اضافت کے تفصیلی احکام مرکب اضافی کے بیان میں گزر چکے ۔یہاں اضافت کی اقسام وفوائد ذکر کیے جائیں گے۔
اضافت کی اقسام
تعریف وتخصیص حاصل ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے اضافت کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔اضافت لفظیہ ۲۔ اضافت معنویہ
۱۔اضافت لفظیہ :
وہ اضافت ہے جس میں صفت کا صیغہ اپنے معمول کی طرف مضاف ہو۔جیسے ضَارِبُ زَیْدٍ ۔
۲۔اضافت معنویہ:
وہ اضافت ہے جسمیں مضاف صفت کا صیغہ نہ ہو اور اگر ہوتو مضاف الیہ اسکا معمول نہ ہو۔ جیسے غُلاَمُ زَیْدٍ اور کَرِیْمُ الْبَلَدِ ۔
تنبیہ:
اضافت معنویہ میں مضاف الیہ سے پہلے حروف جارہ من، فی یا لام میں سے کوئی ایک مقدر ہوتاہے اس اعتبار سے اضافت کی تین قسمیں ہیں۔
۱۔اضافت لامیہ ۲۔ اضافت منّیہ ۳۔ اضافت فیویہ
۱۔ اضافت لامیہ:
وہ اضافت ہے جسمیں مضاف الیہ سے پہلے حرف جر لام مقدر ہو، اس صورت میں مضاف الیہ نہ ظرف ہوتاہے اور نہ ہی مضاف کی جنس سے ۔ جیسے کِتَابُ اللہِ ،غُلاَمُ زَیْدٍ اصل میں کِتَابٌ لِلّٰہِ اور غُلاَمٌ لِزَیْدٍ تھا۔
۲۔اضافت منیہ:
وہ اضافت ہے جس میں مضاف الیہ سے پہلے حرف جر من مقدر ہو اس صورت میں مضاف مضاف الیہ کی جنس سے ہوتاہے۔ جیسے خَاتَمُ فِضَّۃٍ(چاندی کی انگوٹھی) یہ اصل میں خَاتَمٌ مِنْ فِضَّۃٍ تھا۔
۲۔اضافت منیہ:
وہ اضافت ہے جس میں مضاف الیہ سے پہلے حرف جر من مقدر ہو اس صورت میں مضاف مضاف الیہ کی جنس سے ہوتاہے۔ جیسے خَاتَمُ فِضَّۃٍ(چاندی کی انگوٹھی) یہ اصل میں خَاتَمٌ مِنْ فِضَّۃٍ تھا۔
۳۔ اضافت فیویہ:
وہ اضافت ہے جسمیں مضاف الیہ سے پہلے حرف جر فی مقدر ہو اس صورت میں مضاف الیہ مضاف کیلئے ظرف ہوتاہے۔ جیسے صَلٰوۃُ اللَّیْل (رات کی نماز) اصل میں صَلٰوۃٌ فِی اللَّیْلتھا۔
اضافت کا فائدہ:
اضافت اگر لفظیہ ہو تو فقط تخفیف کا فائدہ حاصل ہوتاہے۔ یعنی مضاف کے آخرسے تنوین اور نون تثنیہ وجمع گر جاتے ہیں ،اور اگر معنویہ ہوتو تعریف و تخصیص کا فائدہ دیتی ہے ۔ یعنی مضاف الیہ معرفہ ہوتو تعریف کا ۔جیسے غُلاَمُ زَیْدٍ اور اگر نکرہ ہوتو تخصیص کا فائدہ
دیتی ہے۔ جیسے غُلاَمُ رَجُلٍ
اضافت کے چند ضروری قواعد:
٭۔۔۔۔۔۔مضاف پر الف لام نہیں آتا لیکن چونکہ اضافت لفظیہ تعریف کا فائدہ نہیں دیتی اس لئے اس اضافت میں مضاف پر الف لام کا دخول جائز ہے۔اسکی چند صورتیں درج ذیل ہیں۔
۱۔جب مضاف تثنیہ یا جمع مذکر سالم کا صیغہ ہو۔جیسے اَلضَّارِبَ ا غُلاَمٍ اور اَلضَّارِبُ وْ غُلاَمٍ۔
۲۔جب مضاف الیہ معرف باللام ہو جیسے اَلضَّارِبُ الْغُلاَمِ۔
۳۔ جب مضاف الیہ ایسے اسم کی طرف مضاف ہو جو معرف باللام ہو ۔جیسے اَلضَّارِبُ غُلاَمِ الرَّجُلِ ، یہاں ألضَّارِبُ پر اس لئے الف لام کا دخول جائز ہے کیونکہ اسکا مضاف الیہ غُلاَمِ معرف باللام اَلرَّجُلِ کی طرف مضاف ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔جب اسم مفرد صحیح یا جاری مجریٰ صحیح کی اضافت یائے متکلم کیطرف کی جائے تو ی پر جزم اورفتحہ دونوں پڑھ سکتے ہیں ۔جیسے کِتَابِیْ ،کِتَابِیَ اور دَلْوِیْ ،دَلْوِیَ ،
اور ایسا لفظ اگر جملے کے آخر میں واقع ہو تو اسکے ساتھ ہ بھی بڑھا دیناجائز ہے۔ جیسے کِتَابِیَہ (میر ی کتاب) حِسَابیَہ ( میرا حساب)۔
٭۔۔۔۔۔۔اگر یائے متکلم کیطرف اسم مقصور یا منقوص یا تثنیہ یاجمع مذکر سالم کی اضافت کی جائے تو اسوقت ی پر فتحہ ہی پڑھا جائے گا،جیسے عَصَایَ ، قَاضِیَ اور مُسْلِمِیَّ۔
٭۔۔۔۔۔۔جب اسمائے ستہ مکبرہ کی اضافت یائے متکلم کی طرف کی جائے تومحذوف
حرف کو نہیں لوٹائیں گے۔ جیسے أَبِیْ ،أَخِیْ ،وغیرہ
٭۔۔۔۔۔۔مضاف ہمیشہ اسم ہوتاہے جبکہ مضاف الیہ اسم ہونے کے ساتھ ساتھ جملہ فعلیہ بھی ہو سکتاہے۔ جیسے یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسْابُ (جس دن حساب قائم ہو گا)۔