نمازِ عید کا طریقہ(حنفی)

نمازِ عید کا طریقہ(حنفی)

پہلے اِس طرح نيت کیجئے : ”ميں نيت کرتا ہوں دو رَکْعَت نَماز عيدالْفِطر(يا عيدالْاَضْحٰی )کی ،ساتھ چھ زائد تکبيروں کے ،واسِطے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ، پيچھے اِس امام کے”پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائيے اور اللہُ اکبر کہہ کر حسبِ معمول ناف کے نيچے باندھ ليجئے اور ثَناء پڑھئے ۔ پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اللہُ اکبر کہتے ہوئے لٹکا ديجئے ۔پھر ہاتھ کانوں تک اٹھائیے اوراللہُ اکبر کہہ کر لٹکا دیجئے ۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائيے اور اللہُ اکبر کہہ کر باندھ ليجئے يعنی پہلی تکبير کے بعد ہاتھ باندھئے اس کے بعد دوسری اور تيسری تکبير ميں لٹکائيے اور چوتھی ميں ہاتھ باند ھ ليجئے ۔ اس کو يوں يادرکھئے کہ جہاں قِيام ميں تکبير کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھنے ہيں اور جہاں نہيں پڑھنا وہاں ہاتھ لٹکانے ہيں (ماخوذ از دُرِّمختار ،ردالمحتار ج۳ص۶۶) پھر امام تَعَوُّذاور تَسْمِيہ آہِستہ پڑھ کر الحمد شريف اور سورَۃ جَہر(یعنی بُلند آواز )کيساتھ پڑھے ، پھر رُکوع کرے ۔ دوسری رَکْعَت ميں پہلے الحمد شريف اور سُورۃ جَہر کے ساتھ پڑھے ، پھر تين بار کان تک ہاتھ اٹھا کر اللہُ اکبرکہئے اور ہاتھ نہ باندھئے اور چوتھی باربِغير ہاتھ اُٹھا ئے اللہُ اکبرکہتے ہوئے رُکوع ميں جائيے اور قاعِدے کے مطابِق نَماز مکمَّل کرلیجئے ۔ ہر دو تکبيروں کے درميان تين بار ” سُبحٰنَ اللہ” کہنے کی مِقدار چُپ کھڑا رَہنا ہے۔   (فتاویٰ عالمگيری ج۱ص۱۵۰)

عید کی ادھوری جماعت ملی تو۔۔۔۔۔۔؟

پہلی رَکعَت میں امام کے تکبیریں کہنے کے بعد مُقتَدی شامِل ہوا تو اُسی وَقت(تکبیرِ تَحریمہ کے عِلاوہ مزید) تین تکبیریں کہہ لے اگر چِہ امام نے قراءَ ت شروع کر دی ہوا ور تین ہی کہے اگر چِہ امام نے تین سے زِیادہ کہی ہوں اور اگر اس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رُکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیریں کہہ لے اور اگر امام کو رُکوع میں پایا اور غالِب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رُکوع میں پالیگاتو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رُکوع میں جائے ورنہ اللہُ اکبر کہہ کر رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رُکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اُٹھالیا
تو باقی ساقِط ہو گئیں(یعنی بَقِیَّہ تکبیریں اب نہ کہے)اور اگر امام کے رُکوع سے اُٹھنے کے بعد شامِل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ (امام کے سلام پھیرنے کے بعد)جب اپنی(بَقِیَّہ )پڑھے اُس وَقت کہے۔ اور رُکوع میں جہاں تکبیرکہنا بتایا گیا اُس میں ہاتھ نہ اُٹھائے اور اگر دوسری رَکْعَت میں شامِل ہوا تو پہلی رَکْعَت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اُس وَقت کہے۔ دوسری رَکعَت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پا جائے فَبِھا(یعنی تو بہتر)۔ ورنہ اس میں بھی وُہی تفصیل ہے جو پہلی رَکْعَت کے بارے میں مذکور ہوئی۔   (ماخوذ از دُرِّمختار وردالمحتار ج۳ص۵۵،۵۶،۵۷)

عید کی جماعت نہ ملی تو کیا کرے؟

امام نے نَماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامِل ہی نہ ہوا تھایا شامِل تو ہوا مگر اُس کی نَماز فاسِد ہو گئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ (بِغیر جماعت کے)نہیں پڑھ سکتا ۔ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شَخص چار رَکْعَت چاشت کی نَماز پڑھے۔               ( دُرِّ مختار ج۳ص۵۸،۵۹ )

عید کے خطبے کے احکام

نَماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے اور خُطبہ جُمُعہ میں جو چیزیں سنَّت ہیں اس میں بھی سنَّت ہیں اور جو وہاں مکروہ یہاں بھی مکروہ ۔صِرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ کہ
جُمُعہ کے پہلے خُطبہ سے پیشتر خطیب کا بیٹھنا سنَّت تھا اور اس میں نہ بیٹھنا سنَّت ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خُطبہ سے پیشتر9 بار اور دوسرے کے پہلے7 بار اور منبر سے اُترنے کے پہلے 14 بار اللہُ اکبر کہنا سنَّت ہے اور جُمُعہ میں نہیں۔
( دُرِّ مختار ج۳ص۵۷،۵۸،بہار شریعت حصّہ ۴ص۱۰۹ مدینۃ المرشد بریلی شریف )
Exit mobile version