(۱) اسی سال رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم سے پیدا ہوئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان سے بے پناہ محبت تھی۔ تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔
اتفاق سے جس دن ان کی وفات ہوئی سورج گرہن ہواچونکہ عربوں کا عقیدہ تھا کہ کسی عظیم الشان انسان کی موت پر سورج گرہن لگتا ہے۔ اس لئے لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا نتیجہ ہے۔ جاہلیت کے اس عقیدہ کو دور فرمانے کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ چاند اور سورج میں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نماز کسوف جماعت کے ساتھ پڑھی۔(2) (بخاری ج۱ ص۱۴۲ ابواب الکسو ف )
(۲)اسی سال حضور نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی۔ یہ صاحبزادی صاحبہ حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی منکوحہ تھیں۔ انہوں نے ایک فرزند جس کا نام ”علی” تھا اور ایک لڑکی جن کا نام ”امامہ”
تھا،اپنے بعد چھوڑا ۔حضرت بی بی فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وصیت پر عمل کیا۔ (1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۲۵)
(۳)اسی سال مدینہ میں غلہ کی گرانی بہت زیادہ بڑھ گئی تو صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے درخواست کی کہ یارسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ غلہ کا بھاؤ مقرر فرما دیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غلہ کی قیمت پر کنٹرول فرمانے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ اِنَّ اﷲَ ھُوَ الْمُسَعّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ اﷲ ہی بھاؤ مقرر فرمانے والا ہے وہی روزی کو تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا، روزی رساں ہے۔(2)
( مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۲۵)
(۴)بعض مؤرخین کے بقول اسی سال مسجد نبوی میں منبر شریف رکھا گیا۔ اس سے قبل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے اور بعض مؤرخین کا قول ہے کہ منبر ۷ھ میں رکھا گیا۔ یہ منبر لکڑی کا بنا ہوا تھا جو ایک انصاری عورت نے بنوا کر مسجد میں رکھوایا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاہا کہ میں اس منبر کو تبرکاً ملک شام لے جاؤں مگر انہوں نے جب اس کو اس کی جگہ سے ہٹایا تو اچانک سارے شہر میں ایسا اندھیرا چھا گیا کہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت شرمندہ ہوئے اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے معذرت خواہ ہوئے اور انہوں نے اس منبر کے نیچے تین سیڑھیوں کا اضافہ
کر دیا۔ جس سے منبر نبوی کی تینوں پرانی سیڑھیاں اوپر ہو گئیں تاکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم جن سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے اب دوسرا کوئی خطیب ان پر قدم نہ رکھے۔ جب یہ منبر بہت زیادہ پرانا ہو کر انتہائی کمزور ہو گیا تو خلفاء عباسیہ نے بھی اس کی مرمت کرائی۔ (1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۲۷)
(۵)اسی سال قبیلہ عبدالقیس کا وفد حاضر خدمت ہوا ۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو خوش آمدید کہااور ان لوگوں کے حق میں یوں دعا فرمائی کہ ”اے اﷲ!عزوجل توعبدالقیس کو بخش دے”جب یہ لوگ بارگاہ رسالت میں پہنچے تو اپنی سواریوں سے کود کر دوڑ پڑے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس قدم کو چومنے لگے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو منع نہیں فرمایا۔ (2) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۳۰)