اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟وقت گزرتا جا رہا ہے، زندگی کی برق رفتاری آنے والے پلوں کو ماضی میں تبدیل کرتی جا رہی ہے، ہر آنے والا کل، گزشتہ کل کا حصہ بنتا جا رہا، حیات مستعار کی قیمتی ساعتیں گھٹتی جا رہی ہیں، کتاب زیست کے اوراق پلٹتے جا رہے ہیں اور ہر ورق انسان کو اسکی موت کے قریب کرتا جا رہا ہے؛ لیکن ہمیں اپنے وقت کی قدر ہے نہ اسکو ضائع کر دینے کا ملال، حد تو یہ ہیکہ ہم اس نا قدری و بے حسی کی وجہ سے ہر نئے سالِ عیسوی کی آمد پر طوفانِ بد تمیزی کے ساتھ اسکا استقبال تو کر لیتے ہیں؛ لیکن گزرے دنوں میں اپنے کیے ہوئے اعمال کا محاسبہ کرنا بھول جاتے ہیں؛ تا آں کہ یہ نئے سال بھی انہیں تغافل و تکاسل اوربے خبری و بے توجہی کی نذر ہوجاتے ہیں؛ لیکن ہمیں اسکا ذرہ برابر بھی خیال نہیں آتا کہ: "غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردُوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی” ـ اور جب بھی نئے سال کی آمد ہوتی ہے، تو ہم اس بھول بھلیوں میں سفر کرنے لگتے ہیں کہ ہمارا ایک سال بڑھ گیا ہے، جبکہ اگر عقل و فراست کو زحمتِ فکر دی جائے اور خرد مندی و ہوشمندی کے ساتھ سوچا جائے تو ہماری عمر کا ایک سال گھٹ چکا ہوتا ہے اور ہم اسی طرح موت کے قریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں:
ایک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات سے
نادان کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک
چناں چہ سال 2018 رخصت ہونے والا اور 2019 کی آمد ہونے والی ہے، یہ اور بات ہیکہ دن بھی وہی رہینگے اور مہینے بھی وہی؛ بدلنا ہے تو صرف ایک ہندسے کو ہے. لیکن آپ اس موقع پر مسلمانوں کی بھی اک بڑی تعداد کو سڑکوں پر کھڑے ہوکر، باہوں میں باہیں ڈالے، بارہ بجنے کا انتظار کرتے پائینگے اور نیو ایئر کی شام کو رنگین بنانے کیلیے آتش بازیاں کرتے، عیاشی و اوباشی کی حدوں کو پار کرتے،گانے بجانے کے ساتھ محفل رقص و سرود کا خاص اہتمام کرتے اور ہوٹلوں و پارکوں کو اپنی بے حیائی سے زینت بخشتے دیکھیں گے. نیز شراب و شباب کے نشے میں دھت ہو کر زنا کاری و بد کاری جیسے گناہ عظیم اور جرمِ سنگین میں ملوث بھی پائینگے ـ
مسلمانوں کے ان مایوس کن احوال و اطوار کو دیکھ کر افسردہ و پژمردہ خاطر و شکستہ دل میں اک معصومانہ سوال آتا ہے کہ:
پهیلی هوئی هے شہر میں عریانیت کی آنچ
تہذیب کے بدن سے قبا کون لے گیا؟
ساتھ ہی ذہن کے دریچے پر یہ سوال بھی بار بار دستک دیتا ہے کہ یہ سالوں کی تعیین و مہینوں کی تحدید تو صرف اپنی تاریخ کو یاد رکھنے کا ذریعہ ہے اور جب دن بھی وہی آنے ہیں، مہینوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہونی ہے اور انہی حالات سے دوچار ہونا ہے تو پھر یہ اسراف و تبذیر اور بے شرمی و بے غیرتی کی انتہا تو در کنار یہ نئے سال کی مبارکبادیاں اور اس میں سبقت لے جانے کی امنگ و ترنگ بھی آخر کیوں؟ اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے یہ سوچتے ہوئے بھی بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ آخر مسلمانوں نے کیوں اپنے گلے میں مغربی تہذیب کا قلادہ ڈال کر، انکے اشاروں پر ناچنے اور انکے فسق آموز و فجور آمیز راستے پر چلنے کو اختیار کر لیا اور کیوں انہیں اسلامی تعلیمات برے معلوم ہونے لگے؟ اور اسی طرح "سیکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے” جو ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے؛ کیوں کہ میری کوتاہ بیں نگاہوں نے تو کبھی کسی یہودی و عیسائی کو مسلمانوں کے تیوہار و پرب اور کسی مذہبی تقریب و جشن میں شریک ہوتے نہیں دیکھا؛ لیکن افسوس ہے ان کم فہم و نا اندیش مسلمانوں کی مغربی تقلید پر، کہ وہ عیسائیوں کے ہر خرافاتی تیوہار و یہودیوں کے بیہودہ جشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر نہ صرف اپنے وقار کو مجروح کرتے ہیں، بلکہ اپنے دین و مذہب کا مذاق بناکر اسکی شان و شوکت اور جاہ و حشم کو مغرب کے نام پر بھینٹ بھی چڑھاتےہیں اور ساتھ ہی اپنے مسلمان ہونے پر گویا نا شکری کا کھلا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ـ ہمیں شکایت مغرب سے نہیں، ان اسلام کے نام پر دم بھرنے والوں سے ہے؛ جو اپنے اسلامی ثقافت و کلچر کو چھوڑ کر، ان اسلام و مسلمان دشمنوں کی پیروکاری کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے اور انکی اندھی تقلید میں ہی اپنے لیے ترقی کی سیڑھیاں تلاش کرتے ہیں؛ جنکا ہدف ہماری بربادی ہے: ڈوبنا تیری فطرت نہیں، مغرب پہ نہ جا بن کے سورج تجھے مشرق سے ابھرنا ہوگالقمان عثمانی