فتح مبین

اس صلح کو تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک مغلوبانہ صلح اور ذلت آمیز معاہدہ  سمجھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سے جو رنج و صدمہ گزرا وہ آپ پڑھ چکے۔ مگر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ (1)
اے حبیب!ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی۔
خدا وند قدوس نے اس صلح کو ”فتح مبین” بتایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کیا یہ ”فتح” ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”ہاں! یہ فتح ہے۔”
گو اس وقت اس صلح نامہ کے بارے میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خیالات اچھے نہیں تھے۔مگراس کے بعد کے واقعات نے بتا دیا کہ درحقیقت یہی صلح تمام فتوحات کی کنجی ثابت ہوئی اور سب نے مان لیا کہ واقعی صلح حدیبیہ ایک ایسی فتح مبین تھی جو مکہ میں اشاعت اسلام بلکہ فتح مکہ کا ذریعہ بن گئی۔ اب تک مسلمان اور کفار ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا مگر اس صلح کی وجہ سے ایک دوسرے کے یہاں آمدورفت آزادی کے ساتھ گفت و شنید اور تبادلۂ خیالات کا راستہ کھل گیا۔ کفارمدینہ آتے اور مہینوں ٹھہر کر مسلمانوں کے کردارواعمال کا گہرا مطالعہ کرتے۔ اسلامی مسائل اور اسلام کی خوبیوں کا تذکرہ سنتے جو مسلمان مکہ جاتے وہ اپنے چال چلن، عفت شعاری اور عبادت گزاری سے کفار کے دلوں پر اسلام کی خوبیوں کا ایسا نقش بٹھا دیتے کہ خودبخود کفاراسلام کی طرف مائل ہوتے جاتے تھے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک اس قدر کثیرتعداد میں لوگ مسلمان ہوئے کہ اتنے کبھی نہیں ہوئے تھے۔   چنانچہ حضرت خالد بن الولید(فاتح شام)اور حضرت عمرو بن العاص(فاتح مصر)بھی اسی زمانے میں خودبخود مکہ سے مدینہ جاکر مسلمان ہوئے۔(رضی اللہ تعالیٰ عنہما)     (سیرت ابن ہشام ج۳ ص۲۷۷ وص۲۷۸ 
Exit mobile version