زائرو پاسِ اَدب رکھو ہَوَس جانے دو
آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ان کو ترَس جانے دو
سُوکھی جاتی ہے اُمید غربا کی کھیتی
بُوندیاں لکۂ رحمت کی برس جانے دو
پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جانِ شیریں
نغمۂ قُم کا ذرا کانوں میں رَس جانے دو
ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو! ٹھہرو
گٹھریاں توشۂ اُمید کی کَس جانے دو
دِید گل اور بھی کرتی ہے قِیامت دل پر
ہمصفیرو ہمیں پھر سُوئے قفس جانے دو
آتِش دِل بھی تو بھڑکاؤ ادب داں نالو
کون کہتا ہے کہ تم ضبطِ نفس جانے دو
یوں تنِ زار کے درپے ہوئے دل کے شعلو
شیوئہ خانہ براندازیِ خس جانے دو
اے رضاؔ آہ کہ یوں سہل کٹیں جرم کے سال
دو گھڑی کی بھی عبادت تو برس جانے دو
٭…٭…٭…٭…٭…٭