راہ پُرخار ہے کیا ہونا ہے

راہ پُرخار ہے کیا ہونا ہے
پاؤں     افگار ہے کیا ہونا ہے
خشک ہے خون کہ دشمن ظالِم
سخت خونخوار ہے کیا ہونا ہے
ہم کو بِد کر وہی کرنا جس سے
دوست بیزار ہے کیا ہونا ہے
تن کی اب کون خبر لے ہے ہے
دِل کا آزار ہے کیا ہونا ہے
میٹھے شربت دے مسیحا جب بھی
ضِد ہے اِنکار ہے کیا ہونا ہے
دل کہ تیمار ہمارا کرتا
آپ بیمار ہے کیا ہونا ہے
پَر کٹے تنگ قَفَس اور بُلبُل
نو گرفتار ہے کیا ہونا ہے
چھپ کے لوگوں     سے کیے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم بے پَروا دیکھ
سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے
تیرے بیمار کو میرے عیسیٰ
غش لگاتار ہے کیا ہونا ہے
نفس پُر زور کا وہ زور اور دِل
زیر ہے زار ہے کیا ہونا ہے
کام زِنداں     کے کیے اور ہمیں    
شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے
ہائے رے نیند مسافر تیری
کُوچ تیّار ہے کیا ہونا ہے
دُور جانا ہے رہا دِن تھوڑا
راہ دُشوار ہے کیا ہونا ہے
گھر بھی جانا ہے مُسافر کہ نہیں    
مت پہ کیا مَار ہے کیا ہونا ہے
جان ہَلکان ہوئی جاتی ہے
بار سا بار ہے کیا ہونا ہے
پار جانا ہے نہیں     مِلتی ناؤ
زَور پر دَھار ہے کیا ہونا ہے
راہ تو تیغ پر اور تلووں     کو
گِلۂ خار ہے کیا ہونا ہے
روشنی کی ہمیں     عادَت اور گھر
تیرئہ و تار ہے کیا ہونا ہے
بیچ میں     آگ کا دَریا حائِل
قصد اس پار ہے کیا ہونا ہے
اس کڑی دُھوپ کو کیوں     کر جھیلیں    
شعلہ زَن نار ہے کیا ہونا ہے
ہائے بِگڑی تو کہاں     آ کر ناؤ
عین منجدھار ہے کیا ہونا ہے
کل تو دیدار کا دن اور یہاں    
آنکھ بے کار ہے کیا ہونا ہے
مُنھ دکھانے کا نہیں     اور سحر
عام دَربار ہے کیا ہونا ہے
ان کو رَحم آئے تو آئے ورنہ
وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے
لے وہ حاکِم کے سپاہی آئے
صبح اظہار ہے کیا ہونا ہے
واں     نہیں     بات بنانے کی مجال
چارہ اِقرار ہے کیا ہونا ہے
ساتھ والوں     نے یہیں     چھوڑ دیا
بے کسی یار ہے کیا ہونا ہے
آخری دید ہے آؤ مِل لیں    
رنج بے کار ہے کیا ہونا ہے
دل ہمیں     تم سے لگانا ہی نہ تھا
اب سفر بار ہے کیا ہونا ہے
جانے والوں     پہ یہ رونا کیسا
بندہ ناچار ہے کیا ہونا ہے
نزع میں     دھیان نہ بٹ جائے کہیں    
یہ عبث پیار ہے کیا ہونا ہے
اس کا غم ہے کہ ہر اک کی صورت
گلے کا ہار ہے کیا ہونا ہے
باتیں     کچھ اور بھی تم سے کرتے
پر کہاں     وار ہے کیا ہونا ہے
کیوں     رضاؔ کُڑھتے ہو ہنستے اُٹھو
جب وہ غفّار ہے کیا ہونا ہے
٭…٭…٭…٭…٭…٭
Exit mobile version