حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے موئے مبارک نہ گھونگھردار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس بال پہلے کانوں کی لو تک تھے پھر شانوں تک خوبصورت گیسو لٹکتے رہتے تھے مگر حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے بالوں کو اتروا دیا۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان قبلہ بریلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے آپ کے مقدس بالوں کی ان تینوں صورتوں کو اپنے دو شعروں میں بہت ہی نفیس و لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے کہ
گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تادوش
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو
آخرِ حج غمِ اُمت میں پریشاں ہو کر
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر بالوں میں تیل بھی ڈالتے تھے اور کبھی کبھی کنگھی بھی کرتے تھے اور اخیر زمانہ میں بیچ سر میں مانگ بھی نکالتے تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس بال آخر عمر تک سیاہ رہے، سر اور داڑھی شریف میں بیس بالوں سے زیادہ سفید نہیں ہوئے تھے۔(2) (شمائل ترمذی ص۴-۵)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جب اپنے مقدس بال
اتروائے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بطور تبرک تقسیم ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ اس موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہااس شیشی کو پانی میں ڈبو کر دیتی تھیں اور اس پانی سے شفاء حاصل ہوتی تھی۔(1)
(بخاری ج۲ ص۸۷۵ باب مایذکر فی الشیب)
وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا
لکۂ ابر رأفت پہ لاکھوں سلام