یہ شہنشاہِ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اورلاڈلی شہزادی ہیں۔ ان کا نام ”فاطمہ” اورلقب ”زہرا” اور ”بتول” ہے۔ ان کی پیدائش کے سال میں علماء مؤرخین کااختلاف ہے۔ ابو عمر کا قول ہے کہ اعلان نبوت کے پہلے سال جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی یہ پیدا ہوئیں اور بعض نے لکھا ہے کہ اعلان نبوت سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی اور علامہ ابن الجوزی نے یہ تحریر فرمایا کہ اعلان نبوت سے پانچ سال قبل ان کی پیدائش ہوئی۔(1)واﷲ تعالیٰ اعلم۔(زرقانی جلد ۳ ص۲۰۲ تا ۲۰۳)
اﷲ اکبر! ان کے فضائل و مناقب کاکیا کہنا؟ ان کے مراتب و درجات کے حالات سے کتب احادیث کے صفحات مالامال ہیں۔ جن کاتذکرہ ہم نے اپنی کتاب ”حقانی تقریریں” میں تحریر کر دیا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ سیدۃ نساء العالمین(تمام جہان کی عورتوں کی سردار) اور سیدۃ نساء اہل الجنۃ (اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار) ہیں۔ ان کے حق میں ارشاد نبوی ہے کہ فاطمہ میری بیٹی میرے بدن کی ایک بوٹی ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(2)
(مشکوٰۃ ص۵۶۸ مناقب اہل بیت وزرقانی جلد۳ص۲۰۴)
۲ ھمیں حضرت علی شیر خدارضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح ہوا اور ان کے شکم مبارک سے تین صاحبزادگان حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تین صاحبزادیوں زینب و ام کلثوم و رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی ولادت ہوئی۔ حضرت محسن و رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماتو بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ جن کے شکم مبارک سے آپ کے ایک فرزند حضرت زید اور ایک صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی پیدائش ہوئی اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوئی۔
(1)(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص۴۶۰)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال شریف کا حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قلب مبارک پر بہت ہی جانکاہ صدمہ گزرا۔ چنانچہ وصال اقدس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کبھی ہنستی ہوئی نہیں دیکھی گئیں۔ یہاں تک کہ وصال نبوی کے چھ ماہ بعد ۳ رمضان ۱۱ ھ منگل کی رات میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت علی یاحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور سب سے زیادہ صحیح اورمختار قول یہی ہے کہ جنۃ البقیع میں مدفون ہوئیں۔(2)(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۴۶۱)