اسلام

۔۔۔۔۔۔اسم تفضیل کا بیان۔۔۔۔۔۔

اسم تفضیل کی تعریف:
    وہ اسم مشتق ہے جو اس ذات پردلالت کرے جس میں دوسروں کے مقابلے میں معنی مصدری کی زیادتی ہو ۔ جیسے أَنْصَرُ(دوسروں کی نسبت زیادہ مدد کرنے والا)جس میں مصدری معنی کی زیادتی پائی جائے اسے مُفَضَّل اور جس کے مقابلے میں یہ زیادتی پائی جائے اسے مُفَضَّل علیہ کہتے ہیں ۔ جیسے أَلأُسْتَاذُ أَفْضَلُ مِنَ التِّلْمِیْذِ (استاذ شاگرد سے افضل ہے) اس میں أَلأُسْتَاذُ مفضل اورأَلتِّلْمِیْذ مفضل علیہ ہے۔ مذکر کیلئے اس کے واحد کا صیغہ أَفْعَلُ اور مونث کیلئے فُعْلی ٰکے وزن پرآتاہے۔ 
اس کا عمل:
    اسم تفضیل فعل کی طرح فاعل پرعمل کرتاہے یعنی اسے رفع دیتاہے۔ اسکا فاعل اکثر ھو ضمیر مستتر ہوتی ہے۔
اسم تفضیل کااستعمال:
اسم تفضیل کے استعمال کے تین طریقے ہیں۔
    ۱۔ الف لام کے ساتھ:۔ جیسے جَاءَ زَیْدُنِ الأَفْضَلُ  (فضیلت والازید آیا)۔
    ۲۔مِنْ کے ساتھ:۔ جیسے زَیْدٌ أَفْضَلُ مِنْ عَمْرٍو (زید عمرو سے زیادہ افضل ہے)۔
    ۳۔ اضافت کے ساتھ:۔ جیسے زَیْدٌ أَفْضَلُ الْقَوْمِ  (زید قوم میں سب سے افضل ہے) اسم تفضیل کا استعمال ان تین طریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ضرور ہوگا۔
اسم تفضیل کی تذکیر وتانیث:
    ٭۔۔۔۔۔۔جب اسم تفضیل کوحرف جر من کے ساتھ استعمال کیا جائے تو اسم تفضیل کا صیغہ ہمیشہ مفرد مذکر ہی استعمال ہوگا،اور اس کا موصوف کے مطابق ہونا شرط نہیں ۔جیسے سَلْمٰی أَجْدَرُ مِنْ أُخْتِھَا۔
    ٭۔۔۔۔۔۔ اگر اسم تفضیل نکرہ کی طرف مضاف ہو،تو اس صورت میں واحد مذکر لانا واجب ہے۔ جیسے زَیْدٌ أَفْضَلُ رَجُلٍ ، زَیْنَبُ أَکْبَرُ اِمْرَأَۃٍ ،ھَاتَانِ أَفْضَلُ اِمْرَأَتَیْنِ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔اگر اسم تفضیل معرفہ کی طرف مضاف ہوتو اس وقت دو صورتیں جائز ہیں ۔ یا تو ماقبل سے مطابقت رکھی جائے یا پھر واحد مذکر لایاجائے۔ جیسے أَلرِّجَالُ أَفْضَلُ النِّسَاءِ اور اَلرِّجَالُ أَفْضَلُوْالنِّسَاءِ دونوں جائز ہیں۔ اسی طرح عَائِشَۃُ أَعْلَمُ الزَّوْجَاتِ، عَائِشَۃُ عُلْمَی الزَّوْجَاتِ دونوں طرح جائز ہے۔    
    ٭۔۔۔۔۔۔ اگر اسم تفضیل الف لام کے ساتھ ہو تو اس صورت میں اسے ماقبل کے مطابق لانا واجب ہے۔ جیسے زَیْدُنِ الأَفْضَلُ ، أَلزَّیْدَانِ الأَفْضَلاَنِ ،أَلزَّیْدُوْنَ الأَفْضَلُوْنَ ۔ فَاطِمَۃُ الْفُضْلٰی ،أَلْفَاطِمَاتَانِ الْفُضْلَیَانِ ،أَلْفَاطِمَاتُ الْفُضْلَیَاتُ۔
اسم تفضیل کے چند ضروری قواعد:
    ٭۔۔۔۔۔۔ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ کثرت استعمال کی وجہ سے اسم تفضیل کے ہمزہ کو حذف کردیا جاتاہے۔ جیسے خَیْرٌ، شَرٌّ اصل میں أَخْیَرُ اور أَشَرُّتھے ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔ اسم تفضیل پر تنوین نہیں آتی کیونکہ یہ غیر منصرف ہوتاہے۔ 
    ٭۔۔۔۔۔۔اسم تفضیل صرف ثلاثی مجرد سے آتاہے۔ اس کیلئے بھی یہ شرط ہے کہ اس میں رنگ وعیب کے معنی نہ پائے جائیں ۔ 
    ٭۔۔۔۔۔۔اسم تفضیل کے استعمال کے تین طریقوں میں سے کوئی دو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ۔جیسے
اَلرَّجُلُ الأَفْضَلُ مِنْ زَیْدٍ پڑھنا جائز نہیں ۔جب مفضل علیہ معلوم ہو تو اسکو حذف کردینا جائز ہے۔ جیسے أَللہُ أَکْبَرُ دراصل أللہُ أَکْبَرُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ تھا۔
ترکیب:
اَلأُسْتَاذُ أَفْضَلُ مِنَ التِّلْمِیْذِ
    أَلأُسْتَاذُ مبتدا، أَفْضَلُ اسم تفضیل اس میں ھُوْ ضمیراس کا فاعل مِنْ جارأَلتِّلْمِیْذِ مجرور جار اپنے مجرور سے ملکر أَفْضَلُ کے متعلق ہوا، أَفْضَلُ اپنے فاعل اور متعلق سے مل کر شبہ جملہ اسمیہ ہو کر مبتدا کی خبر مبتدا اپنی خبر سے ملکر جملہ اسمیہ ہوا۔
ترکیب: زَیْدٌ أَفْضَلُ الْقَوْمِ۔
    زَیْدٌ مبتدا ،أَفْضَلُ اسم تفضیل اس میں ھُوَ ضمیر اس کا فاعل اسم تفضیل اپنے فاعل سے ملکر شبہ جملہ ہوکر مضاف ،اَلْقَوْمِ مضاف الیہ مضاف اپنے مضاف الیہ سے مل کر مبتدا کی خبر مبتدا اپنی خبر سے ملکر جملہ اسمیہ ہوا۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!