حضرت زید بن سعنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو پہلے ایک یہودی عالم تھے انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کھجوریں خریدی تھیں۔ کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے انتہائی تلخ و ترش لہجے میں سختی کے ساتھ تقاضا کیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن اور چادر پکڑ کر نہایت تندوتیز نظروں سے آپ کی طرف دیکھا اور چلا چلا کریہ کہاکہ اے محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تم سب عبدالمطلب کی اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگ ہمیشہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں دیر لگایا کرتے ہو اورٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپے سے باہر ہو گئے اور نہایت غضب ناک اور زہریلی نظروں سے گھور گھور کر کہا کہ اے خدا کے دشمن! تو خدا کے رسول سے ایسی گستاخی کر رہا ہے؟ خدا کی قسم! اگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں ابھی ابھی اپنی تلوار سے تیراسر اڑا دیتا۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مجھ کو ادائے حق کی ترغیب دے کر اور اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کرکے ہم دونوں کی مدد کرتے۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو اس کے حق کے برابر کھجوریں دے دو،اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب حق سے زیادہ کھجوریں دیں تو حضرت زید بن سعنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے عمر! میرے حق سے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ چونکہ میں نے ٹیڑھی ترچھی نظروں سے دیکھ کر تم کو خوفزدہ کر دیا تھا اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمہاری دلجوئی و دلدا ری کے لئے تمہارے حق سے کچھ زیادہ دینے کا مجھے حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت زید بن سعنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے عمر!کیا تم مجھے پہچانتے ہو میں زید بن سعنہ ہوں؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم وہی زید بن سعنہ ہو جو یہودیوں کا بہت بڑا عالم ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی گستاخی کیوں کی؟ حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ در اصل بات یہ ہے کہ میں نے توراۃ میں نبی آخر الزمان کی جتنی نشانیاں پڑھی تھیں ان سب کو میں نے ان کی ذات میں دیکھ لیا مگر دو نشانیوں کے بارے میں مجھے ان کا امتحان کرنا باقی رہ گیا تھا۔ ایک یہ کہ ان کا حلم جہل پر غالب رہے گا اور جس قدر زیادہ ان کے ساتھ جہل کا برتاؤ کیا جائے گا اسی قدر ان کا حلم بڑھتا جائے گا۔ چنانچہ میں نے اس ترکیب سے ان دونوں نشانیوں کو بھی ان میں دیکھ لیا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ یقینا یہ نبی برحق ہیں اور اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بہت ہی مالدار آدمی ہوں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا آدھا مال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت پر صدقہ کر دیا پھر یہ بارگاہ رسالت میں آئے اور کلمہ پڑھ کر دامن اسلام میں آگئے۔(1) (دلائل النبوۃ ج۱ ص۲۳ و زرقانی ج۴ ص۲۵۳)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ ِحنین سے واپسی پر دیہاتی لوگ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے چمٹ گئے اور آپ سے مال کا سوال کرنے لگے،یہاں تک آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چمٹے کہ آپ پیچھے ہٹتے ہٹتے ایک ببول کے درخت کے پاس ٹھہر گئے۔ اتنے میں ایک بدوی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی چادر مبارک اچک کر لے بھاگا پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ میری چادر تو مجھے دے دو اگر میرے پاس ان جھاڑیوں کے برابر چوپائے ہوتے تو میں ان سب کو تمہارے درمیان تقسیم کردیتا، تم لوگ مجھے نہ بخیل پاؤ گے نہ جھوٹا نہ بزدل۔ (2)(بخاری ج ۱ ص ۴۴۶)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے۔ ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آ گئی پھراس بدوی نے یہ کہا کہ اﷲ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف تو جہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔(1) (بخاری ج۱ ص۴۴۶ باب ماکان یعطی النبی المولفۃ)
جنگ ِاُحد میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دندان مبارک کو شہید کر دیا اور عبداﷲ بن قمیۂ نے چہرۂ انور کو زخمی اور خون آلود کر دیا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لئے اس کے سوا کچھ بھی نہ فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ یعنی اے اﷲ! عزوجل میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔(2)
خیبر میں زینب نامی یہودی عورت نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو زہر دیا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے کوئی انتقام نہیں لیا، لبید بن اعصم نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر جادو کیا اور بذریعہ وحی اس کا سارا حال معلوم ہوا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے کچھ مواخذہ نہیں فرمایا، غورث بن الحارث نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ سے آپ کی تلوار لے کر نیام سے کھینچ لی، جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو غورث کہنے لگا کہ اے محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے گا؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اﷲ”۔ نبوت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ بول! اب تجھ کو میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ غورث گڑ گڑا کر کہنے لگا کہ آپ ہی میری جان بچا دیں، رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو چھوڑ دیااور معاف فرما دیا۔ چنانچہ غورث اپنی قوم میں آ کر کہنے لگا کہ اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو تمام دنیا کے انسانوں میں سب سے بہتر ہے۔ (1)(شفا قاضی عیاض جلد۱ ص۶۲)
کفار مکہ نے وہ کون سا ایسا ظالمانہ برتاؤ تھا جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نہ کیا ہو مگر فتح مکہ کے دن جب یہ سب جباران قریش، انصار و مہاجرین کے لشکروں کے محاصرہ میں محصور و مجبور ہو کر حرم کعبہ میں خوف و دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے ان کے جسم کا ایک ایک بال لرز رہا تھا۔ رسولِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان مجرموں اور پاپیوں کو یہ فرما کر چھوڑ دیا اور معاف فرما دیا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے جاؤ تم سب آزاد ہو۔
ایک کافر کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پکڑ کر لائے کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا تھا وہ شخص خوف و دہشت سے لرزہ براندام ہو گیا۔ رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کوئی خوف نہ رکھو بالکل مت ڈرو اگر تم نے میرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تو کیا ہوا؟ تم کبھی میرے اوپر غالب نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ خداوند تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ فرما لیا ہے۔ (2)(شفاء قاضی عیاض جلد۱ ص۶۳ وغیرہ) لغرض اس طرح کے نبی رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ہزاروں واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ حلم و عفو یعنی ایذاؤں کا برداشت کرنا اور مجرموں کو قدرت کے باوجود بغیر انتقام کے چھوڑ دینا اور معاف کر دینا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ عادت کریمہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا وہ عظیم شاہکار ہے جو ساری دنیا میں عدیم المثال ہے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِہٖ اِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللہِ (1)
(شفاء شریف جلد۱ ص۶۱ وغیرہ و بخاری جلد۱ ص۵۰۳) اپنی ذات کے لئے کبھی بھی رسول اﷲ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سے انتقام نہیں لیا ہاں البتہ اﷲعزوجل کی حرام کی ہوئی چیزوں کا اگر کوئی مرتکب ہوتا تو ضرور اس سے مواخذہ فرماتے۔