیرا حسرتیں  آٹھ پہر تکتی ہیں  رستہ تیرا
(ذوقِ نعت،ص۱۵)
الہٰی منتظر ہوں  وہ خرامِ ناز فرمائیں بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں  نے کمخواب ِ بصارت کا
(حدائقِ بخشش،ص۳۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کسی کے ذِہن میں  یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ہمیں  پتا کس طرح چلے گا کہ ہم نے خَواب میں  سرکارِ دو عالم،نُورِمجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی کی زِیارت کی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خَواب میں  پتا چلنے کی تین صورتیں  ہیں  ۔ (۱) جس شخصیت کی خَواب میں  آپ زِیارت کررہے ہیں  ان کے بارے میں  دل ہی میں  اِلقا ہوتا ہے کہ یہ سرکار مدینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں  ۔ (۲) کوئی دوسرا تَعارُف کروادیتاہے کہ یہ مَدنی آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہیں  ۔ (۳) خود سرکارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنفسِ نفیس اپناتَعارُف کرادیتے ہیں  ۔ 

یاد رکھئے! جس نے سرکارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خَواب میں  دیکھا اُس نے آپ ہی کی زِیارت کی ، کیونکہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صورتِ مُبارکہ میں  شیطان  نہیں   آسکتا ۔ جیساکہ

سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا فرمانِ مشکبار ہے: ’’ مَنْ رَاٰنِیْ فِی الْمَنَامِ فَقَدْ رَاٰنِی فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ فِیْ صُوْرَتِیْ یعنی جس نے مجھے خَواب میں  دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صُورت اِختیار  نہیں   کرسکتا۔‘‘ (بخاری ،کتاب الادب ،من سمی باسماء الانبیاء،۴/۱۵۴،حدیث:۶۱۹۷)
ایک اور مَقام پر ارشاد فرمایا : ’’مَنْ رَاٰنِیْ فِی الْمَنَامِ فَسَیَرَانِی فِی الْیَقَظَۃِ، یعنی جس نے مجھے خَواب میں  دیکھا تووہ عنقریب مجھے بیداری میں  بھی دیکھے گا ۔‘‘(بخاری ،کتاب التعبیر ،باب من رأی النَّبی فی المنام ،۴/۴۰۶،حدیث:۶۹۹۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیدار کی کئی صُورتیں  ہوتی ہیں  ،ہر ایک زائر (یعنی زِیارت کرنے والا )اپنی اپنی ایمانی حیثیت کے مُطابق زِیارت کرتا ہے، حضرت سیدی شیخ محمد اسمٰعیل حقّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوی تفسیرِ روح ُالبیان میں  سُورَۃُ النَّجمکی تفسیر کے تَحت فرماتے ہیں  : ’’جس شخص نے تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نَبُوَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خَواب میں  زِیارت کی اور کوئی ناپسندیدہ بات  نہیں   تھی ( یعنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ناراض  نہیں   تھے) تو وہ ہمیشہ 

عُمدہ حال میں  رہے گا۔ اگر ویران جگہ میں  دیدار کیا تو وہ ویرانہ سبزہ زار میں  بدل جائے گا ، اگر مظلوم قوم کی سرزمین میں  دیکھا تو اُن مظلوموں  کی مَدد کی جائے گی ۔ اگر مَغموم ( غمزَدہ ) نے زِیارت کی تو اس کا غم جاتا رہے گا اگر مَقروض تھا تواللّٰہ تَبارَکَ وَتَعالٰیاس کے قرض کو ادا فرمائے گا، اگر مَغلوب تھا تو اس کی مَددکی جائے گی، اگر غائب تھا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّصحیح وسلامت اُسے گھرلوٹا دے گا ۔ اگر تنگدَست تھا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے رِزق میں  کُشادَگی عطا فرمائے گا، اگر مریض تھا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُسے شفا عطا فرمائے گا ۔(روح البیان،پ۲۷، النجم،تحت الآیۃ:۱۸،۹/۲۳۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں  کثرت کے ساتھ دُرودِپاک پڑھنے کی توفیق عطافرما اور اس کی بَرَکت سے ہمیں  سرکارِنامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دیدارِ پُربہار سے مُسْتَفِیْض فرما ۔ 
تو ہی بندوں پہ کرتا ہے لُطف و عَطا، ہے تجھی پہ بھروسہ تجھی سے دُعا
مجھے جلوۂ پاکِ رسول دکھا، تجھے اپنے ہی عِزّ و عُلا کی قسم
(حدائقِ بخشش،ص۸۱)
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭…٭…٭…٭
Exit mobile version