اس وفد کے قائد حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے یہ ہجرت سے قبل ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا ہی عجیب ہے یہ ایک بڑے ہوش مند اور شعلہ بیان شاعر تھے۔ یہ کسی ضرورت سے مکہ آئے تو کفار قریش نے ان سے کہہ دیا کہ خبردار تم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے نہ ملنا اور ہر گز ہر گز ان کی بات نہ سننا۔ ان کے کلام میں ایسا جادو ہے کہ جو سن لیتا ہے وہ اپنا دین و مذہب چھوڑ بیٹھتا ہے اور عزیز و اقارب سے اس کا رشتہ کٹ جاتا ہے۔ یہ کفار مکہ کے فریب میں آ گئے اور اپنے کانوں میں انہوں نے روئی بھر لی کہ کہیں قرآن کی آواز کانوں میں نہ پڑ جائے۔ لیکن ایک دن صبح کو یہ حرم کعبہ میں گئے تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فجر کی نماز میں قراء ت فرما رہے تھے ایک دم قرآن کی آواز جو ان کے کان میں پڑی تو یہ قرآن کی فصاحت و بلاغت پر حیران رہ گئے اور کتابِ الٰہی کی عظمت اور اس کی تاثیر ربانی نے ان کے دل کو موہ لیا۔ جب حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا شانہ نبوت کو چلے تو یہ بے تابانہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور مکان میں آ کر آپ کے سامنے مودبانہ بیٹھ گئے اور اپنا اور قریش کی بدگوئیوں کا سارا حال سنا کر عرض کیا کہ خدا کی قسم! میں نے قرآن سے بڑھ کر فصیح و بلیغ آج تک کوئی کلام نہیں سنا۔ ﷲ! مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام کے چند احکام ان کے سامنے بیان فرما کر ان کو اسلام کی دعوت دی تو وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
پھر انہوں نے درخواست کی یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی علامت و کرامت عطا فرمائیے کہ جس کو دیکھ کر لوگ میری باتوں کی تصدیق کریں تا کہ میں اپنی قوم میں یہاں سے جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرما دی کہ الٰہی!تو ان کو ایک خاص قسم کا نور عطا فرما دے۔ چنانچہ اس دعاء نبوی کی بدولت ان کو یہ کرامت عطا ہوئی کہ ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کے مانند ایک نور چمکنے لگا۔ مگر انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ نور میرے سر میں منتقل ہو جائے۔ چنانچہ ان کا سر قندیل کی طرح چمکنے لگا۔ جب یہ اپنے قبیلہ میں پہنچے اور اسلام کی دعوت دینے لگے تو ان کے ماں باپ اور بیوی نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کی قوم مسلمان نہیں ہوئی بلکہ اسلام کی مخالفت پر تل گئی۔ یہ اپنی قوم کے اسلام سے مایوس ہوکر پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں چلے گئے اور اپنی قوم کی سرکشی اور سرتابی کا سارا حال بیان کیا تو آپ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پھر اپنی قوم میں چلے جاؤ اور نرمی کے ساتھ ان کو خدا کی طرف بلاتے رہو۔ چنانچہ یہ پھر اپنی قوم میں آ گئے اور لگاتار اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ ستر یا اسی گھرانوں میں اسلام کی روشنی پھیل گئی اور یہ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کر خیبر میں تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر خیبر کے مال غنیمت میں سے ان سب لوگوں کو حصہ عطا فرمایا۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۷۰)