رشتہ داروں کے حقوق

اﷲتعالیٰ نے قرآن شریف میں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حدیث شریف میں باربار رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ کا حکم فرمایا ہے لہٰذا ان لوگوں کے حقوق کو بھی ادا کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم اور ضروری ہے۔ خاص طور پر ان چند باتوں پر عمل کرنا تو لازمی ہے۔
(۱)اگر اپنے عزیزواقربامفلس ومحتاج ہوں اور کھانے کمانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو اپنی طاقت بھر اوراپنی گنجائش کے مطابق ان کی مالی مدد کرتے رہیں۔
(۲)کبھی کبھی اپنے رشتہ داروں کے یہاں آتے جاتے بھی رہیں اور ان کی خوشی اور غمی میں ہمیشہ شریک رہیں۔
(۳)خبردار خبردار ہرگزہرگز رشتہ داروں سے قطع تعلق کرکے رشتہ کو نہ کاٹیں۔ رشتہ داری کاٹ ڈالنے کا بہت بڑاگناہ ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ۔
    لایدخل الجنۃ قاطع۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ الخ، باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا ، رقم ۲۵۵۶،ص۱۳۸۳)
    ”یعنی اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں داخل ہو گا۔ ”
    اگر رشتہ داروں کی طرف سے کوئی تکلیف بھی پہنچ جائے تو اس پر صبر کرنا اور پھر بھی ان سے میل جول اور تعلق کو برقرار رکھنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔
    حدیث شریف میں ہے کہ جوتم سے تعلق توڑے تم اس سے میل ملاپ رکھو اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ اور جو تمہارے ساتھ بدسلوکی کرے تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہو۔
(المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث عقبہ بن عامر،الحدیث۱۷۴۵۷، ج۶، ص۱۴۸، کنزالعمال،کتاب الاخلاق،باب صلۃ الرحم،الحدیث ۶۹۲۶،ج۳،ص۱۴۵)
    اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے آدمی اپنے اہل و عیال کا محبوب بن جاتا ہے۔ اور اس کی مالداری بڑھ جاتی ہے۔ اور اس کی عمر میں درازی اور برکت ہوتی ہے۔
(جامع الترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی تعلیم النسب ، رقم ۱۹۸۶،ج۳،ص۳۹۴)
    ان حدیثوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا کتنا بڑاا جر و ثواب ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے فوائد و منافع کس قدر زیادہ ہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی اور ان سے تعلق کاٹ لینے کا  گناہ کتنا بھیانک اور خوفناک ہے اوردونوں جہاں میں اس کا نقصان اوروبال کس قدر زیادہ خطرناک ہے ۔ اس لئے ہر مسلمان مرد وعورت پر لازم ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نیک سلوک کرنے کا خاص طور پر دھیان رکھے۔ یاد رکھو کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنا ہی مسلمان کے لئے دونوں جہان میں صلاح و فلاح کا سامان ہے شریعت کو چھوڑ کر کبھی بھی کوئی مسلمان دونوں جہان میں  پنپ نہیں سکتا۔
    جو لوگ ذراذرا سی باتوں پر اپنی بہنوں’بیٹیوں’ پھوپھیوں’ خالاؤں’ ماموؤں’ چچاؤں’ بھتیجوں’ بھانجوں وغیرہ سے یہ کہہ کر قطع تعلق کر لیتے ہیں کہ آج سے میں تیرا رشتہ دار نہیں اور تو بھی میرا رشتہ دار نہیں۔ اور پھر سلام کلام’ ملنا جلنا بند کردیتے ہیں یہاں تک کہ رشتہ داروں کی شادی وغمی کی تقریبات کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔حد ہوگئی کہ بعض بدنصیب اپنے قریبی رشتہ داروں کے جنازہ اور کفن دفن میں بھی شریک نہیں ہوتے تو ان حدیثوں کی روشنی میں تم خود ہی فیصلہ کرو کہ یہ لوگ کتنے بڑے بدبخت’ حرماں نصیب اور گناہ گار ہیں؟ (توبہ توبہ نعوذباﷲ)
 پڑوسیوں کے حقوق :۔اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے احادیث میں ہمسایوں اور پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ جن کو ادا کرنا ہر مسلمان مرد وعورت کے لئے لازم و ضروری ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔
وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ ۔
”یعنی قریبی اور دور والے پڑوسیوں کے ساتھ نیک سلوک اور اچھا برتاؤ رکھو۔” (پ5،النساء:36)
اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔
(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ ، رقم۲۶۶۴،ص۱۴۱۳)
    ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور علیہ ا لصلوۃ والسلام وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ
منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو؟صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ ہم لوگ اﷲعزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبت کے جذبے میں یہ کررہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جس کویہ بات پسند ہو کہ وہ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے محبت کرے۔ یا اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اس سے محبت کریں اس کو لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے۔ اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایاجائے تو وہ امانت کو ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
(شعب الایمان ، باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ وسلم … الخ ، رقم ۱۵۳۳،ج۲،ص۲۰۱)
اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔
(شعب الایمان،باب فی الزکوٰۃ، فصل فی کراہیۃ امساک الفضل… الخ ، رقم ۳۳۸۹، ج۳، ص۲۲۵)
    بہر حال اپنے پڑوسیوں کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہے۔
(۱)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں ہمیشہ شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی ہر قسم کی امدادبھی کرتا رہے۔
(۲)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی خیر خواہی اور بھلائی میں ہمیشہ لگا رہے۔
(۳)کچھ ہدیوں اور تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، رقم ۲۶۲۵،ص۱۴۱۳)
Exit mobile version