دس گنا ثواب

دس گنا ثواب

سیّدُ المُرسَلِین، جنابِ رحمۃٌ لِّلْعٰلمِین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’جس نے مجھ پر ایک بار دُرُودِ پاک پڑھا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کیلئے دس نیکیا ں  لکھ دیتا ہے ، دس گُناہ مُعاف فرمادیتا ہے اور اس کے دس دَرَجات بُلند فرمادیتا ہے اور یہ دس غُلام آزاد کرنے کے برابر ہے ۔ ‘‘ (الترغیب والترھیب،کتاب الذکر والدعاء ،الترغیب فی اکثار الصلاۃ علی النبی، ۲/۳۲۲، حدیث :۲۵۷۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!پیارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے ، شبِ اسریٰ کے دُولہاصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی ذاتِ مُبارکہ پردُرُود وسَلام پڑھنے کے بے شُمار فَضائل وبَرکات ہیں  ۔ ہمیں  بھی اپنا ذِہن بنانا چاہئے کہ اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے، ذَوق وشوق کے ساتھ، ادب واِحتِرام کے ساتھ دُرُود وسَلام کی کثرت کریں  کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا ذِکرِ خَیرکرنا باعثِ نُزُولِ رَحمت ہے ۔ حضرتِ سَیِّدُناسُفْیان بن عُیَیْنَہ رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں  : ’’عِنْدَ ذِکْرِالصَّالِحِیْنَ تَنَزَّلُ الرَّحْمَۃ جہاں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کے نیک بندوں  کا ذِکرِخَیر ہوتا ہے وہاں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمتوں  کا نزول ہوتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء ، سفیان بن عیینۃ ،۷/۳۳۵،حدیث:۱۰۷۵۰)
جب نیک بندوں  کا ذِکر سببِ نُزُولِ رحمت ہے تو پھر اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ذِکر کا کیا عالم ہوگا اور پھر شاہِ خَیرُالْاَنامصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ذِکرِ خَیر کے تو کیا ہی کہنے ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب ، حبیبِ لبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ذِکرِ خَیرکے وَقت یقینا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رَحمتوں  کا نُزول ہو گا اور اس کی رَحمتوں  کی چَھم اچَھم برسات ہوگی کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تو سیِّدُالْاَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْ نہیں   ۔ 
اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسُنّت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اپنے مشہور ومعروف نعتیہ کلام ’’حَدَائِق بَخْشِش‘‘ میں  کیا خُوب فرماتے ہیں  :
خَلق سے اَولیاء،اَولیاء سے رُسُل اور رسولوں  سے اَعلیٰ ہمارا نبی
        ملک کونین میں  انبیا تاجدار   تاجداروں  کا آقا ہمَارا نبی                 
(حدائقِ بخشش،ص۱۳۸)
اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں  اپنے پیارے آقا، مکّی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے حد دَرَجہمَحَبَّت ہے اور کیوں  نہ ہوکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَحَبَّت کمالِ ایمان کے لئے شَرط ہے اس لئے ہم آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کثرت سے ذِکرِ خَیر کرتے ہیں  ،دُرُودِ پاک پڑھتے ہیں  کیونکہ انسان کو جس سے مَحَبَّت ہوتی ہے اس کا ذِکر کثرت سے کرتا ہے ۔ چُنانچہ

 ہادیٔ راہِ نَجات، سر ورِ کائنا ت، شاہِ موجوداتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’مَنْ اَحَبَّ شَیْأً اَکْثَرَ ذِکْرَہُ،یعنی انسان کو جس سے مَحَبَّت ہوتی ہے اس کا ذِکر کثرت سے کرتا ہے۔‘‘(زرقانی علی المواہب) اور پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرُود و سَلام کی کثرت کرنا تو اَہلِ سُنَّت کی علامت بھی ہے۔ چُنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا علی بن حُسین بن علی رَضی اﷲ تعالٰی عَنْہُم فرماتے ہیں  : ’’عَلَامَۃُ اَھْلِ السُّنَّۃِ کَثْرَۃُ الصَّلٰوۃِ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ یعنیرَسُو ل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر دُرُود کی کثرت کرنا اَہلِ سُنَّت کی عَلامت اور ان کا شعار ہے ۔‘‘(القول البدیع،الباب الاول فی الامر بالصلاۃ علی رسول اللّٰہ…الخ،ص ۱۳۱ )

ہم کو اللّٰہ اور نبی سے پیارے ہے
اِنْ شَآءََ اللّٰہ دو جہاں  میں  اپنا بیڑاپار ہے
   (وسائلِ بخشش،ص۶۰۰)

ذِکرِ رسُول ذِکرِخُداہے

یادرکھئے!آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر دُرُود پڑھنا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کا ذِکر کرنا ہے کیونکہ دُرُود شریف اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کے ذِکر پرمُشتمل ہے جیسا کہ حَنفِیوں  کے عَظِیْم پیشوا حضرت علَّامہعلی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْباری فرماتے ہیں  :’ ’لِاَنَّ الصَّلَاۃَعَلَیْہِ مُشْتَمِلَۃٌ عَلٰی ذِکْرِاللّٰہ وَتَعْظِیْمِ الرَّسُوْلِ، یعنی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامپر دُرُود پڑھنا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ذِکر اورنبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسْلِیم کی تَعْظِیم پر مُشتمِل ہے۔‘‘(مرقاۃ،کتاب الصلاۃ ،باب الصلاۃ علی النبی وفضلہا،۳/۱۷،تحت الحدیث:۹۲۹)

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا اپنے پیارے حبیب پر اِتنا کَرم ہے کہ اپنے پیارے مَحبوب کے ذِکر کوخُود اپناذِکر قرار دیتا ہے جیسا کہ حدیثِ قُدسی میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  فرماتا ہے: ’’اِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِیَ،اے مَحبوب !جب بھی میرا ذِکر ہوگا میرے ساتھ ساتھ تیرا بھی ذِکر ہوگا۔اِبنِ عطا اس حدیث کا مَطلب ان اَلفاظ میں  بیان کرتے ہیں  : ’’جَعَلْتُ تَمَامَ الْاِیْمَانِ بِذِکْرِکَ مَعِیَ،یعنی میں  نے ایمان کا مُکمل ہونا اس بات پر مَوقُوف کر دیا ہے کہ میرے ذِ کر کے ساتھ تمہا را ذِکر بھی ہوگا ۔‘‘ابن عطا مزید فرماتے ہیں  : ’’جَعَلْتُکَ ذِکْراً مِنْ ذِکْرِیْ،میں  نے آپ کے ذِکر کو اپنا ذِکر ٹھہرا دیا ہے۔‘‘فَمَنْ ذَکَرَکَ ذَکَرَنِیْ،توجس نے آپ کا ذِکر کیا اس نے میر اذِکر کیا۔‘‘(الشفابتعریف حقوق المصطفیٰ،ص۲۰)

حضرتِ سَیِّدُناابُو سعیدخُدْری رَضِی اﷲ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے کہ سرکارِ مدینۂ مُنوَّرہ، سردارِ مکۂ مکرَّمہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:  ’’میرے پاس جبرائیل عَلَیْہِ السّلام آئے اور کہا، اِنَّ رَبَّکَ یَقُوْلُ تَدْرِیْ کَیْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ؟ ‘‘آپ کا رَبّ فرماتا ہے :کیا تمہیں  معلوم ہے کہ میں  نے تمہارا ذِکر کس طرح بُلَنْد کیاہے ’’قُلْتُ اَللّٰہُ اَعْلَمُ‘‘ میں  نے کہا: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خُوب جا نتا ہے۔ ’’قَالَ اِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِی، فرمایا: جب میرا ذِکر ہو گا تو میرے ذِکر کے ساتھ تمہارا ذِکر بھی ہو گا۔‘‘(درمنثور،پ۳۰،الانشراح ،تحت الآیۃ:۴،۸/۵۴۹)
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کا ہے سایہ تجھ پر
  بول بالا ہے تیرا ذِکر ہے اُونچا تیرا
  (حدائقِ بخشش،ص۲۸)

حضرتِ سَیِّدُناعبدُاللّٰہ بن عباس رَضِی اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُماسے رِوایت ہے : لَا اُذْکَرُ فِیْ مَکَانٍ اِلَّا ذُکِرْتَ مَعِیَ یَامُحَمَّدُ ،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  نے فرمایا: اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)جہاں  میر اذِکر ہو گا وہاں  تیرا ذِکر بھی میرے ذِکر کے ساتھ ہوگا ۔  فَمَنْ ذَکَرَنِیْ وَلَمْ یَذْکُرْکَ، جس نے میرا ذِکر کیا اور تمہارا ذِکر نہ کیا ،لَیْسَ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ نَصِیْبٌ ‘‘تو جنَّت میں  اس کا کوئی حصّہ  نہیں   ہوگا۔ (در منثور،پ۳۰،الکوثر،تحت الآیۃ:۳،۸/ ۶۴۷)

ذکرِ خُدا جو اُن سے جُدا چاہو نَجْدِیو !
واللّٰہ! ذکرِ حق  نہیں   کُنْجِی سَقَر کی ہے
 (حدائقِ بخشش،ص۲۰۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِن رِوایات سے سرکارِ عالی وَقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ذِکر کی اَہَمِّیَّت کا اندازہ ہوتا ہے لہٰذا جب بھی پیارے آقا، مکّی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذکرِ خیر کیا جائے توآپ پر دُرُودوسَلام پڑھا جائے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نامِ نامی اسمِ گرامی سُن کرعِشق ومَستی میں  جُھوم کر اپنے اَنگوٹھوں  کوچُوم کر آنکھوں  سے لگا لینا چاہئے ، ہو سکتا ہے کہ ہماری یہی ادا اللّٰہ تعالیٰ کی بارگا ہ میں  مَقبول ہو جائے اور اللّٰہ  تعالیٰ ہم سے راضی ہو جا ئے اور اپنے پیارے مَحبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَدب واِحتِرام اورتَعْظِیم وتَوقِیر اور ان کی مَحَبَّت 

کے سبب ہماری مَغْفِرت فرمادے۔اس ضِمن میں  ایک روایت سُنئے اور اپنا اِیمان تازہ کیجئے ۔ چُنانچہ

حُضُور کی تَعْظِیم بَخْشِش
کا سبب بن گئی

حضرتِ سَیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہ رَضِی اﷲ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں  ایک ایسا شخص تھا جس نے اپنی زِندگی کے دو سو سال اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کی نافرمانی میں  گزارے اسی نافرمانی کے عالَم میں  اس کی موت واقع ہو گئی بنی اسرائیل نے اس کے مُردہ جسم کو ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹ کرگَندَگی کے ڈھیر پر پھینک دیا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے نبی حضرتِ سیِّدُنا مُوسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی طرف وَحْی بھیجی کہ اس کو وہاں  سے اُٹھا کر اس کی تَجْہِیْز وتَکْفِیْنکر کے اس کی نَمازِجنازہ پڑھو ۔ حضرتِ سَیِّدُنا موسیٰ  عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلامنے لوگوں  سے اس کے مُتعلِّق پوچھا تو اُنہوں  نے اس کے بَد کردار ہونے کی گواہی دی ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  عرض کی:’’یارَبّ عَزَّوَجَلَّ  !بنی اسرائیل تو اس کے بَدکردار ہونے کی گواہی دے رہے ہیں  کہ اس نے اپنی زِندگی کے دو سو سال تیری نافرمانی میں  گزارے ہیں  ؟‘‘ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی 

طرف وَحْی فرمائی کہ یہ ایسا ہی بَد کردار تھا ’’اِلَّااَنَّہُ کَانَ کُلَّمَانَشَرَالتَّوْرَاۃَ،مگر اس کی یہ عادت تھی کہ جب کبھی تَورات شریف پڑھنے کے لئے کھولتا‘‘  ’’وَنَظَرَاِلٰی اِسْمِ مُحَمَّدٍ‘‘ اورمحمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے اسمِ گرامی کی طرف دیکھتا ‘‘’’قَبَّلَہُ وَوَضَعَہُ عَلٰی عَیْنَیْہِ وَصَلّٰی عَلَیْہ،تو اس کو چُوم کر اپنی آنکھوں  سے لگا دیتا اور ان پر دُرُود پڑھتا ‘‘ ’’فَشَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ وَغَفَرْتُ ذُنُوْبَہُ‘‘پس میں  نے اس کے اس عَمل کی قَدر کی  اس کے گُناہوں  کو مُعاف فرمادیا ’’وَزَوَّجْتُہُ سَبْعِیْنَ حُوَرَاءَ‘‘ اور میں  نے اس کا نکاح سترّحُوروں  کے ساتھ کر دیا۔ (حِلیۃ الاولیاء،وہب بن منبہ،۴/۴۵،حدیث:۴۶۹۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ اس رِوایت نے تو اَہلِ اِیمان کے دل ودماغ کو مُعَطَّر ومُعَنْبَرکردیا کہ بنی اسرائیل کا ایسا شخص جس نے اپنی زِندگی کے دوسو سال اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کی نافرمانی میں  گزارے ،فِسْق وفُجور کرتا رہا، گُناہوں  کا بازار گرم رکھا لیکن اس کی یہ عادت تھی کہ جب کبھی وہ تَورات شریف کھولتا تو اس میں  ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کانامِ نامی اسمِ گرامی دیکھتا توفَرطِ مَحَبَّتسے اس کو چُوم لیتا اور اپنی آنکھوں  سے لگاتا اور دُرُود شریف پڑھتا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو اس کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس کے دوسو سال کے گُنا ہوں  کومُعاف فرمادیا اور اپنے جلیلُ القَدر پیغمبر 

حضرتِ سیِّدُنا مُوسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو اس کی نَمازِجنازہ پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا اور کرم بالائے کرم یہ کہ سترّ حُوروں  کے ساتھ اس کا نِکاح بھی کر دیا ۔یہ تو بنی اسرائیل کے ایک شخص پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم تھاتو بھلا اس مُسلمان کا کیا عالم ہوگا جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا اُ مَّتِی ہو کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے نامِ پاک کا اَدب واِحتِرام کر کے اس کوچُوم کر اپنی آنکھوں  سے لگاکر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر دُرُودوسَلام بھیجے گا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت سے قَوِی اُمید ہے کہ وہ اس سے راضی ہو کر اس کو بھی اپنے رَحم وکرم سے نوازے گا ۔

اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے نام مبارک ’’محمد‘‘ کو چُومنا جائز اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کی رضا کا باعث ہے اسی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا نامِ پاک سن کراپنے اَنگوٹھوں  کو چُومنا بھی جائزاور باعثِ بَرَکت اور سُنَّتِ صِدِّیق اکبر رَضِی اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہ ہے۔ چُنانچہ

سُنَّتِ صِدِّیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ 

حضرتِ سیِّدُناعلامہ شیخ اِسمٰعِیل حَقِّی علیہ رَحمۃُ اللّٰہِ القَوِیاپنی مایہ ناز تفسیر رُوْحُ الْبَیَان میں  نَقل فرماتے ہیں  : ’’ایک مرتبہ محبوبِ ربِّ کائنات، شَہَنْشاہ مَوجُودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممسجدِنَبَوِی شریف علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃ وَالسَّلام میں 
 تشریف لائے اورایک سُتُون کے پاس جَلوہ اَفروزہوئے حضرتِ سَیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رَضِی اﷲ تَعَالٰی عَنْہبھی آپ کے پاس بیٹھ گئے ،(اتنے میں  ) حضرتِ سَیِّدُنا بلال رَضِی اﷲ تَعالٰی عَنْہ اذان دینے لگے ، جب اُنہوں  نے ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداًرَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ کہا تو اس وَقت سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رَضی اﷲ تعالٰی عَنْہ نے اپنے دونوں  اَنگوٹھوں  کے ناخنوں  کو  اپنی دونوں  آنکھوں  پر رکھ کر ’’  قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ ،یعنی یارسُولَ اللّٰہ !آپ میری آنکھوں  کی ٹھنڈک ہیں  ‘‘ کہا ،پھر جب حضرتِ سَیِّدُنا بلال رَضی اﷲ تعالٰی عَنْہ اذان سے فارغ ہوئے تو سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اے ابُوبکر جو شخص تمہاری طرح کرے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے اگلے پچھلے، اِرادی غیر اِرادی تمام گُناہوں  کو بَخْش دے گا۔‘‘(روح البیان،پ۲۲،الاحزاب،تحت الآیۃ:۵۶،۷ /۲۲۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں  نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سچی مَحَبَّت عطافرما، آپ عَلَیْہِ السَّلام کی ذاتِ بابرکت پر کثرت سے دُرُود پاک پڑھنے کی توفیق عطافرما ،آپ کا نامِ پاک سُن کر فرطِ مَحَبَّت سے انگھوٹھے چُومنے کی سَعادت نصیب فرما اور ہماری بے حساب بَخشِش و مَغْفِرت فرما۔ 
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭…٭…٭…٭
Exit mobile version