بدبودار منہ لے کر مسلمانوں کے مجمع میں جانے کی ممانعت
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: مسلمانوں کے مَجمَعوں ، درسِ قراٰن کی مجلسوں ، عُلَمائے دین و اولیائے کامِلین کی بارگاہوں میں بد بُو دار مُنہ لے کر نہ جاؤ۔( مراٰۃ ج۶ ص ۲۵ ) مزید فرماتے ہیں:جب تک مُنہ میں بد بُو رہے گھر میں ہی رہو ، مسلمانوں کے جلسوں ، مَجمَعوں میں نہ جاؤ۔ حُقّہ پینے والے ، تمباکو والا پان کھا کر کُلّی نہ کرنے والوں کو اس سے عبرت پکڑنی چاہئے ۔ فُقَہَائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی فرماتے ہیں:جسے گندہ دَہَنی کی بیماری ہو اُسے مسجِدوں کی حاضِری مُعاف ہے۔ ( مراٰۃ ج۶ ص ۲۶)
نماز کے او قات میں کچی پیاز کھانا کیسا ؟
سُوال: ”گندہ دَہَن” کو مسجِد کی حاضِری مُعاف ہے ، تو کیا کچّی پیاز والا رائتہ یا کچومر یا ایسے کباب سَموسے جن میں لہسن پیاز برابر پکے ہوئے نہ ہوں اور اُن کی بُو آتی ہویا مَسلی ہوئی باجرے کی روٹی جس میں کچّا لہسن شامل ہوتا ہے ایسی غذا وغیرہ جماعت سے کچھ دیر پہلے اس نیّت سے کھا سکتے ہیں کہ مُنہ میں بُو ہو جائے اور مسجِد کی جماعت واجِب نہ رہے!
جواب: ایسا کرنا جائز نہیں۔ مَثَلاً نَمازِ مغرِب کے بعد ایسا کچُومر یا سَلاد وغیرہ نہ کھائے جس میں کچّی مولی یا کچّی پیاز یا کچّا لہسن ہو کیوں کہ عشاء کی نَماز کا وَقت قریب ہوتا ہے اور اِتنی جلدی منہ صاف کر کے مسجِد میں پہنچنا دُشوار ۔ ہاں اگر جلد مُنہ صاف کرنا ممکِن ہے یا کسی اور وجہ سے مسجِد کی حاضِری سے معذور ہے مَثَلاً عورت۔ یا نَماز پڑھنے میں ابھی کافی دیر ہے اُس وقت تک بُو خَتْم ہو جائیگی تو کھانے میں مُضایَقہ نہیں۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:کچّا لہسن پیاز کھانا کہ بِلاشُبہہ حلال ہے اور اُسے کھا کر جب تک بُو زائِل نہ ہومسجِد میں جانا ممنوع مگر جو حقّہ ایسا کَثِیف (گاڑھا) و بے اِہتمام ہو کہ مَعَا ذَاللہ تَغَیُّرِ باقی( یعنی دیر پا بد بُو ) پیدا کرے کہ وقتِ جماعت
تک کُلّی سے بھی بَکُلّی( یعنی مکمَّل طور پر) زائِل نہ ہو تو قُربِ جماعت میں اس کا پینا شرعاً ناجائز کہ اب وہ تَرکِ جماعت و تَرکِ سجدہ یا بد بُو کے ساتھ دُخولِ مسجِد کا مُوجِب(سبب) ہو گا اور یہ دونوں ممنوع و ناجائز ہیں اور( یہ شرعی اصول ہے کہ) ہر مُباح فی نَفسِہٖ ( یعنی ہر وہ کام جو حقیقت میں جائز ہو مگر) امرِ ممنوع کی طرف مُؤَدّی( یعنی ممنوع کام کی طرف لے جانے والا) ہو مَمنوع و نارَوا( یعنی ناجائز ) ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ ج۲۵ ص ۹۴)