حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان متروکہ سامانوں کے علاوہ بعض یادگاری تبرکات بھی تھے جن کو عاشقانِ رسول فرطِ عقیدت سے اپنے اپنے گھروں میں محفوظ کئے ہوئے تھے اور ان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ چنانچہ موئے مبارک، نعلین شریفین اور ایک لکڑی کا پیالہ جو چاندی کے تاروں سے جوڑاہوا تھا حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں آثار متبرکہ کو اپنے گھر میں محفوظ رکھا تھا۔(1)
(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الخ)
اسی طرح ایک موٹا کمبل حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا جن کو وہ بطورتبرک اپنے پاس رکھے ہوئے تھیں اور لوگوں کو اس کی زیارت کراتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خدمت مبارکہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے ایک موٹا کمبل نکالا اور فرمایا کہ یہ وہی کمبل ہے جس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ (2)
(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک تلوار جس کا نام "ذوالفقار” تھا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی ان کے بعد ان کے خاندان میں رہی یہاں تک کہ یہ تلوار کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ اس کے بعد ان کے فرزند و جانشین حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یزیدبن معاویہ کے پاس سے رخصت ہو کر مدینہ تشریف لائے تو مشہور صحابی حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ کو کوئی حاجت ہو یا میرے لائق کوئی کار خدمت ہو تو آپ مجھے حکم دیں میں آپ کے حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے کوئی حاجت نہیں پھر حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ گزارش کی کہ آپ کے پاس رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی جو تلوار (ذوالفقار) ہے کیا آپ وہ مجھے عنایت فرما سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یزید کی قوم آپ پر غالب آ جائے اور یہ تبرک آپ کے ہاتھ سے جاتا رہے اور اگر آپ نے اس مقدس تلوار کو مجھے عطا فرما دیا تو خدا کی قسم! جب تک میری ایک سانس باقی رہے گی ان لوگوں کی اس تلوار تک رسائی بھی نہیں ہو سکتی مگر حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس مقدس تلوار کو اپنے سے جدا کرنا گوارا نہیں فرمایا۔(1)
(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کی انگوٹھی ا ور عصائے مبارک پر جانشین ہونے کی بنا پر خلفائے کرام حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق و حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے اپنے دور خلافت میں قابض رہے مگر انگوٹھی حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے کنوئیں میں گر کر ضائع ہو گئی۔ اس کنوئیں کا نام "بیراریس” ہے جس کو لوگ "بیرخاتم” بھی کہتے ہیں۔(2) (بخاری ج۲ ص۸۷۲ باب خاتم الفضہ)
اور عصائے مبارک اس طرح ضائع ہوا کہ حضرت امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی مقدس عصائے نبوی کو اپنے دست مبارک میں لے کر مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بالکل ناگہاں بدنصیب "جہجاہ غفاری” اٹھا اور اچانک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے اس مبارک تبرک کو لے کر توڑ ڈالا۔ اس بے ادبی سے اس پر یہ قہرِ الٰہی ٹوٹ پڑا کہ اس کے ہاتھ میں کینسر ہو گیا اور پورا ہاتھ سڑ گل کر ٹوٹ پڑا اور اسی عذاب میں وہ ہلاک ہو گیا۔(3) (دلائل النبوۃ ج۳ ص۲۱۱)