۔ہمارے سماج کا یہ ایک بہت قابل افسوس اور درد ناک سانحہ ہے کہ تقریباً ہر گھر میں صدیوں سے ساس بہو کی لڑائی کا معرکہ جاری ہے۔ دنیا کی بڑی سے
بڑی لڑائیوں یہاں تک کہ عالمی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا مگر ساس بہو کی جنگ عظیم یہ ایک ایسی منحوس لڑائی ہے کہ تقریباً ہر گھر اس لڑائی کا میدان جنگ بنا ہواہے!
کس قدر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ ماں کتنے لاڈ پیار سے اپنے بیٹوں کو پالتی ہے اور جب لڑکے جوان ہو جاتے ہیں تو لڑکوں کی ماں اپنے بیٹوں کی شادی اور ان کا سہرا دیکھنے کے لئے سب سے زیادہ بے چین اور بے قرار رہتی ہے اور گھر گھر کا چکر لگا کر اپنے بیٹے کی دلہن تلاش کرتی پھرتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے پیار اور چاہ سے بیٹے کی شادی رچاتی ہے اور اپنے بیٹے کی شادی کا سہرا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی مگر جب غریب دلہن اپنا مَیکا چھوڑ کر اور اپنے ماں باپ بھائی بہن اور رشتہ ناتا والوں سے جدا ہو کر اپنے سسرال میں قدم رکھتی ہے تو ایک دم ساس بہو کی حریف بن کر اپنی بہو سے لڑنے لگتی ہے اور ساس بہو کی جنگ ہوجاتی ہے اور بے چارہ شوہر ماں اور بیوی کی لڑائی کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کچلنے اور پسنے لگتا ہے۔ غریب شوہر ایک طرف ماں کے احسانوں کے بوجھ سے دبا ہوا اور دوسری طرف بیوی کی محبت میں جکڑا ہوا ماں اور بیوی کی لڑائی کا منظر دیکھ دیکھ کر کوفت کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور اس کے لئے بڑی مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ اگر وہ اس لڑائی میں اپنی ماں کی حمایت کرتا ہے تو بیوی کے رونے دھونے اور اس کے طعنوں اور مَیکا چلی جانے کی دھمکیوں سے اس کا بھیجا کھولنے لگتا ہے۔ اور اگر بیوی کی پاسداری میں ایک لفظ بول دیتا ہے تو ماں اپنی چیخ و پکار اور کوسنوں سے سارا گھر سر پر اٹھالیتی ہے اور ساری برادری میں عورت کا مرید زن پرست بیوی کا غلمٹا کہلانے لگتا ہے اور ایسے گرم گرم اور دل خراش طعنے سنتا ہے کہ رنج و غم سے اس کے سینے میں دل پھٹنے لگتاہے۔
اس میں شک نہیں کہ ساس بہو کی لڑائی میں ساس بہو اور شوہر تینوں کا کچھ نہ کچھ قصور ضرور ہوتا ہے لیکن میرا برسوں کا تجربہ یہ ہے کہ اس لڑائی میں سب سے بڑا ہاتھ ساس کا ہوا کرتا ہے حالانکہ ہر ساس پہلے خود بھی بہو رہ چکی ہوتی ہے۔ مگر وہ اپنے بہو بن کر رہنے کا زمانہ بالکل بھول جاتی ہے اور اپنی بہو سے ضرور لڑائی کرتی ہے اور اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ جب تک لڑکے کی شادی نہیں ہوتی۔ سو فیصدی بیٹے کا تعلق ماں ہی سے ہوا کرتا ہے۔ بیٹا اپنی ساری کمائی اور جو سامان بھی لاتا ہے وہ اپنی ماں ہی کے ہاتھ میں دیتا ہے اور ہر چیز ماں ہی سے طلب کرکے استعمال کرتا ہے اور دن رات سینکڑوں مرتبہ اماں۔ اماں کہہ کر بات بات میں ماں کو پکارتا ہے۔ اس سے ماں کا کلیجہ خوشی سے پھول کر سیر بھر کا ہو جایا کرتا ہے اور ماں اس خیال میں مگن رہتی ہے کہ میں گھر کی مالکن ہوں۔ اور میرا بیٹا میرا فرماں بردار ہے لیکن شادی کے بعد بیٹے کی محبت بیوی کی طرف رخ کر لیتی ہے۔ اور بیٹا کچھ نہ کچھ اپنی بیوی کو دینے اور کچھ نہ کچھ اس سے مانگ کر لینے لگتا ہے تو ماں کو فطری طور پر بڑا جھٹکا لگتا ہے کہ میرا بیٹا کہ میں نے اس کو پال پوس کربڑاکیا۔اب یہ مجھ کو نظر انداز کر کے اپنی بیوی کے قبضہ میں چلا گیا۔ اب اماں ۔ اماں پکارنے کی بجائے بیگم بیگم پکارا کرتا ہے۔ پہلے اپنی کمائی مجھے دیتا تھا ۔ اب بیوی کے ہاتھ سے ہر چیز لیادیا کرتا ہے۔ اب گھر کی مالکن میں نہیں رہی اس خیال سے ماں پر ایک جھلاہٹ سوارہوجاتی ہے اور وہ بہو کو جذبہ حسد میں اپنی حریف اور مد مقابل بنا کر اس سے لڑائی جھگڑا کرنے لگتی ہے اور بہو میں طرح طرح کے عیب نکالنے لگتی ہے اور قسم قسم کے طعنے اور کوسنے دینا شروع کر دیتی ہے بہو شروع شروع میں تو یہ خیال کرکے کہ یہ میرے شوہر کی ماں ہے کچھ دنوں تک چپ رہتی ہے مگرجب ساس حد سے زیادہ بہو کے حلق میں انگلی ڈالنے لگتی ہے تو بہو کو بھی پہلے تو نفرت کی
متلی آنے لگتی ہے پھر وہ بھی ایک دم سینہ تان کر ساس کے آگے طعنوں اور کوسنوں کی قے کرنے لگتی ہے اور پھر معاملہ بڑھتے بڑھتے دونوں طرف سے ترکی بہ ترکی سوال و جواب کا تبادلہ ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ گالیوں کی بمباری شروع ہو جاتی ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے اس جنگ کے شعلے ساس اور بہو کے خاندانوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اور دونوں خاندانوں میں بھی جنگ عظیم شروع ہوجاتی ہے۔
میرے خیال میں اس لڑائی کے خاتمہ کی بہترین صورت یہی ہے کہ اس جنگ کے تینوں فریق یعنی ساس بہو اور بیٹا تینوں اپنے اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے لگیں تو ان شاء اﷲتعالیٰ ہمیشہ کے لئے اس جنگ کا خاتمہ یقینی ہے ان تینوں کے حقوق و فرائض کیا ہیں ؟ان کو بغور پڑھو۔