یہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو اعلان نبوت سے دس سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں یہ ابتدا ئے اسلام ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں اور جنگ بدر کے بعد حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو مکہ سے مدینہ بلالیا تھا مکہ میں کافروں نے ان پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ان کا تو پوچھنا ہی کیا حد ہوگئی کہ جب یہ ہجرت کے ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا اور ایک بدنصیب کافر جو بڑا ہی ظالم تھا ،،ہباربن الاسود،، اس نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا یہ دیکھ کر ان کے دیور ،،کنانہ،، کو جو اگرچہ کافر تھا ایک دم طیش آگیا اور اس نے جنگ کے لئے تیر کمان اٹھا لیا یہ ماجرا دیکھ کر ،،ابوسفیان،، نے درمیان میں پڑ کر راستہ صاف کرا دیا اور یہ مدینہ منورہ پہنچ گئیں۔
حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے قلب کو اس واقعہ سے بڑی چوٹ لگی چنانچہ آپ نے ان کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا کہ۔
ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّO
یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔
پھر ان کے بعد ان کے شوہر حضرت ابو العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور دونوں ایک ساتھ رہنے لگے ان کی اولاد میں ایک لڑکا جن کا نام ،،علی،، تھا اور ایک لڑکی جن کا نام ،،امامہ،، تھا زندہ رہے ابن عسا کر کا قول ہے کہ ،،علی،، ،،جنگ یرموک،، میں شہید ہوگئے حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو بے حد محبت تھی بادشاہ حبشہ نے تحفہ میں ایک جوڑا اور ایک قیمتی انگوٹھی دربار نبوت میں بھیجی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمائی اس طرح کسی نے ایک مرتبہ بہت ہی بیش قیمت اور انتہائی خوبصورت ایک ہار نذر کیا تو سب بیبیاں یہ سمجھتی تھیں کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم یہ ہار حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گلے میں ڈالیں گے مگر آپ نے یہ فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو پہناؤں گا جو میرے گھر والوں میں مجھ کو سب سے زیادہ پیاری ہے یہ فرما کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ قیمتی ہار اپنی نواسی حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گلے میں ڈال دیا ۸ھ میں حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تبرک کے طور پر اپنا تہبند شریف ان کے کفن میں دے دیا اور نماز جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کو قبر میں اتارا ان کی قبر شریف بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام،ج۴،ص۳۱۸۔۳۲۱)
تبصرہ:۔ حضور نبی اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی صاحبزادی کو اسلام لانے کی بنا پر کافروں نے جس قدر ستایا اور دکھ دیا اس سے مسلمان بیبیوں کو سبق لینا چاہے کہ کافروں اور ظالموں کے ظلم پر صبر کرنا ہمارے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے گھر والوں کی سنت ہے اور خدا کی راہ میں دین کے لئے تکلیف اٹھانا اور برداشت کرنا بہت بڑے اجرو ثواب کا کام ہے۔