ایک باوقار فنکار ،خوبصورت شاعر…..صابرفخرالدین ​

ایک باوقار فنکار ،خوبصورت شاعر…..صابرفخرالدین 
غلام ربانی فداؔ
مدیراعلیٰ جہان نعت ہیرور
یادگیر ایک پتھروں کے درمیان آباد شہر ہے اور آج اس مقام کی انفرا دیت یہ بھی ہے کہ یہ شعر و ادب کا ایک اچھا مرکز ہے یہاں نہ صر ف اچھے لکھنے والے موجود ہیں بلکہ یہاں کے عوام میں ایک صحت مند ادبی ذوق بیدار ہے ۔ 

ادب کی سزرخیز سر زمین سے ایک کہنہ مشق شاعر صابرفخرالدین
اپنے پہلے شعر ی مجموعہ’’ ۔۔۔ ستارے ڈوب جاتے ہیں ‘‘(مختصرنظمیں)
کے ساتھ ادبی منظرنامے پر نمو دار ہو گئےتھے ۔اب یہ نہایت ہی حوصلہ افزاء بات ہے کہ وہ پھر سے اپنے دوسرے 
مجموعہ کلا م ’’ بیاضِ شعر‘‘ کو لیکر ایوان ادب میں دستک دےچکےہیں۔اورمقبولیت کے آسماں کوچھوچکا ہے۔
صابرفخرالدین کےدونوں مجموعہ’ ۔۔۔ ستارے ڈوب جاتے ہیں ‘کے مطالعہ سے
یہ بخوبی اند ازہ لگا یاجاسکتاہے کہ یہ چشمہ ایک دن ضرور ایک دریامیںتبدیل ہوجائے گا ۔دونوں مجموعۂ کلام میرے پیش نظرہیں۔علاوہ ازیںصابرفخرالدین کی گا ہے ماہے رسائل و اخبارات میں تخلیقات نظر سے گذرتی ہیں اور توجہ طلب ہوتی ہیں ۔ 

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اُردو کے بیشتر شعر اء کی طرح صابرنے اپنی شاعر ی کا آغاز غزل ہی سے کیا ہے ۔ غزل ان کی محبوب صنف ِ سخن ہے۔صابرفخرالدین ؔکی شاعری کو پڑ ھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے ان کی شاعری میں ایک سچا اور حقیقی شاعر نشو نما پارہا ہے ۔ صابرفخرالدین کو اُردو زبان پر اہلِ زبان کی سی قدرت ضرور حاصل ہے ہلکی پھلکی بحروں میں ان کا نرم لب و لہجہ بڑا ہی دلکش معلوم ہوتا ہے 
صابرفخرالدین کے چند اشعار نے تو بیک نظر میری توجہ کو جذب کر لیاہے اور ان کے کلام میں وہ خوبیا ں ضرور موجود ہیں جو اُردو غزل کی بہترین روایات کی مظہر ہیں اور سنجیدہ ترین اوصاف کی حامل ہیں ۔ اُن کے تازہ غزلیہ کلام میں چند ایسے اشعار قابلِ توجہ ہیںجن کو مُشتے از خر وارے کے طور پر پیش کر رہا ہوں ۔ جن سے اُن کے مزاج و آہنگ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔
یہ شعر واقعی بڑے خوبصورت ہیں ملاحظہ فرمایئے
طئے کوئی نرحلہ ابھی نہ ہوا
وقت کا فیصلہ ابھی نہ ہوا
سانس آتی ہے اور جاتی ہے
ختم ابھی یہ سلسلہ نہ ہوا
قرض سانسوں کا اترنا مشکل
جاتے لمحوں کا ٹھہرنا مشکل
ساری دنیا کو جو کھونا تھا مجھے
اپنے ہی آپ میں ہونا تھا مجھے
یہی تو سوچ کے میں نے اٹھا لیا پتھر
رہوں گا تو پھر آئے گا دوسرا پتھر
میں جانتا ہوں زمین و زماں کی کیفیت

بتاؤ پوچھ رہے ہو کہاں کی کیفیت
انتظار کی کیفیت کو بڑ ے سلیقہ سے پیش کیا ہے ۔ 
چلے بھی آؤ کہ صدیوں سے انتظار میں ہوں
تمہیں دکھاؤں ذرا قلب و جاں کی کیفیت
ترے ملن کی خوشی ہو کہ ترے ہجر کا غم
رہی ہے ایک سی کب جسم و جاں کی کیفیت
زندگی کے حقائق کو ہلکے پھلکے انداز میں چھو ٹی چھوٹی بحروں میں سمونا صابرؔ کا کمال ہے ۔
میں اپنے کام سے آیا ہوا تھا
مگر شہر آکے گھبرایا ہوا تھا
چھوٹی چھوٹی دیواریں تھیں
سستے کرایہ کی چالیں تھیں
میں جب چھوٹا بچہ تھا
سب کچھ اچھا لستا تھا
کمروں سے آزادی تھی
گودیوں میں رہتا تھا
نگاہوں پر اگر پہرا لگے گا
تو ہر اک شخص بے چہرہ لگے گا
ہر غزل میں زندگی کے اقدارکی عکاسی اور تجر بوں کا نچوڑ ملتا ہے ۔ ایک اچھے شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ روایت کا پاسدار بھی ہو اور جدید تقاضوں کا شعور بھی رکھتا ہو۔صابرفخرالدین کے کلام میں ایسے بے شمار اشعار ملتے ہیں ۔
ہر لمحہ تمہاری فکر صابرؔ
اڑانوں کے جہاں کیوں ڈھونڈتی ہے
زمانہ مجھ کو ڈراتا بھی کیا کہ میں صابرؔ
قدم قدم پہ سزا ساتھ ساتھ رکھتا تھا 
یہ جُرّ اتِ گفتا ر کا اقرار اور عزم شاعرکی ذہنی سطح کی بلندی کا پتہ دیتی ہے ۔
ستارے ڈوب جاتے ہیں کی مختصر نظموں میں کہیں کہیں ایک مصرعہ یا فقرہ کا گمان ہوتاہے۔کہیں مختصرنظم اقوال زرین کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے یا کسی محاورہ کی نئی شکل میں قاری کے دل فرحت عطا کرتی ہے اور کچھنظمیںتو عام قاری کے سمجھ سے بالاتر یاسرکے اوپرسے گزرجاتی ہیں۔
صابرفخرالدین کی مختصر نظموں میں مشاہدہ بھی ہے زندگی کاتلخ تجربہ بھی۔الفاظ کا رکھ رکھاؤ اور خطیبانہ انداز ان کی نظموں کے شناخت ہے۔صابرفخرالدین کی نظموں کا اختتام ڈرامائی اور حیران کن ہوتا ہے جس میں کبھی کبھی تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔المختصر مختصر نظمیں قابل مطالعہ اورصابرفخرالدین کی غزلیات قاری کی تنہائی کی ساتھی ہیں۔میری تمنائیں صابرفخرالدین کے ساتھ ہیں۔
صابرفخرالدین کے چند مختصرنظمیں پیش ہیں۔دیکھنا ہے قاری کے دامن دل کواپنے کس طرح متوجہ کرتی ہیں۔ اوریہی کشش صابرفخرالدین کی کامیابی کی سندہے۔
زندگی 
شطرنج کا
اک کھیل ہے
جس میں اجل ہی 
اصل مہرہ ہے
جیالو
چاند نگر کے
رہنے والو
دھوپ نگر میں
کیا ہوتاہے
تم کیاجانو
جب بھی 

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

غروب ہوتاہے
چاندنی کو
حیات
ملتی ہے
Exit mobile version